حج کے متعلقہ ایک کیس میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے گذشتہ سال حکم جاری فرمایا تھا کہ وزرات مذہبی امور کی طرف سے حج 2014 کی پالیسی کا اعلان سعودی عرب سے آخری حج فلائٹ کے آنے کے بعد 6ہفتوں کے اندر کر دیا جائے عدالت عظمی کے حکم کی تعمیل میں وزرات مذہبی امور نے حج پالیسی کی تیاری کا آغاز کر دیاہے اور اس سلسلہ میں تمام طبقات کے ساتھ مشاورت کا عمل بھی شروع کر دیا گیاہے گذشتہ حکومت کے دور میں ہونے والے حج سکینڈل سے پوری دنیا میں وطن عزیز کی جگ ہنسائی ہوئی تھی اور حج 2010کے بعد ملک میں ایک ہاہا کارمچ گئی عدالت عظمی نے حج سکینڈ ل پر از خود نوٹس لیا اور وزیر مذہبی امور حامد سعید کاظمی ڈی جی حج مکہ رائو شکیل سمیت متعدد شخصیات پابند سلاسل رہیں اور بعض اب بھی ہیں لیکن ابھی تک یہ کیس چل رہا ہے۔
ایک طرف یہ صورت حال تھی اور دوسری طرف یہ ہے کہ موجود ہ حکومت نے ایک ہی حج میں نیک نامی اپنے نام کرلی ہے بلکہ اب لوگوں میں اعتماد پیدا ہو گیا ہے اور یہ بات خوش آئندہے کہ وزرات مذہبی امور نے نہ صرف پرائیویٹ حج ٹوورز آپریٹر ز بلکہ سول سوسائٹی میڈیا ایس ای سی پی،کمپٹیشن کمیشن، بینکس، ائیر لائنز، ماسٹر ٹریز پرائیویٹ اور سرکاری اسکیموں کے حج 2013میںفریضہ حج اداکرنے والے حجاج علماء و مشائخ دانشور ڈاکٹرز سب کو مشاورت میں شامل کر لیاہے اس سلسلہ میں گذشتہ دنوں لاہور میں قومی سطح کی ایک کامیاب ورکشاپ بھی ہو چکی ہے حج 2013کی کاکردگی دیکھی جائے تو وزرات مذہبی امور کے سامنے دو بڑے چیلنج تھے نمبر 1تمام تر انتظامات گذشتہ حکومت نے کئے تھے اور حج میں سب سے اہم چیز عمارتوں کا حصول تھا وہ زرداری حکومت کے وزیر حج و مذہبی امور سید خورشید احمد شاہ مکمل کر چکے تھے۔
اور تبصرے یہ ہورہے تھے کہ اب بھگتنا نواز حکومت نے ہے لیکن خراج تحسین پیش کرنا چاہیے موجودہ وزیر مذہبی امور سردار محمد یوسف سابق سیکر ٹری شاہد خان موجودہ سیکرٹری سکندر اسماعیل اور جوائنٹ سیکرٹری شہزاد احمد کو جنوں نے نا ممکن کو ممکن کر دکھایا جبکہ یہ لوگ حج کے بعد میڈیا کے سامنے آکر وہی روایتی گفتگو کر سکتے تھے کہ یہ سب کچھ سابقہ حکومت نے کیا ہے ہمارے ہاتھ میں کچھ نہیں تھا اس لیے عازمین حج کو مسائل کا سامنا کرنا پڑا مگرایسا نہیں ہوا اور کمال مہارت کے ساتھ جہاں جہاں انتظامات میں سابقہ حکومت کی کمزور یاں تھیں ان کو دور کیا اور نیک نیتی اور شبانہ روز محنت سے حج آپریشن کو کامیاب بنایا حج کے چند دن بعد مکہ مکرمہ میں فیصل آباد سے رکن پنجاب اسمبلی حاجی الیاس انصاری سے سرے راہ ملاقات ہوگی جو سرکاری حج اسکیم پر حج کی سعادت کے لیے گئے تھے۔
سعودی عرب میں ایک دوسرے کے ساتھ ملاقات میں سلام دعا کے بعد پہلا سوال یہی ہوتا ہے کہ حج کیسارہا کونسی سکیم میں آئے تھے پیکج کتنے کا تھا تو یہی سوال میرے تھے حاجی الیاس انصاری نے بتایا کہ وہ سرکاری سکیم کی وائٹ کیٹگری میں 290000 دے کر آئے ہیں اور ان کو 1500 ریال بھی واپس دئیے گئے ہیں عزیز یہ میں بہترین رہائش دی گئی ہے جہاں سے حرم کے لیے ٹرانسپورٹ کا بھی مکمل بندو بست ہے اور وہ پوری طرح مطمین ہیں ان کے اس تبصرے کے بعد مزید سوال کی گنجائش نہیں تھی اسی طرح سرکاری سکیم کے تما م عازمین حج نے مجموعی لحاظ سے حج انتظامات پر اطمینان کا اظہار کیا اور کوئی سنجیدہ نوعیت کی شکایات سامنے نہیں آئیں جہاں تک پرائیویٹ اسکیم کی کامیابی کا سوال ہے تو اس سال تو وزارت مذہبی امور نے مانیٹرنگ میں سختی کی انتہا کر دی اور مانیٹرنگ ٹیم جب حاجیوں سے ملتی تھی تو ان کو جب حاجیوں کو ٹوورآپریٹرز کے خلاف اکسانے اشتعال دلانے کے باوجود کوئی شکایات نہیں ملتی تو ٹیم کا سربراہ حاجیوں سے کہتا تھا کہ کوئی بات نہیں اگر کوئی شکایات نہیں ہے تو شکایت سوچ کے رکھنا ہم پھر آئیں گے۔
