دنیا بھر میں 180 سے زائد ملک کرونا وائرس کی تباہ کاریوں کا شکار ہو چکے ہیں۔ اب تک ہزاروں افراد اس مہلک وبا کے سبب اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے او رلاکھوں متاثر ہوئے ہیں۔ ماضی میں بھی مختلف قسم کے وائرس پھیلتے رہے اور ان میں اموات کی شرح بھی زیادہ رہی ہے لیکن کرونانے جس تیزی سے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ پاکستان میں بھی کرونا کے مریض دو ہزار سے زائد ہو چکے ہیں اور اس تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اسی طرح دیگر مختلف ملکوں کی طرح سعودی عرب اور دوسرے اسلامی ملک بھی ا س وبا سے متاثر ہوئے ہیں۔برادر ملک سعودی عرب چونکہ پوری مسلم دنیا کا دینی مرکز ہے اور زائرین کی بہت بڑی تعداد حج و عمرہ کیلئے یہاں آتی ہے، اس لئے حرمین الشریفین اور دیگر مقامات پر لاکھوں لوگ موجود ہوتے ہیں جن کی صحت و سلامتی کا تحفظ مملکت کی ذمہ داریوں میں شامل ہے اورسعودی حکومت اپنے اس فریضہ کو بخوبی انجام دیتی آرہی ہے۔ پچھلے کچھ عرصہ میں جب سے کورونا کی وبا پھیلی ہے خادم الحرمین الشریفین کی ہدایات پر زائرین کی حفاظت کیلئے خصوصی انتظامات کئے جارہے ہیں۔ اگرچہ دنیا بھر سے آنے والے لاکھوں زائرین کی موجودگی کے سبب یہاں وبا پھیلنے کے خطرات بہت زیادہ تھے تاہم سعودی حکومت نے جس طرح سکریننگ کے بہترین انتظامات کئے اور احتیاطی تدابیر اختیار کی گئیں اس سے برادر ملک یقینی طور پر دوسرے ملکوں کی نسبت بہت حد تک محفوظ رہا ہے اور اللہ کے فضل وکرم سے یہ مہلک وبا اس طرح شدت اختیار نہیں کر سکی جس طرح اٹلی، سپین، ایران اور دوسرے ملکوں میں پھیلی ہے۔
سعودی عرب کی پوری سرکاری مشینری اس وقت کورونا کی وبا پر قابو پانے کیلئے کوششیں کر رہی ہے۔ آئندہ دنوں میں چونکہ رمضان المبارک آرہا ہے اور پھر اس کے بعد حج کے ایام بھی قریب ہیں اس لئے سعودی حکومت اور اس کے تمام ادارے دن رات کورونا وائرس کا پھیلائو روکنے کی خاطر عملی کاوشوں میں مصروف ہیں۔ بیت اللہ شریف اور مسجد نبوی ۖمیں خاص طور پر جراثیم کش سپرے وغیرہ کا اہتمام کیاجارہا ہے ۔ بڑے فائیو سٹار ہوٹلز کو قرنطینہ سینٹرز میں تبدیل کر دیا گیا ہے اور جن لوگوں کو یہاں رکھا گیا ہے انہیں وزارت صحت کے تعاون سے اعلیٰ ترین سہولیات فراہم کی جارہی ہیں۔ کورونا کی وبا نے جب دنیا میں شدت اختیار کی تو تقریبا 12سو سے زائد افراد جہازوں کی آمدورفت کے باعث سعودی عرب میں پھنس گئے اور وہ اپنے ملکوں میں واپس نہیں جا سکتے تھے۔ اس دوران سعودی حکام نے انہیں مختلف فائیوسٹار ہوٹلزمیں ٹھہرا کر ان کی بھرپور خدمت کی ۔ خادم الحرمین الشریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز کی طرف سے خاص طور پر ہدایت کی گئی کہ مملکت کے علاوہ بھی کسی ملک کا شہری حتیٰ کہ غیرقانونی طور پر رہائش پذیر شخص بھی اگر کورونا وائرس کا شکار ہو جائے تو اسے مفت طبی سہولیات فراہم کی جائیں اور ان کے علاج معالجہ میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی جائے۔ ان کے اس اعلان کو پوری دنیا میں سراہا گیا اورڈبلیو ایچ او کی طرف سے بھی اس کی تحسین کی گئی۔
مسلم امہ کا دینی مرکز ہونے کے ناطے سعودی عرب کو اللہ تعالیٰ نے اسلام اور مسلمانوں کی خدمت کیلئے مسخر کر دیا ہے۔ اس کی عملی مثالیں ہمیں ہر موقع پر دیکھنے کو ملتی ہیں۔ کورونا وبا کے دوران بھی برادر اسلامی ملک جو لازوال کردار ادا کر رہا ہے اسے تادیر یاد رکھا جائے گا۔اس وائرس کے پھیلنے پر ایک مخصوص لابی کی طرف سے سوشل میڈیا پر گمراہ کن پروپیگنڈہ کیا گیا کہ دیکھیں اب تو طواف بھی روک دیا گیا ہے اور امسال حج کی ادائیگی بھی نہیں ہو سکے گی حالانکہ بیت اللہ شریف اور مسجد نبوی ۖ خالی کروا کے اگر جراثیم کش سپرے وغیرہ کا اہتمام کیا جاتاہے تو یہ زائرین کی حفاظت کیلئے ہے۔حقیقت ہے کہ اس عمل کو متنازعہ بنانے کی بجائے اس کی تو تحسین کی جانی چاہیے تھی مگر افسوس کہ محض سعودی عرب کی مخالفت میں ایسی بے پر کی اڑائی گئیں کہ جن کا حقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہیں تھا۔بہرحال امسال حج ملتوی ہونے کی قیاس آرائیاں سامنے آئیں تو وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں قائم سعودی سفارت خانے کی جانب سے کہا گیا کہ حج ہو گا لیکن حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کرنے کیلئے جانیو الوں کو کورونا کا ٹیسٹ کروانا پڑے گا یعنی صرف صحت مند افراد ہی حج پر جا سکیں گے۔
