تحریر: شہزاد حسین بھٹی نرسنگ کا شعبہ کسی بھی ملک کی ہیلتھ کیئر کا بنیادی حصہ ہے جس کے فرائض میں مریضوں کی تیماداری اور اُنکی صحت کا مکمل خیال رکھنا شامل ہے۔ اصطلاح نرس مرد یا عورت دونوں کے لیے استعمال کی جا سکتی ہے بالکل اُسی طرح جس طرح ڈاکٹر، جج، پائیلٹ، ٹیچر وغیرہ کے لیے۔ اکنامک سروے آف پاکستان کے اعدادوشمار کے مطابق ملک میں اسوقت 62 ہزار 651 نرسیں ہیں۔ ماہرین طب کے مطابق پاکستان میں نرسنگ کا شعبہ بے پناہ مسائل کا شکار ہے۔پوری دنیا میں نرسنگ کے شعبے کو عزت و وقار کے ساتھ دیکھا جاتا ہے۔ مگر بدقسمتی سے پاکستان میں نرسوں کو وہ عزت ومقام حاصل نہیں جو انہیں ملنا چاہیے۔
نرسوں کا عالمی دن 12 مئی کو دُنیا بھر میں منایا جا تا ہے جسکا بڑا مقصد صحت کے شعبے میں نرسوں کی اہمیت کا احساس دلانا ہے۔نرسوں کی بین الاقوامی کونسل(آئی سی این) تو یہ دن 1965ء سے ہی مناتی آرہی ہیں لیکن جنوری 1974ء اس دن کو باضابطہ طور پر منظور کیا گیا۔ دراصل 12مئی فلورنس نائیٹ اینگیل کی سالگرہ کا دن ہے۔ یہ برطانیہ کی وہ خاتون ہے جسے جدید نرسنگ کا بانی کہا جاتا ہے۔ 12 مئی 1820ء کو پیدا ہونے والی اور 13 اگست 1910ء کو 90 سال کی عمر میں وفات پا جانے والی اس خاتون کی نرسنگ کے شعبے میں نا قابلِ فراموش خدمات ہیں۔ انہوں نے1854ء کی جنگ میں صرف 38 نرسوں کی مدد سے 1500 زخمی اور بیمار فوجیوں کی دن رات تیماداری کی۔
پاکستان مین نرسنگ کے شعبے کی بنیاد بیگم رعنا لیاقت علی خان نے رکھی جسکے بعد 1949ء ،سینڑل نرسنگ ایسوسی ایشن اور 1951ء میں نرسز ایسوسی ایشن کا قیام عمل میں آیا۔ نرسوں کی فلاح کے لیے ایک ادارہ پاکستان نرسنگ کونسل(PNC) 1948ء میں قائم ہوا یہ ایک خود مختار ادارہ جو پاکستان نرسنگ کونسل ایکٹ 1952ء اور 1973ء کے آئین کے تحت پاکستان میں پریکٹس کرنے کے لیے نرسوں ، لیڈی ہیلتھ ورکروں، اور مڈوائفس کو رجسٹر کرنے اورانکو لائسینس فراہم کرنے کا مکمل اخیتار رکھتا ہے۔ اسکے علاوہ صحت کے متعلق عوامی آگاہی، نرسنگ کے طبی اور اخلاقی معیار کو بہتر بنانے اور جنرل فلاح و بہبود کی نگرانی جیسے فرائض شامل ہے۔ پاکستان نرسنگ کونسل کے مطابق نرسنگ کی بنیادی تربیت کے لیے چاروں صوبوں میں مجموعی طور 162ادارے قائم ہیں ان میں سے پنجاب میں 72، سندھ میں 59 ،بلوچستان میں 12 ،جبکہ صوبہ خیبر پختون خواہ میں نرسنگ کے 19 ادارے قائم ہیں۔
