تحریر: سید انور محمود تیل کی دریافت سے پہلے بیسویں صدی کے وسط تک حج سیزن سے حاصل ہونے والی آمدنی سعودی اقتصادیات میں اہم کردار ادا کرتی تھی۔ بعد ازاں تیل کی دریافت کے بعد سعودی عرب کی قسمت بدل گئی اور یوں یہ خطے کے امیر ترین ممالک کی فہرست میں شامل ہو گیا۔ سعودی شاہی خاندان نے علاقائی سطح پر سیاسی اور اقتصادی معاملات میں بھی اپنا اثرورسوخ بڑھایا۔ 1973ء کی عرب اسرائیل جنگ سے پہلے پاکستانی اخبارات میں سعودی ایر لائن کا ایک اشتہار چھپا کرتا تھاجس کی عبارت کچھ یوں تھی “اگرآپ لندن کا سفر کرنے والے ہیں تو عمرہ کرتے ہوئے لندن جائیں”۔
پھر 1973ء میں عرب اسرا ئیل جنگ میں پہلی بار تیل کا ہتھیاراستعمال ہوا تو تیل کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں اور سعودی ایر لائن کا لندن والا اشتہار پھرکبھی نظر نہیں آیا۔ 1990ء میں خلیجی جنگ کے بعد تیل کی قیمتوں میں کمی آنا شروع ہوئی تو سعودی عرب کے بجٹ پر بھی اُس کا اثر دیکھنے کو ملا۔ لیکن اس بات کا یہ مطلب ہرگز نہ نکالا جائے کہ سعودی عرب غریب ملک ہوگیا ہے کیوں کہ اب سعودی حکمراں کاروباری ہوگئے ہیں اور انہوں نے تیل کے علاوہ حج اورعمرےکواپنی آمدنی میں اضافے کا ذریعہ بنالیا ہے۔
خانہ کعبہ سے باہر جاتے وقت زیادہ ترباب عبدالعزیز کا استعمال ہوتا ہے۔ 1990ء تک باب عبدالعزیز کے سامنے موجود اجیاد محلے کے چھوٹے چھوٹے گھر موجود تھے جو عام غریب سعودیوں کی ملکیت تھے۔ سعودی حکومت نے حرم کی توسیع کے لیے یہ گھران سے خرید لیے۔ ان مالکان کو مکانات کے عوض معقول رقم بھی ادا کی گئی لیکن درحقیقت یہ گھر حرم کی توسیع سے زیادہ کاروباری و سیاحتی مراکز قائم کرنے کے لیے خریدے گئے تھے۔
Saudi Hotels
ان مکانات کے خریدار سعودی شہزادے تھے جنہوں نے ان تاریخی مکانات کی جگہ پنج ستارہ ہوٹلوں کا جمعہ بازار لگادیا ہے۔ آج سعودی عرب میں واقع مسلمانوں کے مقدس ترین مقامات کے ارد گرد فائیو اسٹار ہوٹلوں، شاپنگ مالز اور لگژری اپارٹمنٹس کو دیکھتے ہوئے معلوم ہوتا ہے کہ سعودی حکومت نے عمرے اور حج کے مذہبی فریضوں کو ایک اقتصادی سرگرمی میں بدل دیا ہے۔ حج ریسرچ سینٹر کے بانی سمیع انگاوی نے 2012ء میں دی گارڈین سے مکہ توسیع منصوبے پر بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ”یہ اس مقام مقدس کو ایک ایسی مشین میں بدل رہے ہیں جس کی کوئی ثقافت، کوئی ورثہ، کوئی شناخت اور کوئی فطری ماحول نہیں”۔
