تحریر : عبدالوارث ساجد وہ اپنے زمانے کا سب سے بڑا مجتہد تھا، مجاہد تھا، داعی تھا اور پانچ سو سے زائد کتابوں کا مصنف تھا۔ ایسا دور اندیش کہ اس نے ہر مسئلے اور ہر موضوع پر کتاب لکھی۔ آٹھ صدیاں گزرنے کے بعد بھی دُنیا اس ہی کی کتابوں سے راہنمائی پا رہی ہے۔ تاریخ نے اسے ”شیخ الاسلام” کا لقب دیا۔ اس لئے کہ اس نے کوئی صنف ایسی نہ چھوڑی جس میں نام نہ کمایا ہو۔ دعوت کا میدان ہو یا جہاد کا، وہ ہر محاذ پر سب سے اول رہے۔ خدمت خلق ہو یا تالیف و تصنیف، تب بھی وہ پہلی ہی صف میں نظر آئے۔ خوش صورت اور نیک سیرت ایسے کہ مسلکی اختلاف رکھنے والے بھی ان کی دیانت کے گُن گائیں۔
وقت کی حکومت نے ان سب اوصاف کو ”جرم” گردانا اور اختلافِ رائے پر اسے اسکندریہ کے جیل خانے میں بند کر دیا۔ کلمہ حق کہنا جرم ٹھہرا یوں زبان بندی کے لئے بلند دیواروں کا سہارا لیا گیا۔ آواز بند ہوئی تو اس نے قلم کا سہارا لیا۔ قلم چھینا گیا تو اس نے کوئلے سے جیل کی دیواروں پر کلمہ حق رقم کرنا شروع کر دیا۔ وہ قید ہوئے، زبان بندی ہوئی، نظر بند بھی ہوئے، تشدد بھی ہوا، مگر ان کی فکر، سوچ اور حق گوئی نہ قید ہو سکی وہ نظر بند ہوئے مگر ان کی آواز بند نا ہو پائی۔ تاریخ آج بھی اسے اس کی قربانیوں کے ثمر سے ”ابن تیمیہ” کے نام سے جانتی ہے۔ تاریخ بتاتی ہے، اہل علم میں سے حق گوئی کا شغف رکھنے والے ہمیشہ قید و بند سے گزرے ہیں، مگر کسی بھی زمانے میں قید و بند انہیں جھکا سکی اور نہ ہی اس کی آواز دبا سکی۔
حکمران جس زمانے میں بھی ہوں، ان کا وطیرہ رہا ہے کہ وہ تاریخ کے پرانے صفحات پر نظر نہیں ڈالتے۔ وہ نہیں سوچتے کہ ان سے قبل بھی بہت سے حکمران آئے جو آج ماضی کے مزاروں میں دفن ہیں۔حکمرانی کا نشہ یہی تاثر دیتا ہے کہ انہیں کوئی ہلا نہیں سکتا اور اس نشے میں مدہوش صاحب اقتدار کو کوئی مرد مجاہد جگانے کی کوشش کرے تو وہ سنگین جرم قرار پاتا ہے۔ یہی جرم امام ابن تیمیہ”کا تھا اور اب اسی جرم کی پاداش میں حافظ محمد سعید نظر بند ہیں۔
تاریخ ہی یہ فیصلہ کرتی نظر آتی ہے کہ ہمیشہ سے فتح کلمہ گوئی کی ہوتی ہے۔ حق کا غلبہ ہوتا ہے اور اقتدار ہونے کے باوجود باطل قوتوں پر حق ہی غالب آتا ہے۔ دُنیا میں کوئی جیل ایسی نہیں کہ جس میں بند کرنے سے نظریہ بدل جائے۔ پابند سلاسل کرنے سے فکر تبدیل نہیں ہوتی اور نہ ہی دُنیا کا کوئی قید خانہ سوچ کو روک سکا ہے۔ ایسا ممکن ہوتا تو کشمیر کا سیّد علی گیلانی اپنی زندگی کا آدھا حصہ جیل میں نہ گزارتا۔ گھر میں کم اور جیل میں زیادہ شب و روز گزارنے والا سیّد زادہ آج بھی اسی فکر کے ساتھ جوان ہے۔ جو جذبہ اسے جوانی میں عطا ہوا تھا، وہ سینکڑوں بار جیل میں کیا مگر راستہ نہیں بھولا۔ اس کا نعرہ آج بھی یہی ہے اور ”کشمیر بنے گا پاکستان” وہ آج بڑھاپے میں بھی کانپتے ہونٹوں کے ساتھ یہی آواز بلند کرتا ہے کہ ”لے کے رہیں گے آزادی” اور جوانی سے بڑھاپا آگیا۔ عمر بیت گئی اس کی سوچ و فکر جذبے اور استے کو پابند سلاسل نہیں کیا جا سکا۔ آسیہ آندرابی کو کون بھول سکتا ہے۔
کشمیر کی وہ باہمت بیٹی جس نے سہاگ، بیٹے، گھر سب قربان کردیا مگر کشمیر کی آزادی کا جذبہ کم نہیں پڑنے دیا۔ درجنوں بار پابند سلاسل کے بعد بھارتی فوج اس بدگمانی میں رہی کہ اب دیوانہ آزادی نہیں مانگے گا مگر ایک آسیہ نے دختران ملت کی شکل میں ہزاروں آسیہ پیدا کر دیں۔ اس کا خاوند چوبیس سال سے جیل میں بند ہے، مگر بیوی آج بھی کشمیر بنے گا پاکستان کی آواز بلند کرتی نظر آتی ہے۔ یہی آزادی مانگنا ان کا جرم ہے۔ اس آواز کے مجرم حافظ سعید ہیں۔ جماعة الدعوة یا حافظ سعید کے لئے پابندیاں یا قید کوئی نئی چیز نہیں رہی۔ ابن تیمیہ کا یہ سپوت آواز حق بلند کرتے چھ بار پس دیوار زنداں رہا۔ وہی الزام اور وہی سزا مگر کلمہ حق کہنے والے کہاں باز آتے ہیں۔ ہاں جابر سلطان ضرور بدلہ۔ پہلی بار یہ مردِ درودیش 2001ء میں سہالہ ریسٹ ہائوس میں اس لئے نظر بند کر دیا گیا کہ یہ کشمیریوں کا سب سے بڑا ہمدرد ہے۔ یہ بھارت کو ظالم اور قابض کہتا ہے جو نہ بھارت کو پسند ہے نہ امریک کو پسند ہے۔ یہ سزا یہ اس کی آواز بند کر دی جائے تب پاکستان میں پرویز مشرف کی حکومت تھی۔جسے آمریت کہتے ہیں مگر اب تو جمہوریت کا راج ہے۔ جس میں سب کو حق حاصل ہوتا ہے اپنی بات کہنے کا، مگر اب پابندی کیوں؟ اور کس جرم میں؟ جانے یہ حکومت کس آواز کو دبانے پہ تُلی ہے؟ اس آواز کو جس پہ پابندی کی کوشش اس سے پہلے حاکم کرتے رہے۔
Kashmiris
حکومت بدل گئی اقتدار نہ رہا، مگر حق گوئی عادت صاحب اقتدار چھین نہ سکے۔ کشمیر کی آواز حافظ سعید کے لبوں سے ہر روز بلند ہوئی۔ منبر رسولۖ پر بھی اور پاکستان کے ہر شہر کے چوک چوراہے پر بھی اقتدار میں اور لوگ آئے تو بھی قید و بند کا سلسلہ نہ رُکا۔ وہ نظر بندی شیخوپورہ کے کینال ریسٹ ہائوس میں ہو یا پھر اسلام آباد میں کشمیریوں کے … میں حافظ سعید شریک کار رہے اور لاہور میں نظربندی اب کی بار تیسری قید ہے اور جرم اب بھی یہی ہے کہ کشمیریوں کے حق میں آواز بلند نہ … بھلا یہ کیسے ممکن ہے اس شخص کے لئے جس کے خمیر میں کلمہ حق کی آواز بلند کرتا ہو۔ اور وہ ابن تیمیہ کا سپوت ہو بقول شاعر
جس خاک کے ضمیر میں ہو آتش چنار ممکن نہیں کہ سرد ہو وہ خاک ارجمند