اسلام آباد (جیوڈیسک) سپریم کورٹ میں حج کرپشن کیس کی سماعت ہوئی، چیف جسٹس کہتے ہیں کسی کو گھر بیٹھے استثنی نہیں مل جاتا۔ چھبیس کروڑ روپے کی وصولیاں کرنی ہیں ایک آنا وصول نہیں ہوا۔ اسلام آباد سپریم کورٹ میں حج کرپشن کیس کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ عدالت کو بتایا جائے کہ اس کیس کو اور کتنے عرصے تک چلانا ہے، ملک کے اندر اور باہر سے شواہد اکھٹے کرنا ہے۔
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا کہ چھبیس کروڑ روپے کی وصولیاں کرنی ہیں، ایک آنا وصول نہیں ہوا۔ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے وکیل بھی عدالت میں پیش ہوئے انہوں نے موقف اختیار کیا کہ ہمیں وزارت قانون نے رائے دی تھی کہ وزیراعظم کو اس کیس میں استثنی حاصل ہے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل شاہ خاور نے کہا کہ مجھے وزارت قانون کی اس رائے پر حیرت ہے۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے ریمارکس دیئے کہ گھر بیٹھے کسی کو استثنی نہیں ملتا۔
ایف آئی اے کے تفتیشی افسر حسین اصغر نے عدالت کو بتایا کہ سعودی عرب مقدمے کی تحقیقات میں تعاون نہیں کر رہا۔ عدالت نے استفسار کیا کہ ملزم احمد فیض کی گرفتاری کے حوالے سے کیا پیشرفت ہوئی ہے جس پر ایف آئی اے حکام نے کہا کہ حکومتی سطح پر سعودی عرب سے رابطے میں ہیں، احمد فیض کی گرفتاری کیلیے ریڈ نوٹس جاری ہو چکا تاہم یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ احمد فیض سعودیہ میں ہی ہے۔ حسین اصغر نے عدالت کو بتایا کہ ہم نے جس مقام کی نشاندہی کی وہاں سعودی حکومت نے چھاپہ نہیں مارا۔
جسٹس گلزار نے کہا کہ سعودی عرب والوں کے پاس سب کی رپورٹ ہوتی ہے، سعودی حکومت غیرقانونی مقیم اور سفری دستاویزات نہ رکھنے والے ہزاروں لوگوں کو بے دخل کر رہی ہے۔ ایف آئی اے حکام نے عدالت کو بتایا کہ دوسرے ملزم را شکیل کی جائیداد ضبط کر لی ہے۔ آئندہ سماعت پر مقدمے میں ہونیوالی پیشرفت سے متعلق رپورٹ عدالت میں پیش کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے حج کرپشن کیس کی سماعت تیئس جولائی تک ملتوی کر دی۔