گیارہ ستمبر کو مسجد الحرام میں کرین کے حادثے میں 107 زائرین شہید ہوئے جبکہ 200 سے زائد زخمی ہوئے، متاثرہ افراد نماز مغرب کی ادائیگی کے لیے اکٹھے ہوئے تھے۔ حاجیوں کی سہولت اور حفاظت کے نام پر تعمیرات کے لیے کئی سالوں سے مکہ مکرمہ میں نصب ان کرینوں نے جہاں مکہ مکرمہ کے ثقافتی چہرے کو بدلا و ہیں اب انسانی جانوں کا خراج بھی وصول کرلیا۔ جمعرات 24 ستمبر کو مناسک حج کے دوران منیٰ کے مقام پر شیطان کو کنکریاں مارتے ہوئے جو بھگدڑ مچی، اس میں اب تک 769 افراد شہید ہوچکے ہیں جبکہ 934 افراد زخمی ہوئے ہیں۔
سعودی وزیر صحت خالدالفالح کے مطابق سانحہ حجاج کے ایک گروہ کی بدنظمی کے باعث پیش آیا ، انہوں نے منیٰ کے مقام پر اس بھگدڑ کا الزام ’بدنظم‘ افریقی حاجیوں پر عائد کیا ہے۔ سعودی حکومت کے مطابق ان حاجیوں نے ہدایات پر عمل نہ کیا، جس کی وجہ سے یہ سانحہ رونما ہوا۔ دوسری طرف بہت سے افراد سعودی حکام کو اس سانحے کا ذمہ دار قرار دے رہے ہیں۔ اس سال بیس لاکھ سے زائد اُن مسلمانوں نے حج کا فریضہ ادا کیا ہےجودنیا بھر سے سعودی عرب آئے ہیں۔ دستیاب ریکارڈ کے مطابق دوسرے ممالک سے سعودی عرب آنے والے حاجیوں کی تعداد 1920ء میں 58 ہزار 584، 1996ء میں 10 لاکھ 80 ہزار 465 تھی جبکہ 2015ء میں یہ تعداد 20 لاکھ کے قریب ہے۔
Arab News
سعودی عرب کا سب سے بڑا انگریزی اخبار’عرب نیوز’ جو اب سعودی شہزادوں کی ملکیت ہے اپنے اداریے میں لکھتاہے کہ “جمعرات 24 ستمبر کو ہونیوالے سانحے نے ہر شخص کو افسردہ کردیاہے اور مزید حفاظتی اقدامات کی ضرورت ہے۔ اخبار نے لکھاکہ 164مختلف ممالک اور ثقافت کے بیس سے تیس لاکھ مسلمانوں کا نظم برقرار رکھنا مشکل کام ہے۔ دنیا میں ایسا کسی ملک کو تجربہ نہیں جویہاں کے حکام نے خوشگوار انداز میں حج انتظامات سے سیکھاہے۔ اخبار کے مطابق حجاج کو 10ملین کیوبک فٹ پانی چاہیئے ہوتاہے، لاکھوں سیکیورٹی اہلکار اور رضاکار کسی بھی ناخوشگوار واقعہ سے نمٹنے کےلیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں اور یہ تمام امور سیاست سے بالاتر ہوتے ہیں، بلاشبہ اس سال درجہ حرارت میں غیر معمولی اضافہ بھی حکام کےلیے ایک امتحان تھا”۔آخر میں اخبارلکھتا ہے کہ” سعودی عرب آنیوالے حجاج کرام کی خریداری اور ہوٹلوں میں قیام سمیت دیگر اخراجات سے سعودی معیشت کو کافی سہارا ملتاہے”۔
سعودی حکومت حج انتظامات پر اربوں ریال خرچ کرتی ہے اور مقامات مقدسہ پر عظیم الشان منصوبوں پر عمل درآمد کےلیے اقدامات کررہی ہے، کہاجاتاہے کہ حکومت کو بھی اربوں ریال کامنافع ہوتاہے۔ ایک تبصرہ نگار ‘شامل شمس’ نے اپنے تبصرے میں لکھا ہے کہ ” مسجد الحرام میں تعمیراتی مقاصد کےلیے نصب کردہ کرین کے گرنے کا حادثہ اور بھگدڑ کا سبب دراصل سعودی حکومت کی لالچ کی وجہ سے رونما ہوئے، عازمین حج کی تعداد میں کمی کرتے ہوئے سعودی حکومت حج کے دوران ہلاکت خیز بھگدڑ کا قبل از وقت ہی تدارک کر سکتی تھی۔