Hajj
وزرات مذہبی امور کی طرف سے ٹول فری نمبر دئیے گئے سعودی عرب میں ٹوورز آپریٹرز کو مجرموں کی طرح تلاش کیا جاتا رہا لیکن نتیجہ یہ نکلا کہ پرائیویٹ ٹوورز آپریٹرز کامیاب نکلے اس سال بکنگ سو فیصد کرنے سعودی عرب میں انتظامات کے لیے فنڈز سو فیصد منتقل کرنے کے بعد کوٹہ 37 فیصد کٹوا بیٹھے لیکن اس کا اثر عازمین حج تک نہیں پہنچنے دیا اور اپنی ذمہ داریاں پوری کرتے ہوئے اپنی دس سال کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے حج 2013 میں بھی سر خرو ہوئے دوسرا بڑا چیلنج سعودی حکومت کی طرف سے حرمین شریفین کی توسیع کی وجہ سے حج کوٹہ میں کمی تھی لیکن حکومت نے اس کو ایک بڑا ایشو بنتے ہی نہ صرف کنٹرول کر لیا بلکہ حج آرگنائزرز ایسوسی ایشن کی قیادت کے ساتھ مذاکرات میں بیورکریسی نے مخصوص دائو پیچ استعمال کر کے پرائیویٹ ٹوورآپریٹرز کو مجبور کر دیا کہ وہ اپنے حصے کا کوٹہ سرکاری اسکیم کے لیے مہیا کر دیں۔
ا ور ویسے بھی پرائیویٹ ٹوورز آپریٹرز وزرات مذہبی امور کے رحم و کرم پر ہیں لہذا وزرات مذہبی امور جوا پنے سب عازمین حج کو کامیابی اورحج پر روانگی کے خطوط لکھ چکی تھی اب خوف زدہ تھی کیوں کہ دوسری طرف سابقہ حکومت پاکستان کے کوٹے کے مطابق رہائش گاہیں خرید چکی تھی بہر حال اس میں بھی حکومت کامیاب رہی اور حکومت کے تمام عازمین نے فریضہ حج کی سعادت حاصل کی وزرات مذہبی امور حج 2013 کی کامیابی پر نازاں ہے اور اب اس نے حج 2014 کی پالیسی کے لیے جو طریقہ کار اختیار کیاہے یہ نیک شگون ہے جو 2014 کی کامیابی کا زینہ بنے گا۔
ضرورت اس مر کی ہے کہ وہ لوگ جو ہر سال وزرات مذہبی امور عدالتوں اور دیگر اداروں کا وقت ضائع کر تے ہیں اب اس وقت سوئے ہوئے ہیں میڈیا کو چاہیے کہ وہ ان کو جگائے کہ اب حج پالیسی کے لیے مشاورت ہورہی ہے اور ملک کے بڑے شہروں میں اوپن اجلاس ہورہے ہیں یہ لوگ اپنی قابل عمل اور مثبت تجاویز لیکر آئیں اور پالیسی کا حصہ بنیں وہ وکلاء جو پالیسی کی کاپی عدالتوں میں ججوں کے سامنے لہراتے ہیں اور لوگوں سے بھاری فیس وصول کرتے ہیں اب کہاں ہیں سو ل سوسائٹی جو بعد میں بے بنیاد الزامات عائد کرتی ہے حکومت کی طرف سے “دعوت عام” کے اشتہار ان کی نظر سے کیوں نہیں گزررہے ہر قومی اخبار میں کواٹر پیج کے اشتہار لوگوں کو کیوں نظر نہیں آرہے صرف اس لیے کہ ہم تنقید برائے تنقید کے عادی ہو چکے ہیں تنقید برائے اصلاح ہم نے کرنا سیکھاہی نہیں ہے۔
ہم اخلاقی پستی کی اتھاہ گہرایوں میں گرتے جارہے ہیں عدالت عظمی نے اپنے گذشتہ فیصلے میں کہا تھا کہ پالیسی بنا نا عدالتوں کا کام نہیں ہے عدالتیں صرف اس وقت اپناکردار ادا کرتی ہیں جب ایک پالیسی بن جانے کے بعد بعض لوگوں کو پالیسی سے ہٹ کر نواز اجاتا ہے اس لیے حج کے پیکج بنانا اور اس کی بولی لگانا عدالتوں کا کام نہیں ہے پرائیویٹ سیکٹر کو اگر حج میں شامل کیاگیا ہے توپوری دنیا کا اصول ہے کہ پرسنل لیول تک حکومتیں سروسز فراہم نہیں کرتیں بلکہ پرائیویٹ ادارے اور افراد کرتے ہیں لہذا حج میں عازمین کی بہتر خدمت کے لیے ان کے مسائل کے خاتمے کے لیے بہترین فورم وزرات مذہبی امور کی مشاورتی ورکشاپس ہیں عدالتیں اور چور اہے نہیں لہذا وہ تمام لوگ جو یہ سمجھتے ہیں کہ پالیسی میں تبدیلی ہونی چاہیے و ہ اس مشاورت میں شامل ہوجائیں۔
Hajj Pilgrims
اور جن جن اداروں میں پالیسی پر تنقید کرنے والے جاتے ہیں وہ ادارے بھی ایسی ورکشاپس اور ان کی شفاف کاروائی دیکھیں تاکہ جب ان کے سامنے یہ کیس آئیں تو وہ جائز ہ لے کر انصاف پر مبنی فیصلے کرنے کے قابل ہوں کیوں کہ جس معاشر ے میں کسی فرد کے گناہ یا غلطی کی سزا پورے معاشرے یا قوم کو دی جائے وہ معاشرے اور قوم زندہ نہیں رہتیں۔