تحریر : میر افسر امان حکیم محمد سعید حکمت کا پیشہ کرنے کے ساتھ ساتھ ماہر تعلیم، ایک محب وطن پاکستانی اور دل میں مسلمانوں کا غم بھی رکھنے والے تھے۔ وہ اسلام کے شیدائی اور نظریہ پاکستان کے محافظ اور باعمل مسلمان تھے۔ پاکستان سے محبت کا اندازہ ہم اس طرح کر سکتے ہیں کہ ماہ رمضان میں ہر برس چھبیس رمضان کو اخبارات میں ایک مضمون لکھ کر پاکستانیوں کو یہ بات ضرور یاد دلایا کرتے تھے کہ ہجری تقویم کے لحاظ سے آج شب آزادی ہے اور کل پاکستان کا یوم آزادی۔ ان کے قائم کردہ اداروں میں اب بھی ہر سال ستائین رمضان کو قومی پرچم بلند کیا جاتا اور پاکستان کا یوم آزادی منایا جاتا ہے۔اُ ن کی اِسی خوبی کے وجہ سے گریٹ گیم کے مقامی ایجنٹ، نظریہ پاکستان کے مخالف، لسانیت، فاشست اور مصنوی قوم پرست، دہشت گرد پارٹی ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین کے پالتو غنڈوں نے ١٧ اکتوبر ١٩٩٨ کی صبح برنس روڈ کراچی میں، ان کے مطب کے سامنے شہید کر دیا تھا۔
غدار وطن الطاف حسین نے قلم اور دلیل کی بات کرنے والے مہاجروں کو کہا کہ ٹی وی اور وی سی آر فروخت کر اسلحہ خریدو۔مہاجروں کو نعرہ دیا کہ حقوق یا موت۔ یہ کام ڈکٹیٹر جنرل ضیاء کی حکومت میں سندھ کے وزیر اعظم غوث علی شاہ کے دور میں ہوئے۔ سندھ میں اسلحہ کے زور پرمہاجروں کو سندھی،بلوچوں ،پنجابیوں اور پٹھانوں سے لڑا دیا۔ اس کی دہشت گردانہ پالیسیوں کی وجہ سے اس کی پارٹی کے کسی فرد نے اختلاف کیا تو ان کو قتل کروا دیا۔ جیسے عظیم طارق کو۔ کراچی شہر میں بینرز لگوائے جو قائد کا غدار ہے وہ موت کا حقدار ہے۔ کراچی میں قاعد اعظم کے مزار کے سامنے پاکستان کا جھنڈا جلایا۔غدار وطن الطاف حسین نے بھارت جاکر دو قومی نظریہ کی مخالفت کرتے ہوئے تقریر کی تھی کہ ہندوستان کا بٹوارہ تاریخ کی عظیم غلطی تھی۔
ہندوئوں کو مخاطب کر کے کہا کہ ہم دوبارہ واپس آجائیں تو قبول کر لو گے۔ بھارت سے فنڈنگ لیتا رہا۔اس بات کا اعتراف بھارتی حاضر فوجی سروس جاسوس کلبھوشن یادیو نے اپنے بیا ن میں کیا۔اپنے کارکنوں کو بھارت میں دہشت گردی کی ٹرینینگ دلائی۔ایک عرصہ تک پورے پاکستان کے الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا کو دہشت کی بنیاد پر یلغمار بنائے رکھا۔ اسلحہ کے زور پر الیکشن میں اپنے نمائندوں کو کامیاب کرواتا رہا۔ بوری بند لاشیں اور بھتہ خوری کی بنیاد رکھی۔دہشت گردی کی بنیاد پر تیس سال تک کراچی کو ایک انگلی پر نچاتا رہا ۔ ایک فون کل پر کراچی میں خون ریز ہڑتال ہو جاتی۔ ایسی سیکڑوں ہڑتالیں کروائیں۔ ان دہشت گردانہ کاروئیوں پر خوش ہو کر غدار پاکستان غلام مصطفےٰ شاہ المعروف(جی ایم سید)نے کہا تھا کہ جو کام میں چالیس سال نہیںکر سکا وہ کام الطاف حسین نے چالیس دن میں کر دیا۔ سیاسی پارٹیوںپیپلز پارٹی اور ن لیگ نے اسے کھلی چھٹی دی رکھی۔ڈکٹیٹرمشرف نے اس کو اپنا ساتھی بنائے رکھا۔ حکیم سعید شہید تو امر ہو گئے۔
پاکستان اور دو قومی نظریہ کے محافظ،سچے اور پکے با عمل مسلمان ہونے کی وجہ سے پاکستان اور اسلامی دنیا آج بھی اُن کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے اور آئندہ بھی دیکھتی رہے۔مگر الطاف حسین غدار وطن کو پاکستانی عوام نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ الطاف حسین کے خلاف پاکستان سے غداری کے الزام میں، عوام نے ملک بھر میں سیکڑوں مقدمات قائم کیے ہوئے ہیں۔عدالت نے الطاف حسین کی پاکستان مخالف پر، اس کے تصویروں اورتقریروں پر پابندی لگائی ہوئی ہے۔