تبصرہ نگار کےمطابق اب سعودی حکومت کے نزدیک مذہب ایک کاروبار اور پیسہ بنانے کا موقع ہے۔ سعودی حکومت کو حج سے حاصل ہونے والی رقوم عازمین حج کے تحفظ پر خرچ کرنی چاہیئں نہ کہ مکہ میں غیر ضروری تعمیرات پر۔ تبصرہ نگار کے مطابق سعودی حکومت ان تعمیراتی کاموں کے لیے غیر ملکی کمپنیوں کو ٹھیکے دیتی ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ مسلمانوں کو حج سیزن کے دوران سعودی عرب آنے کی ترغیب دی جاسکے۔تبصرہ نگار مزید لکھتے ہیں کہ عازمین حج کی تعداد میں آسانی سے کمی کی جا سکتی ہے، سعودی حکومت کو اپنا لالچ ختم کر دینا چاہیئے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو مستقبل میں ایسے مزید حادثات بھی رونما ہو سکتے ہیں۔ تبصرہ نگار کے مطابق کچھ حلقے سعودی عرب میں لینڈ مافیا کے سرگرم ہونے کا ذکر بھی کرتے ہیں”۔
Hajj Umrah
بہت برا ہوا ہے جن گھرانوں کے افراد شہید ہوئے یقینا تکلیف دہ بات ہے لیکن اس کا ایک اور پہلو بھی ہے اور وہ ہے ایک سے زیادہ بار حج اور عمرہ پر جانا۔ ایک بھارتی ڈاکٹر علیم خان فلکی (موصوف سے میری ملاقات جدہ میں ہوچکی ہے) نے ایسے لوگوں کے بارئے ایک کتاب “خدارا حج اور عمرہ کو ایک مذہبی پکنک نہ بنائیے” لکھی ہے، وہ لکھتے ہیں کہ “ایک سے زیادہ بار حج اور عمرہ پر آنے والوں کے نام ایک کھلا خط”۔۔۔۔۔
میرے عزیزسادہ لوح تاجر! جو باربار پورے خاندان کے ساتھ( فائیو اسٹار) حج یا عمرہ کرنے کو عبادت عظیم سمجھتے ہو۔ میرے قابل احترام عالمو، فاضلو،مرشدو!جو نفل کو بھی فرض کا درجہ دے کر بار بار چلے آتے ہو۔ قوم کے چالاک امیرو! جو زمینوں پر ناجائز قبضوں یا دوسرے ناجائزذرائع آمدن سے عمرے پر عمرے کئے جاتے ہو۔میرے پیارے بزرگو! جو اولاد کی محنت کی کمائی پر عبادت عظمی کا لطف اٹھاتے ہو۔ میری قوم کے سیاسی رہنماو! جو بار بار سیاسی عمرے اور حج کرکے اپنے ووٹروں کو اپنی خدا خوفی کا ثبوت دیتے ہو۔ سعودی عرب میں مقیم رفیقو! جو بار بار حج کرکے نہ صرف قانون شکنی کرتے ہو بلکہ دوسروں کے لیے زحمت بن جاتے ہو۔
میرے عزیزو!آو حج بیت اللہ ، عمرے اور مدینے کی زیارتوں کےلیے بار بارآوُ، لیکن اپنے شوق عبادت کو پورا کرنے کےلیے نہیں بلکہ اُس عظیم مقصد کو اپنی زندگی کا مقصد بنانے کے عزم کے ساتھ آوُ جس کی خاطر اللہ تعالی نے ان عبادتوں کا حکم دیا ہے ۔اُن کا فرمان ہے کہ مسلمان سب کچھ ہوسکتا ہے جھوٹا نہیں ہوسکتا ۔ اُن کا فرمان ہے کہ دوسرے کےلیے وہی پسند کرو جو اپنے لیے پسند کرتے ہو۔ اُن کا فرمان ہے کہ سچا تاجر قیامت کے روز انبیاء کے ساتھ اٹھایا جائے گا۔
