حج غریب پر فرض نہیں۔۔ تبدیلی آ گئی ہے

Hajj

Hajj

تحریر : نسیم الحق زاہدی

پاکستان میں عام طور پر متوسط طبقہ اللہ کے گھر کی زیارت کے لئے اپنے روز مرہ کے اخراجات میں سے بچت کر کے حج و عمرہ کا کرایہ اکٹھا کرتا ہے کیونکہ ایک غریب ملک کے غریب باشندوں کے پاس اتنے وسائل نہیں ہوتے کہ یک مشت مقدس سفر پر روانہ ہو سکے اور اب ریاست مدینہ کی دعویدار حکومت نے ان اخراجات میں ڈیڑھ لاکھ روپے کا اضافہ کر کے اپنی زندگی میں اللہ کے گھر کی زیارت کی سعادت کی آرزو رکھنے والوں کو اس سعادت سے محروم رکھنے کا منصو بے بنا لیا ہے۔یعنی اب حج و عمرہ بھی امیروں کے لئے مخصوص کر دیا گیا ہے۔

اگر وزیر اعظم عمران خان ریاست مدینہ کا مطالعہ کرتے تو انہیں معلوم ہو جاتا کہ ایک اسلامی ریاست کے سر براہ کی کیا کیا ذمہ داری بنتی ہے؟۔ ریاست مدنیہ کا نعرہ لگانے والوں نے شراب کے لائسنس سے پابندی اٹھا لی ہے، شاتمان رسول ۖ آسیہ کو با عزت رہا کر دیا گیا۔سکولوں کالجوں میں عریانیت کو فروغ دیا جا رہا ہے، ثقافتی ترقی کے نام پر یورپی کلچر پروموٹ کیا جا رہا ہے۔گزشتہ چھ ماہ میں دو منی بجٹ پیش کر دئیے گئے۔ مہنگائی میں کئی فیصد اضافہ ، ضروریات زندگی ایک عام آدمی سے دور ہوتی جا رہی ہے ۔ اسی فیصد مفلس و بدحال طبقے کے لئے جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنا مشکل ہو گیا ہے۔ ریاست مدینہ کے دعویدار وں کو شائد یاد نہیں کہ اگر دریائے دجلہ کے کنارے ایک کتا بھی بھوکا مر جائے تو اس کا حساب دینا ہو گا۔

حکومتی ہٹ دھرمی ملاحظہ فرمائیے کہ حج سبسڈی میں خاتمے کا ملبہ بھی سابقہ حکومت پر ڈال دیا گیااور خود اس سے بر الذمہ ہو گئے اور یہ کہ حکومت حج سے اپنے دیگر خساروں کو پورا کرنے کی کوشش میں ہے۔ حکومت یہ بھی بہانہ کر رہی ہے کہ سعودی عرب میں رہائش، کھانا پینا اور یہاں تک کہ آب زم زم بھی مہنگا ہوگیا ہے اس لئے گویا حکومت مجبوری کے تحت سبسڈی واپس لے رہی ہے۔اگر حکومت نے واقعی سعودی عرب میں مہنگائی کے سبب اخراجات میں اضافہ کیا ہے تو عوام مطمئن ہو جائے لیکن اگر حج کے اخراجات میں حکومت اور اس مقدس عبادت میں پیسہ کمانے میں ملوث مختلف مافیاز کے سبب اضافہ ہوا ہے تو یہ کسی صورت روا نہیں۔ اس کے علاوہ حکومت کا کام یہ بھی ہوتا ہے کہ سعودی عرب جیسے امیر ترین برادر اسلامی ملک کے حج سے متعلق وزارت اور اداروں کے مقتدر حضرات سے ملکر اخراجات میں کمی کیلئے درخواست کریں۔

اعداو شمار کے مطابق رواں سال ایک لاکھ 84 ہزار 210 پاکستانی فریضہ حج ادا کریں گے’ جس میں سرکاری حج کوٹہ 60 فیصد’ جبکہ پرائیویٹ ٹور آپریٹرز کا کوٹہ 40 فیصد رکھا گیا ہے۔ اس طرح ایک لاکھ 7 ہزار پاکستانی سرکاری سکیم کے تحت فریضہ حج ادا کریں گے جبکہ 76 ہزار سے زائد عازمین پرائیویٹ سکیم کے تحت سعودی عرب جائیں گے اور سرکاری سکیم کے تحت حج 2019ء کے لئے درخواستیں 20 فروری سے وصول کی جائیں گی۔ حج اخراجات میں ہوشربا اضافہ کر کے غریب اور متوسط طبقے کے پاکستانیوں کے لئے مشکلات پیدا کر دی گئیں ہیں’ جبکہ ضروری تھا کہ بھرپور کوشش سے حج کے اخراجات میں کمی لائی جاتی۔

پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 31 میں، ریاست کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ مسلمان پاکستانیوں کو اس قابل بنانے کے لیے کہ وہ اسلام کے مطابق زندگی گزاریں، اقدامات کرے گی۔ اس کی تعبیر یہی ہے کہ ریاست مذہبی فرائض کی ادائیگی میں مسلمان شہریوں کی مدد گار ہو گی۔ جبکہ یہ کہا جا رہا ہے کہ یہ سفر وہ کرے جو اس کی استطاعت رکھتا ہو۔جس کا مطلب یہی ہوا کہ اب کم آمدنی والے حج جیسے مقدس فریضے کی ادائیگی کی آرزو بھی نہ رکھے ۔حج سبسڈی کیا ہے؟

یہی کہ حکومت سفرِ حج کو آسان بنائے اور اگر اس کارِ خیر کے لیے کچھ مالی اسباب فراہم کرنا پڑیں تو کر گزرے۔لیکن یہاں تو الٹی گنگا بہی رہی ہے ایک جانب حکومت وقت نے سنیما و فنکاروں کی بحالی کے لئے سبسڈی بڑھا دی ہے تو دوسری جانب حج سبسڈی کا خاتمہ۔ آخر ریاست مدینہ کے دعویدار اپنے ایسے اقدامات سے کیا ظاہر کرنا چاہتے ہیں۔حج انتظامات وزارت مذہبی امور کے پاس ہیں۔2018 میں وزارت مذہبی امور کے مطالبے پر حج کیلئے حکومت نے فی حاجی 45 ہزار روپے سبسڈی دی تھی اور حج پیکج شمالی ریجن کے لیے 2لاکھ 80 ہزار جبکہ جنوبی ریجن کے لیے 2 لاکھ 70 ہزار رکھا گیا تھا۔یہ حج سبسڈی دینے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ یکم جنوری 2018 سے سعودی حکومت نے اپنے ملک میں 5 فیصد ویلیو ایڈیشن ٹیکس نافذ کیا تھا جس کے نتیجے میں قیام و طعام اور ٹرانسپورٹ کے اخراجات بڑھ گئے تھے۔رواں برس بھی وزارت مذہبی امور کی جانب سے 45 ہزار روپے فی حاجی سبسڈی کی تجویز دی گئی تھی لیکن کابینہ نے منظور نہیں کی۔

مودی حکومت نے حج سبسڈی کو ختم کیا تو یہ شور اٹھا کہ بی جے پی حکومت رواں سال منعقدہ لوک سبھا الیکشن میں ہندو اکثریتی ووٹ کے حصول کے لئے مسلم مخالف اقدامات اٹھا رہی ہے لیکن پاکستان تو اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا اسے اسلامی جمہوریہ کا نام دیا گیا ۔ افسوس یہاں کے مسلمانوں کے لئے ہی ا سلامی عبادات مشکل بنا دی گئی ہے۔ریاست مدینہ کی طرز حکمرانی کے دعویداروں نے عاشقان رسولۖ کیلئے مکہ مدینہ جانا ہی دشوار کر دیا ہے۔ کیا ہمارے حکمرانوں کا یہ عمل عذاب الٰہی کو دعوت دینے کے مترادف نہیںہے کہ، سنیما گھروں کو تو سبسڈی اور حج اخراجات میں بڑھا دئیے گئے ہیں۔کیا یہ ہے مدینہ کی فلاحی ریاست کا تصور ؟۔کہ آپ عوام کی دسترس سے حج کے جیسے مقدس و اہم فریضے کو ہی نکال باہر کریں۔

سابقہ وزیر خزانہ نے ایک باربجٹ پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ ٹماٹر اگر مہنگے ہوگئے ہیں تو کیا؟غریب آدمی دہی کا استعمال کرے اور ٹوتھ برش کی قیمت بڑھنے سے غریب پر کوئی اثر نہیں پڑے گا ۔موجودہ حکومت کا موقف شاید یہ ہوگا کہ حج اگر مہنگا ہوگیا تو عوام بیت اللہ کی تصاویر کے گرد گھوم کر حج کا فریضہ ادا کریںکیونکہ اس سے غریب پر کوئی اثر نہیں پڑے گا ۔ویسے بھی حج وعمرہ غریبوں پر فرض اور واجب بھی نہیں۔اس لیے تمام غریب مسلمان اس مقدس اور اہم فریضے کی ادائیگی کا خیال دل سے نکال دیں ۔غریب ہر دور میں افلاس کی چکی میں پستا چلا آیا ہے اور پستا رہے گا ۔یہ حاکم وقت کیا جانے ایک مزدور کے ایام کی تلخی ؟؟؟

Naseem Ul Haq Zahidi

Naseem Ul Haq Zahidi

تحریر : نسیم الحق زاہدی