Nurses Rights
لیکن انتہائی افسوس کا مقام یہ ہے کہ نرسنگ کے شعبے میں ڈپلومہ اور ڈگری پروگرام پیش کرنے والے اداروں کی تعداد صرف 5 ہے۔ عملی طور پر پا کستان میں نرسز کے تحفظ کے لیے کوئی بھی تنظیم یا ایسوسی ایشن دستیاب نہیں ہے جو نرسوں کے حقوق کی جنگ لڑ سکے اور انہیں کسی بھی ایذرسانی Harassmentمیں اسکے ساتھ کھڑی ہو سکے۔ اگر چند این جی اوز اس سلسلے میں کام کر رہی ہیں تو وہ بھی صرف فنڈز حاصل کرنے کی حد تک ہیں جبکہ عملی طور پر نرسوں کو انکے حقوق سے واقفیت اور کسی بھی مشکل یا ذیادتی کی صور ت میں اسکے ساتھ کھڑے ہونے کو تیار نہیں ہیں۔اکثر اوقات اجتماعی طور پر نرسیں اپنے حقوق کے لیے ایوان اقتدار کا گھیراو کرتی دیکھائی دیتی ہیں لیکن انفرادی طور پر اگر کسی نرس کو ہسپتال انتظامیہ یا ڈاکٹروں کے اعتاب کا نشانہ بننے کی صورت میں اسکے ساتھ کھڑے ہونے کے لیے کوئی تیا ر نہیں ہوتا۔
نوکری جانے کے ڈر کی وجہ سے اکثر اوقات نرسز حالات سے سمجھوتہ کر لیتی ہیں اور گھریلو حالات کی وجہ سے کم سے کم معاوضے پر بھی ہنسی خوشی اپنا وقت پاس کرنے کو تر جیع دیتی ہیں۔ یوںکہنے کو تو ملک کے بڑے بڑے بظاہر اچھے ہسپتال قائم ہیں جہاں بھاری معاوضوں پر ڈاکڑوں کو تو رکھا جاتا ہے وہیں نرسوں کو انتہائی کم دس سے پندرہ ہزار روپے معاوضے پر بھرتی کیا جاتا ہے جو نہ صرف نرسنگ کے شعبے کے ساتھ زیادتی ہے بلکہ اس طرح نرسوں کی گھریلو مجبوریوں کو بھی آڑے ہاتھوں لیا جاتا ہے۔
یہ سب لکھنے کا محرک ایک نرس کے ساتھ ہونے والی زیادتی ہے جس کے نتیجے میں ایک دو بچوں کی ماں کوجس ڈھٹائی اور فرعونیت کے ساتھ اس جہان فانی سے زبردستی کوچ کروا دیا گیا جیسے وہ کوئی انسان نہیںمحض ایک جانور تھی ۔ حاجرہ بی بی جنرل نرسنگ سکول اٹک کی فائنل ائیر (مڈوا ئفری کورس) کی طالبہ تھی جسکے 4 سالہ کورس کے مکمل ہونے میں صرف چار ماہ باقی رہ گئے تھے۔ حاجرہ بی بی شادی شدہ ا وراٹک کی تحصیل جنڈ کی رہائشی تھی لیکن اپنے دل میں مریضوں کی خدمت، اپنے بچوں کے سہانے مستقبل کے خوابوں کی تکمیل کی خاطر نرسنگ ہاسٹل میں اپنے بچوں اور دیگر اہل خانہ کی جدائی برداشت کیے ہوئے تھی۔