Illegal Income
اُن کا فرمان ہے کہ جس شخص کی کمائی میں ناجائز آمدنی کا ایک لقمہ بھی شامل ہو اُس کی دعائیں زمین سے ایک ہاتھ بھی اوپر نہیں اٹھائی جائیں گی ۔ اُن کا فرمان ہے کہ جو بندہ اوروں کی خدمت میں لگ جاتا ہے فرشتے اُس کے کاموں میں لگ جاتے ہیں ۔ اگر مدینے والے سے محبت کا دعوی ہے تو اُ ن کے ان فرمانوں کو اپنی زندگی کا مقصد بنانے کی قسم کھانے ایک بار آجاوُ اور پھر دیکھو کہ کیسے زمانے بھر میں انقلاب آتا ہے اور اگر اس مقصد کے بغیر آنا چاہتے ہوتو یاد رکھو یہ فقط ایک مذہبی پکنک کے علاوہ کچھ نہیں ۔ اس سے کہیں بہتر ہے کہ معاشرے کی فلاح کے کسی کام میں یہ پیسہ لگادو تاکہ دوسرے انسانوں کی زندگی کو فائدہ پہنچے اور اُن کی دعائیں آپ کی آخرت کا سامان بن جائیں ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو یہ نکات سمجھنے کی توفیق عطافرمائے ۔
کُند ہوکر رہ گئی مومن کی تیغ بے نیام ہے طواف وحج کا ہنگامہ اگر باقی تو کیا سعودی حکومت نے ایک طویل عرصے پہلے حاجیوں کی بہتری کےلیے ایک حج ریسرچ سینٹر قائم کیا تھا، اتفاق سے اس مرکز میں کچھ کام کرنے کا موقعہ مجھے بھی ملا ہے۔ اس سینٹر کی ریسرچ کی بدولت بہت سی اصلاحات بھی کی گئیں، مثلاً حج سیزن میں مکہ المکرمہ میں چھوٹی گاڑیوں کا داخلہ بند کیا گیا۔ جن لوگوں نے 1980ء سے پہلے حج کیا ہے اُنہیں یاد ہوگا کہ صرف جدہ ائیرپورٹ پر امیگریشن اور معلم کی نامزدگی میں آٹھ سے دس گھنٹے لگتے تھے، لیکن حج ریسرچ سینٹرکی اصلاحات کی بدولت اب حاجی دو گھنٹے سے پہلے مکہ کےلیے روانہ ہوجاتا ہے۔
ایسی بہت سی تحقیقات کی گئی ہیں جن میں جمرات کے دوران حاجیوں کو پیش آنے والے حادثات سے کیسے بچا جائے شامل ہیں۔ سعودی حکومت 11 ستمبرکو کرین حادثے اور 24 ستمبر کو منیٰ میں بھگدڑ جیسے حادثات سے بچنے کےلیے حج ریسرچ سینٹرکی سفارشات پر لازمی عمل کرے۔ سعودی حکومت کی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر بین الاقوامی برادری عمومی طور پر خاموش رہتی ہے تاہم حج کا معاملہ مذہبی حوالوں کے باعث کچھ زیادہ ہی حساس ہے۔ اب اس بارے میں کچھ کہنے اور سعودی حکومت کو حجاج کی حفاظت کےلیے کچھ کرنے کی ضرورت پہلے سے زیادہ ہے۔ میری اپنے مسلمان بھائیوں سے بھی درخواست ہے کہ حج اور عمرے کو مذہبی پکنک نہ سمجھیں۔