پچانوے سال کی طویل عمر پا کر بابا حیدر زمان اس دنیا سے چلے گئے انا للہ و انا الیہ راجعون۔میرا ان سے مدت سے تعلق تھا میرے کزن مختار گجر کے ساتھ وہ ڈسٹرکٹ کونسل ایبٹ آباد میں رہے میرے ماموں چودھری عبدالجبار کے حوالے سے بھی ہمارا تعلق بہت گہرا تھا۔بابا نے ایک صدی کے قریب عمر پائی آخر کارں اس دنیا سے بندے نے جانا ہی ہوتا ہے۔کسی پنجابی شاعر نے کیا خوب کہا ہے دنیا دے وچ رکھ فقیرا ایسا بیہن کھلون جیوندا رویں تے ہسن کھیڈن ٹر جاویں تے لوکی رون ٹی وی چینیلوں کے لئے ہزارہ کے اس فرزند جری کی خبر ایک سطری یا آدھے منٹ کی کہانی تھی البتہ جن چینیلز کی کاروباری دوستیاں ہزارہ کے ساتھ تھیں وہاں تبصرے مذاکرے جاری ہیں۔با با حیدر زمان ایک دھبنگ انسان تھے وہ لمبی داڑھی اور سفید لباس پہننے والے وہ فقیر تھے کہ جن کے بارے میں کہا جا سکتا ہے بابے دیاں گالاں گھیو دیاں نالاں۔کسی نے کیا خوب کہا کہ وہ گھاٹے کے سوداگر تھے۔میری قریبی دوستی اپنے ایک اچھے اور پرانے دوست ظفر کے کے ذریعے ہقئی پہلی تفصیلی ملاقات جدہ میں ہوئی برادر ظفر بیگ،بھائی سلطان کے ذریعے ملاقات ہوئی۔
سعودی ایر لائن میں ملازم سلطان بھائی کے گھر کی چھت پر ملے باتوں باتوں میں کہنے لگے اپنی کمائیاں تحفوں میں نہ ضائع کرو اسلام آباد کے آئی نائن میں انڈسٹریل پلاٹ لو اپنی نسلوں کا سوچو۔آج وہ اس دنیا میں نہیں کاش ان کی سنی ہوتی۔وہ جدہ میں متعدد بار آئے ان کے اعزاز میں سردار شبیر چودھری سلطان کے ساتھ مل کر آل پارٹیز کانفرنس کرائی۔ان کی ایک پرانی بات یاد آ گئی پچاسی کی دہائی میں شرفیہ ہوٹل جدہ میں انکے اعزاز میں ایک تقریب تھی وہاں ایک شخص جو محفل میں کافی گپ شپ لگا رہا تھا بابا جی نے کان میں کہا چودھری جی یہ بندہ جو بہت باتیں کر رہا ہے اس کا نام کیا ہے میں نے انہیں بتایا کہ یہ کالی تراڑ خانپور روڈ کے رہنے والے بھائی عبدالقیوم ہیں۔دوسرے ہی لمحے کہا قیقم او میں تداں سیناناں آں تو ں کالی تراڑاں ناں چودھری ایں۔بعد میں بھائی عبدالقیوم نے کہا یرا سردار صاحب بہت ذہین ہیں یہ صرف ایک بار میری بس میں بیٹھ کر خانپور سے ہری پور آئے تھے۔
کیا شخص تھے وہ کسی سے متاثر نہ ہوتے تھے ایک بار سردار ارشد عباسی نے ایک تقریب کا انعقاد یہاں اسلام آباد مین کیا ناظم تقریب کی ذمہ داری میرے پاس تھی۔تقریب میں سینیٹ کے سابق چیئرمین نیر بخاری نے باتوں باتوں میں کہہ دیا کہ کہ ہزارہ کے لوگوں نے نے اسلام آباد کو شاملات دیہ بنا لیا ہے اپنی باری پر با با نے کہا بخاری صاحب یاد رکھنا یہ جو اسلام آباد ہزارہ والے کے طفیل اسلام آباد بنا ہے ورنہ یہاں گیدڑ اڑوکتے اور تم لوگ وظیفے اور شیرنیوں پر گزارا کرتے۔