24 اگست کی شام حاجرہ بی بی کے پیٹ میں درد کی شکایت محسوس ہوئی تو اس نے اپنی ہاسٹل انچارج میڈم مقصودہ سے کہا کہ اس کے پیٹ میں شدید تکلیف ہے، وہ اسے ڈاکٹر سے چیک اپ کی اجازت دے لیکن سنگدل (ہٹلر بی بی) نے اجازت نہ دی بلکہ فرعونیت سے کہا کہ تم بہانہ کر رہی ہو ، اس طرح کا بہانہ بنا کر تم میڈیکل لیو پر گھر جانا چاہتی ہو اور میرے ہوتے ہوئے ایسا ممکن نہیں،ساتھ ہی ہاسٹل کے گیٹ کیپر اور دیگر عملے کو ہدایات جاری کیں کہ کسی بھی صورت دروازہ نہ کھولا جائے اور نہ مجھے رات ڈسڑب کیا جائے اگر ایسا کیا گیا تو وہ اپنے آپ کو نوکری سے فارغ سمجھے۔
Patient
درد اور تکلیف سے حاجرہ بی بی رات بھر روتی اور کراہتی رہی جبکہ اسکی دیگر ساتھی طالبات اسے طفل تسلیاں دیتی رہیں کہ ابھی سورج نکلے گا ، ابھی صج ہو جائے گی اور تمہیں ڈاکٹر کے پاس لے جا کر چیک اپ کروائیں گے۔ لیکن بدقسمت حاجرہ بی بی کو شاید جلدی تھی وہ صج کے سورج کا انتظار نہیں کرسکتی تھی اسی لیے وہ صج 4 بجے ہی زندگی کے بازی ہار گئی۔ حاجرہ بی بی کے اچانک موت کے بعد جنرل نرسنگ سکول کے عملے کی دوڑیں لگ گیں اور سکول کی طالبات اور دیگر عملے کو ہدایا ت جاری کی گئیں کہ اگر کسی نے حاجرہ بی بی کے ساتھ ہونے والے سلوک بارے زباں کھولی تو اس کی خیرنہیں۔ چپکے سے اس کے گھر والوں کو بلوا کر لاش انکے حوالے کر دی گئی تاکہ وہ اپنی نا اہلی، ہٹ دھرمی، اور ابلیس صفت اقدامات کو چھپا سکیں۔ محکمہ ہیلتھ، ڈسڑکٹ ہسپتال اورجنرل نرسنگ سکول کے کرتا دھرتاوں کو سانپ سونگھ گیا۔
مصلحت کے تحت ضلعی انتظامیہ اور مقامی میڈیا بھی خاموش ہو گیاکیونکہ انہیں بھی کل ہسپتال سے علاج و ادویات لینی ہیںوہ اپنے تعلقات ایک مرجانے والی نرس کی خاطربھلا کیوں خراب کریں۔آخرکب تک نرسوں کا استحصال ہو تا رہے گا؟ یہ وہ سوال ہے جو ہم سب کو سوچنا ہو گا۔میں پوچھتا ہوں کہا ں ہیں وہ انسانی حقوق کی علمبردار تنظیمیں؟ کہاں ہے نرسوں کی فلاح وبہبود کی نگہبان پاکستان نرسنگ کونسل؟ کہاں ہیں وہ خادم اعلیٰ ؟ کہاں ہیں وہ قلم کار جہنوں نے معاشرے کی اصلاح کا ٹھیکہ اُٹھا رکھا ہے ؟کہاں ہیں وہ سوموٹو ایکشن لینے والے؟ کیا انہیں یہ ظلم وبربریت دیکھائی نہیں دیتی ۔کیا یو ںہی بے کسوں اور لاچاروں کے ساتھ جانوروں جیسا سلوک ہو تا رہے گا؟ کیا اس بے رحمانہ ظلم ڈھانے والوں کے خلاف کوئی انکوائری یا ایکشن نہیںہونا چاہیے؟کیا اُس مظلوم کے بچوں کے سر پر کوئی شفقت کا ہا تھ نہیں رکھے گا؟ان سوالات کا جواب مجھے کون دے گا؟ حاجرہ بی بی کے معصوم بچے پوچھتے ہیں کہ اُن کی ماں کا لہو وہ کس کے ہاتھ پر تلاش کریں؟