اس کی اپنی پارٹی کے رہنمائوں نے ان سے علیحدگی اختیار کر لی ہے۔آج مقافاتِ عمل کے تحت اس دہشت گرد فاشست پارٹی پانچ دھڑوں میں تقسیم ہو گئی ہے۔ اس سے قبل اس کی پارٹی کے ممبران نے سندھ اسمبلی میں قراداد پاس کروائی کہ الطاف حسین پر پاکستان کے آئین کی دفعہ ٦ کے تحت غداری کا مقدمہ قائم کیاجائے۔یہی قرارداد پاکستان کے ایوان بالا(سینیٹ) ایوان زیرین( قومی اسمبلی)،خیبرپختونخواہ، پنجاب اور بلوچستان کی صوبائی اسمبلیوں نے پاس کی۔اب آئین پاکستان کے مطابق یہ کام نواز شریف کی وفاقی حکومت کا تھا کہ الطاف حسین کی ٢٢ اگست کی پاکستان مخالف تقریر پر پاکستان کی سپریم کورٹ میں الطاف حسین کے خلاف پاکستان کے خلاف غداری کا مقدمہ قائم کرتے۔ سپریم کورٹ یہ مقدمہ سن کر انصاف کے تقاضے سامنے رکھتے ہوئے اپنا فیصلہ سنا کر الطاف حسین کو قرار واقعی سزا دیتی۔
اس سے پاکستان کے خلاف بغاوت کرنے والوں کے لیے ایک سبق ہوتا وہ آیندہ کے لیے عبرت پکڑتے۔حکیم سعید دہلوی شہید سمیت ہزاروں مظلوموں کی داد رسی ہوتی جنہیں الطاف حسین کے کہنے پرکراچی اور پاکستان کے مختلف حصوں میں مظلومانہ طریقے سے شہید کر دیا۔ جس میںخود محب وطن مہاجر اور پاکستان کے سارے صوبوںکے مظلوم عوام شامل ہیں جوکراچی میں محنت مزدروی کر کے اپنی بچوں کا پیٹ پالتے تھے۔سپریم کورٹ سے نا اہل قرار دیے جانے والے نواز شریف نے غدار وطن الطاف حسین پر مقدمہ قائم نہیں کیا۔ اپنے منصب پر پڑھنے والی ذمہ داری سے صرف ایک کمیٹی بنا کر بری الزمہ ہو گئے۔
پاکستان میں کمیٹی،کمیٹی کھیلنے کا ڈرامہ تو ایک عرصے جاری ہے۔ جس قصے کوکھڈے لین لگانا ہوتا ہے۔ اس کے لیے کمیٹی بنا دی جاتی ہے جو کچھ نہیںکرتی۔ الٹا کیس کو دفن کر دیتی ہے۔یہی کام اس کمیٹی نے بھی کیا۔ اس سے قبل فوج نے ١٩٩٢ء میں الطاف حسین کی فاشست ،لسانی ، دہشت گرد،مصنوئی قوم پرست ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن کیا تھا۔ نا اہل وزیر اعظم نواز شریف اقتدار میں تھے تو اُس نے ایم کیو ایم کو پاکستان کے ملکی خزانے ٧٥ کروڑ ریلف کے طور پر دیے تھے۔یہ ہے نا اہل نواز شریف کے کارنامے۔ مثل مدینہ ریاست، مملکت اسلامیہ جمہوریہ پاکستان کے غدار کے خلاف کاروائی نہ کرنے کی وجہ سے شاید اللہ نے نواز شریف کو عبرت بنا دیا۔ اُوپر ہم نے الطاف حسین کومصنوئی قوم پرست لکھا۔ وہ اس طرح کہ صدیوں سے پڑھتے آئے ہیں کہ ہجرت کر کے آنے والے جہاں کہیں بھی آباد ہو ئے اُسی ملک کے، کلچر، تہذیب ،تمدن کا حصہ بن گئے۔
صاحبو! ہندوستان سے ہجرت کر کے آنے والے مہاجر پاکستان کے جس جس صوبے میں آباد ہوئے، مقامی آبادی نے ان سے انصار مدینہ والا معاملہ کیا۔ وہ بلوچستان میں بلوچی، پنجاب میں پنجابی ، صوبہ سرحد میں پٹھان اور سندھ میں سندھی قوم میں شامل ہو گئے۔ یہ سب صوبے پہلے سے موجود تھے۔پھر دنیا کے سارے انسان آدم اور پھر نوح کی کشتی میں سوار ہونے والوں کی اولاد ہیں۔ وہ جہاں جہاں بھی گئے اسی ملک میں ضم ہو گئے۔ بقول شاعر اسلام علامہ شیخ محمد اقبال :ہرملک، ملک ما است، کہ ملک خدائے ما است ۔ یعنی ہر ملک میرا ملک ہے کیونکہ سب ملک میرے خدا کے ملک ہیں۔ گریٹ گیم کے تحت ، غدار پاکستان الطاف حسین نے مہاجروں کو سندھ میں مصنوئی مہاجر قومیت پر اکٹھا کیا اور مقامی مسلمانوں سے لڑا کر ان کو پاکستان کو نقصان پہنچایا۔ حکیم سعید دہلوی شہید اس مؤقف کے مخالف تھے۔ اس لیے انہیں الطاف حسین کے غنڈوں نے شہید کیا۔ اللہ حکیم سعید دہلوی شہید کو کروٹ کروٹ سکھی رکھے امین۔