کیا بندہ تھا منہ پے بات کرنی کوئی اس سے سیکھے۔اسے کوئی نہیں خرید سکا ہاں وہ گیدڑوں کا شیر کمانڈر تھا آج ہزارہ میں صف ماتم بچھی ہوئی ہے ہر کوئی بابے کے گن گا رہا ہے بابا یہ تھا با با وہ تھا لیکن مجھ سے پوچھئے تحریک صوبہ ہزارہ کو ناکام بنانے والوں نے اقتتدار کے مزے لوٹے با با وہیں رہ گیا سب اڑ گئے۔عملی زندگی میں یہ موسمی لیڈر بابے کو ایک کم فہم اور اڑگا شخص سمجھتے تھے کل ان کا جنازہ اٹھے گا دیکھئے گا کیا کیا القابات دیئے جائیں گے۔میں نے دو مرتبہ عمران خان صاحب کو با با جی سے ملاقات کے لئے مجبور کیا وہ دوستوں کے دوست تھے کہنے لگے جب عمران آئے گا تم سے بات کرائوں گا یہ ان کا طرز تخاطب ہے ۔جدہ میں موبائل پر کال آئی افتخار او ہاں گل کر عمران نال۔اور میں نے اپنے لیڈر سے کہا کچھ بھی ہو با با جی پارٹی میں آنے چاہئیں۔فقیر شخص تھا بادشاہوں کو تو کہہ کر پکارنے کا فن جانتا تھا۔میری بڑی کوشش تھی با با جی ایک بار قومی اسمبلی میں پہنچ جائیں لیکن انہوں نے سردار یعقوب کو تو اسمبلی میں پہنچا دیا لیکن افسوس سردار صاحب نے انہیں اسمبلی میں نہیں جانے دیا۔فیض کی نظم کا ٹاٹل تھا ڈھونڈو گے اگر ۔۔۔۔۔ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم۔بابے کی جھونپڑی سے وزیر سپیکر سب نکلے مگر اس نے انا کا سودا نہیں کیا ۔نواز شریف نے وزارت کے لالچ اور بریف کیس پیش کئے بابے نے انکار نہیں اسے دھتکار دیا۔مجھے بتایا کہ میں نے کہا نواز شریف تم سب کو خرید سکتے ہو لیکن حیدر زمان کو نہیں۔اس کا بدلہ نواز شریف نے ان سے عدم اعتماد کرا کے لیا۔مجھے سچ پوچھیں پورے ہزارے میں قحط الرجالی نظر آئی مانسہرہ کے سردار یوسف سے لے کر ہری پور کے گوہر ایوب خان ۔عربی کی مثال ہے رجل کثیرا رجال قلیل بندے تو بہت ہیں مگر بندہ کوئی نہیں۔میرے دوست ہیں سردار یوسف اللہ سلامت رکھے مگر وہ اور سید اور یہ اور سید۔گوہر ایوب کی کیا کہئے ایک بار ہری پور کا نام نواز شریف رکھنے کی تجویز دے دی۔
ایک بار ظفر بیگ با با جی شکیل افتخار اور میں سری کوٹ پیر صابر شاہ کے مہمان ہوئے رات کو سوتے وقت گپ شپ ہوئی تو میں نے کہا یہ کیا خوبصورت لمحات ہیں کہ ہم آپ کی میزبانی سے لطف اندوز ہو رہے ہیں سینیٹر صابر شاہ کی بذلہ سنجی انتہا کو چھوئی اور کہاں جی ہاں چودھری صاحب وہ وقت بھی جلد آنے والا ہے جب میں با با جی کی چارپائی والی جگہ پر کھڑا ہو کر کہوں گا کیا عظیم منجھی ہے جس عظیم بابا سویا تھا۔