اسی طرح سعودی حکومت کی طرف سے کورونا وائرس کے خدشات کے پیش نظر پاکستان کو حج معاہدوں سے روکنے کی خبریں منظر عام پر آئیں توایک مرتبہ پھر پروپیگنڈہ مشینری حرکت میںا گئی تاہم پاکستان میں مذہبی امور کے وزیر پیر نورالحق قادری نے کہا کہ سعودی وزارت حج نے انہیں صرف ٹرانسپورٹ، ہوٹل اور بلڈنگ کا حتمی معاہدہ فی الحال مئوخر کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ حج ملتوی کرنے جیسے بڑے اعلان سے پہلے سعودی حکومت بڑے اسلامی مملک سے مشاورت ضرور کریں گے۔ حج کے حوالہ سے انہی خبروں کے دوران سعودی وزیر حج و عمرہ ڈاکٹر محمد بن صالح بنتن نے ایک تفصیلی انٹرویود یا جس میں انہوں نے واضح طور پر کہا ہے کہ مملکت سعودی عرب حجاج کرام اور عمرہ زائدین کی ہر حال میں خدمت کیلئے پوری طرح تیار ہے۔ حالیہ دنوں میں چونکہ سبھی ملکوں کو ایک عالمی وبا کا سامنا ہے اس لئے تمام مسلمان ملکوں سے درخواست کی گئی ہے کہ جب تک صورتحال مکمل طور پر واضح نہیں ہو جاتی حج معاہدے نہ کئے جائیں۔ سعودی حکومت حالات پر مکمل طور پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ سب مسلمانوں کو اس وبا سے محفوظ رہے۔
سعودی وزیر نے بتایا کہ جب ویزہ سروس بند کی گئی تو تقریبا پانچ لاکھ عمرہ زائرین موجود تھے۔ یہ ایک مشکل مرحلہ تھا لیکن وزارت داخلہ، وزارت حج و عمرہ، سول ایوی ایشن اتھارٹی، وزارت مواصلات اورپاسپورٹ اینڈ امیگریشن اتھارٹی نے بھرپور انداز میں اپنی ذمہ داریاں ادا کیں۔ اسی طرح پرائیویٹ سیکٹر کو بھی ہم نظرانداز نہیں کر سکتے ،عمرہ کمپنیوں نے تقریبا پانچ دن میں 68ہزار لوگوں کو ان کے ملکوں میں بھیجنے کے انتظامات کئے۔ یہ بہت بڑی کاوش تھی ۔ تمام سعودی ادارے اللہ سے اجر کی امید رکھتے ہوئے رب تعالیٰ کے مہمانوں کی خدمت میں شریک رہے اور اللہ رب العزت نے ہمیں سرخرو کیا۔انہوں نے کہاکہ خوشی کی بات ہے کہ آج لوگ خانہ کعبہ کا طواف کر رہے ہیں۔ اگرچہ ابھی ان کی تعداد کم ہے البتہ آنے والے دنوں میںسعودی حکومت عازمین حج و عمرہ کی بھرپور خدمت کیلئے پرعزم ہے۔
ڈاکٹر محمد بن صالح بنتن کا کہنا تھا کہ وزارت حج و عمرہ نے غیر ملکی کمپنیوں سے رابطہ کیا اور اس بات کا خیال رکھا ہے کہ ان تمام افراد کو جنہوں نے عمرہ پیکج کی ادائیگی کر دی تھی ان کی رقم واپس کی جائے۔ اس معاملہ کی آن لائن کنفرمیشن بھی کی گئی ہے ۔سعودی وزیرحج و عمرہ کے تفصیلی انٹرویو سے حج و دیگر معاملات کے حوالہ سے بہت سی چیزیں واضح ہوئی ہیں۔ پاکستانی وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی ان کی گفتگو کی تائید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہمارے بہت سے عمرہ زائرین سعودی عرب میں پھنس گئے تھے جن کی اکثریت بخیریت اپنے گھروں کوواپس پہنچ چکی ہے۔ اس تعاون پر ہم مملکت سعودی عرب کے شکرگزار ہیں۔
انہوں نے سعودی وزیر خارجہ فیصل بن فرحان سے ٹیلیفونک گفتگو کے دوران انہیں جی 20ممالک کے کامیاب اجلاس کے انعقاد پر مبارکباد پیش کی اور حوثی باغیوں کی طرف سے سعودی عرب پر کئے جانے والے میزائل حملوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ حالات میں جب پوری دنیا کورونا کا پھیلائو روکنے کیلئے اقداما ت کر رہی ہے ایسے حملے افسوسناک ہیں۔ شاہ محمود قریشی کی سعودی وزیرخارجہ سے قرضوں کی ری سٹرکچرنگ کے حوالہ سے بھی بات چیت ہوئی جس پر توقع کی جارہی ہے کہ آنے والے دنوں میں پاکستان پر کسی حد تک قرضوں کا بوجھ کم ہو جائے گا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب مل کر او آئی سی اور دیگر ممالک سے رابطے کریں اور کورونا کی وبا پر قابو پانے کیلئے مشترکہ کوششیں کی جائیں۔ اللہ تعالیٰ ضرور ان شاء اللہ کامیابیوں سے نوازے گا۔