تحریر : انیلہ احمد حج کے لغوی معنی قصد کرنا یا ارادہ کے ہیں خانہ کعبہ کی زیارت کیلیۓ ایک معینہ مدت تک مخصوص طریقے سے سفر کرنے کو حج کہتے ہیں حج و عمرہ دین و دنیا ہر قسم کی عبادات کا مجموعہ ہےـ اللہ تبارکو تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ جو بندہ اس کی استطاعت رکھتا ہو وہ اس کا حج کرے آپ ﷺ نے فرمایا اسلام کی بنیاد 5 ارکان پر ہے۔
کلمہ توحید نماز زکوة روزہ حج اللہ تعالیٰ ہمیں نسل در نسل استقامت کے ساتھ اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے حاجی کو اللہ تعالیٰ نے اس قدر شرفِ ثواب سے نوازا ہے کہ اس کا جینا بھی قابل رشک اور مرنا بھی قابل فخر ہے صحیح بخاری و مسلم میں روایت ہے۔
دورانِ حج میدانِ عرفات میں ایک شخص اپنی اونٹنی سے گرنے سے وفات پا گیا آپ ﷺ نے فرمایا اسے بغیر خوشبو لگائے اور بغیر سر کو ڈھانپے نیم کے پتوں سے غسل دے دو کیونکہ قیامت کے دن یہ اسی طرح اٹھایا جائے گا کہ لبیک الھمہ لبیک پُکار رہا ہوگا بے شک یہ اللہ جل جلالہ کی شان کبریائی ہی ہے کہ انسان جو ساری زندگی گناہوں کی دلدل میں لُتھڑا ہوا نجانے کتنوں کے گھر خراب اور کتنوں کو ذہنی اور جسمانی تکلیف پہنچانے کے باوجود اپنے رب سے ایک توبہ کرنے سے بے بہا نعمتوں کا حقدار ٹھہرتا ہےـ ہر سال کی طرح یہ مبارک ساعت دوبارہ لوگوں کے درجات بلند کرنے کے لئے جلوہ افروز ہے۔
اس برکتوں اور فضیلتوں والے مہینے میں ہر شخص اپنے گناہوں کی تلافی اور بخشش کیلئے خانہ کعبہ میں ہو رہا ہے ـ کوئی دوزانو بیٹھ کر کوئی مانگنے والا کھڑا ہوکر کچھ سجدے میں چپکے چپکے آنسو بہا رہے ہیں کوئی تلاوت کی لذتوں میں محو مقامِ عشق سے آگے بڑھ رہے ہیں۔
Hajj
کسی کے لبوں پر درود کسی کی نگاہ میں کعبہ کا جلال کوئی سر جھکائے نادم و شرمسار اور کوئی کچھ کہے بغیر شرمندہ ــــ یہ بلند و پست آوازیں اللہ تعالیٰ کو نجانے کتنی پسند ہیں انسان کی سوچ اُس حد کو چھو بھی نہیں سکتی اللہ جل شانہ دیکھ رہا ہے اُس کے بندے کس قدر احترام سے آہ وزاری سے اُس کے حکم کی پاسداری میں تن من دھن لگائے صرف بخشش مانگ رہے ہیں اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کی تلافی چاہتے ہیں یہ وہ پراسرار محبت کے راستے ہیں جو رب کریم صرف اپنے بندوں کو عنایت فرماتا ہے ـ آپ ﷺ نے فرمایا اللہ پاک فرماتا ہے اے ابن آدم جب تک مجھے پُکارتا رہے گا اور مجھ سے مغفرت کی امید رکھے گا۔
تو میں تجھے معاف کرتا رہوں گاـ اے ابن آدم اگر تیرے گناہ آسمان کی بلندیوں کو بھی چھو جائیں پھر بھی اگر تو مغفرت مانگے گا تو میں تجھے معاف کر دوں گاـ اور مجھے کوئی پرواہ نہیں لوگوں میں مشہور ہے کہ جمعہ کے دن اگر حج ہو تو حج اکبر ہوتا ہےـ اس کی شریعت میں کوئی اصل نہیں حج اکبر کا لفظ قرآن مجید میں بھی آیا ہے لیکن دوسرے معنی میں حج سے دوسروں پے کئے گئے مظالم اور حقوق العباد معاف نہیں ہوتے البتہ دوسرے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔
اس میں بھی علماء کا اختلاف ہے۔ کہ صغائر معاف ہوتے ہیں یعنی صغیرہ لیکن اکثر علماء کا یہی خیال ہے کہ صغیرہ اور کبیرہ حج مقبول سے معاف ہوتے ہیں واللہ اعلم اسلام کا یہ اہم ترین رکن جس میں گورے کو کالے پر عربی کو عجمی پر کوئی فضیلت حاصل نہیں حج ہمیں بھائی چارہ مساوات امن و آشتی کا پیغام دیتا ہے کتنے ہیں جو وہاں جا کر گناہ بخشوا کر دوبارہ وہ حرکات نہیں کرتے جن کو بخشوانے کے لئے وہ اپنے رب کو منانے میں ایڑہی چوٹی کا زور لگا دیتے ہیں۔
چاہیے تو یہ کہ حج سے پہلے تمام عزیز رشتے دار دوست و احباب سے مل کر اپنی اُن غلطیوں کی تلافی کر لیں جو وہ جانے انجانے میں دوسروں کو بڑی ڈھٹائی سے دیتے ہیں دراصل بغض اور کینہ نکال کر ہی اللہ کی راہ پر نکلنا اصل جہاد اور حج ہے پھر یہ لوگ تمام عمر وہ کام نہ کریں جو خلافِ شریعت اور اسوہ حسنہ کے خلاف ہوں۔
Allah
کوئی فحش اور لغو بات منہ سے نہ نکالیں جو دوسروں کے لئے دل آزاری کا باعث اور آخرت میں اپنے رب کے سامنے شرمندگی کا باعث نہ بنےـ یقینا پھر ہمارا حج ایسا ہے کہ تمام گناہ بخشوا کر ہم ایسے لوٹتے ہیں جیسے آج ہی پیدا ہوئے ہوں ـیہی حج مقبول یا حج مبرور ہے۔