با با جی نے فورا جواب دیا صابر اتنا ترکھا میں وی مرناں ناں۔صوبہ بنسی تئے جاساں۔ صوبے کی منزل دور ہی نہیں بہت دور ہے۔معاف کرنا ہزارہ نے لیڈران تو پیدا کئے مگر قائد نہیں۔حیدر زمان صدیوں میں پیدا ہوں گے۔ہمارے بچے ہمارے نوجوان ایک ایسے شخص کے فیصلے کی نظر ہو گئے جو تیسری بار وزیر اعظم بننا چاہتا تھا وہ بن گیا مگر ہم سے ہماری شناخت چھین کر اس نے لسانیت پرست سنپولیوں سے دوستی کی ۔آج ہزارہ اپنی شناخت کھو چکا ہے۔بابے کی منجھی پر جتنا بین کرنا ہے کر لو لیکن یہ یاد رکھنا ہم نے اس عظیم شخص کو کلیاں کر کے مارا ہے۔
بابا اگر میری مانتے تو پی ٹی آئی کا ٹکٹ ان کے پاس تھا لیکن انہوں نے کہا نہیں پی ٹی آئی یہ سیٹ میرے لئے خالی چھوڑے۔ان کا کہنا تھا شیخ رشید کی طرز پر مجھے اسمبلی میں جانے دو۔کہتے ہیں بہت خوبصورت زمین ہزارہ جہاں آدمی کا ہے مشکل گزارہ۔یہ ہیرا ہمارا تھا ہی نہیں۔جدہ میں گئے تو ایک حجام کے پاس لے گیا شہباز بھٹی پی ٹی آئی کا ورکر تھا اس نے بابا جی کی داڑھی بال اور خط کئے میں نے پیسے دینے کی کوشش کی نہیں لئے کہنے لگے شہباز اج توں بعد توں میرا سنگی ایں پاکستان آئیں تے ملیں۔آج شہباز بھی اداس ہو گا جدہ کے میرے دوست ریاض گھمن بھی پریشان ملک محی الدین،ریاض بخاری ان لوگوں نے آل پارٹیز کانفرنس میں با با جی کو خراج تحسین پیش کیا آج حامد خان کا پیغام بھی تھا کہ ہزارے کی شان اس دنیا سے رخصت ہوئی۔
صوبہ ہزارہ کی تحریک بڑی کامیابی سے چلی لیکن جب انہوں نے پارٹی رجسٹرڈ کرائی تو سب اڑ گے۔بہت سے لوگ اسمبلیوں میں پہچے منصب حاصل کئے مگر یاد رکھئے مردہ لاشوں کے کندھوں پر جتنے میڈل بھی پہنائو گے وہ بابے کے سامنے مردہ ہی رہیں گے۔میں نے جب یہ سنا کہ کسی نے یہ الزام لگایا ہے کہ با با جی نے اے این پی سے پیسے لئے ہیں تو یقین کریں جی چاہا کہ اس کا منہ نوچ لوں۔با با جی وہ فقیر تھے جنہیں لوگ دے کر فخر محسوس کرتے تھے اور وہ لوٹا کر گھر پہنچتے تھے۔کہتے ہیں دلیری اور بے وقوفی دو بہنیں ہیں۔جن کی نظر میں دنیاوی جاہ و حشمت کوئی چیز ہے بابا جی ان کی نظر میں سمجھدار نہ تھے اور جنہیں یہ علم ہے کہ زندہ کون ہوتا ہے انہیں تاریخ کے پنوں میں زندہ رہنے والوں میں با با حیدر زمان دکھائی دیں گے۔ہزارے کے جھرنے آبشاریں اس کے میدان کسیاں کھڑپے موڑ سب زندہ رہیں لیکن سچ پوچھو آج ہزارہ یتیم ہو گیا ہے۔جا او بابا اللہ تیری قبر ٹھنڈی کرے آمین۔
دنیا دے وچ رکھ فقیرا ۔۔۔۔۔۔۔ ( لکھاری تحریک انصاف کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری اطلاعات اور نلہ یو سی جبری ہری پور سے بنیادی تعلق ہے)