کیا دشمن کا چہرہ اب واضح نہیں ہو چکا نیک محمد، ولی الرحمٰن، بیت اللہ محسود اور اب حکیم اللہ محسود کی لاشیں گرنے کے تسلسل کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں رہا، ہم بے گناہ لاشوں کی بکھرتی راکھ کب تک سمیٹیں گے؟ وزیرستان میں ڈرونز سے راکھ ہونے والی انسانیت کی حقیقتکو ہم کب تک نظر انداز کرتے رہیں گے؟ بعض امریکہ نواز دانشوروں کی منطق بجا کہ حکیم اللہ محسود گروپ نے بے گناہوں کے خون سے ہاتھ رنگے کیا یہ بھی حقیقت نہیں کہ قبائلی علاقوں کو امریکیت نے وہاں کے عوام کی مرضی کے خلاف ایک ”جنگی لانچنگ پیڈ ”کے طور پر مسلسل استعمال نہیں کیا۔
وزیراعظم کے دورہ امریکہ کے بعد ڈرون حملے کیا ہمیں یہ باور کرانے کی سعی نہیں کہ ہم جو چاہیں کریں انسانی حقوق ہمارے سامنے کوئی حقیقت نہیں رکھتے ؟جنوبی ایشیا میں امریکن پولیس مین کا کردار ادا کرنے والے شہنشاہ آریا مہر کی روش پر ہم کب تک چلیں گے جب عوام کا سیل رواں شاہرات پر نکلا تو امریکیت نے بھی اپنے اس مہرے کو پناہ دینے سے انکار کر دیا۔
کیا اس بے حسی پر ہماری خاموشی معنی خیز نہیں کہ پس منظر کے چہرے کو ہم مصلحت اور مفاہمت کی چادر سے ڈھانپ رہے ہیں؟ مفادات، سرمائے اور حکمرانی کی جنگ کو امریکیت دہشت گردی کا لبادہ پہنا کربے کسوں اور محروموں کے جذبات کے ساتھ فریب اور کھلواڑ کررہی ہے امریکیتکے سرمائے اور اسلحے کی فراوانی نے کالے دھن کے مستقل کاروبار کو جنم دیکر قبائلی علاقوں کی سماجی ساخت کو تبدیل کرکے مسخ کیا، قدیم قبائلی روائتی ڈھانچے کو توڑا قبائلی سربراہ کی جگہ کالے دھن کے حامل منشیات فروشوں اور مسلح جنگنوئوں نے لیکر قبائلی حکمرانوں کے جرگوں اور فیصلوں پر اثر انداز ہوکر توازن اور نظم کو بگاڑا یہ امریکیت ہی ہے جس کے جنگجو مختلف نظریاتی لبا دے اوڑھ کر بلوچستان میں درندہ صفت قتل عام کر رہے ہیں وہاں جاری ”گریٹ گیم ”میں امریکیت اور را پیش پیش ہے معصوم نوجوانوں کے بھرتی کے عمل کو کھلا اور یک طرفہ رستہ دیا جارہا ہے کیا ریاست کیلیفورنیا سے تعلق رکھنے والے رکن پارلیمنٹ اور پارلیمانی سب کمیٹی برائے خارجہ امور کے رکن ڈانا رور بیکر کی امریکی کانگریس میں پیش کی گئی قرار داد جس کا متن ”بلوچستان کے عوام کو حق کود ارادیت اور علیحدہ ملک کا حق حاصل ہونا چاہیئے ”سچائی کو عیاں نہیں کر رہا ؟کیا افغانستان اور عراق کو تاراج کرنے والے امریکی سامراج کے نمائندے کے بیان پر پاکستانی قیادت کا کوئی احتجاج سامنے آپایا ِ؟ مسلم لیگ ن کے قلیل عرصہ حکمرانی میں ایک درست تناظر کے نہ ہونے، واقعات اور معروض سے مفائرت، حالات کی صحیح جانچ ،ہونے والے واقعات کے عوامل سے بے خبری اور ایک واضح پروگرام کے نہ ہونے، درپیش فوری مسائل، بے روزگاری کا عفریت، مہنگائی، غربت، افلاس و جہالت، لاعلاجی کے خاتمہ کیلئے کسی ٹھوس حکمت عملی کا فقدان، حکومتی اور فرینڈلی اپوزیشن کے الائنس کو ننگا اور قابل نفرت بنا رہا ہے۔
Inflation
کیا ذہنی، جسمانی اور روحانی اموات کی شرح سے ہم نظریں چرانے کا جرم نہیں کر رہے؟ ستمبر میں 232 افراد نے خود کشی کی پس منظر مہنگائی اور بیروزگاری بنی کسی کا روزگار چھن جانے کو اُس کی موت ہی کہا جا سکتا ہے جب کوئی ماں اپنے بچے کو دودھ نہیں دے پاتی تو اُس کی موت کو ہم دوسری قسم کی موت کا نام دیتے ہیں اس 232 افراد میں 95 عورتیں بھی تھیں جب کوئی فرد وطن مراکز مسیحائی میں اپنے بوڑھے والد کا علاج کرانے میں مالیاتی طور پر ناکام ہوتا ہے تو یہ بھی ایک موت نہیں تو اور کیا ہے؟ جب کوئی بچہ سکول کی فیس اد کرنے کی بجائے ٹی ہائوسز میں لوگوں کے سامنے چائے رکھتا ہے ،عورت معاشی بدحالی سے تنگ آکر اپنا جسم سستا بیچتی ہے اسے روح اور احساس کی موت کہنا بے جا نہ ہو گا۔
ظلمتوں کے کٹہرے کے حصار میں جب مظلوم ہوں تو مظلومیت کے گرداب سے اُبھرنے والی تحاریک فرسودہ نظاموں کی موت ہوا کرتی ہیں نام نہاد جمہوریت کے ادوار استحصال کی شکلیں بدل رہے ہیں اور خاتمہ ممکن نہیں موروثی حکمرانوں کی ہوس کے پھندے میں عوام کی گردن پھنستی جا رہی ہے۔
کیا تاریخ کو اُس کی ارتقائی خصلت سے دستبردار کیا جا سکتا ہے ؟امریکیت کے پروردہ نظام کی درپردہ سفاکی منظر عام پر آکر خیر خواہوں کا منہ چڑا رہی ہے فرینڈلی اپوزیشن کا زہر جمہور کا گلہ گھونٹ رہا ہے، مفاہمت کا نظریہ اپنی موت مر رہا ہے اپوزیشن کے کمزور ،بد دیانتی سے بھرے کردار اور سنجیدہ ایشوز سے گریز نے عوام کے سیاسی شعور کو مفلوج کیا، نجکاری اور بے روز گاری کی زد میں کیاہم اس عمومی سوال سے جان چھڑا سکتے ہیں کہ انسانیت کا مستقبل کیا ہوگا۔
موروثیت کی نسل در نسل چلنے والی ریہرسل سے ٹھونسی جانے والی اقدار ،اخلاقیات اور طریقہ زندگی عام لوگوں کے شعور کا مستقل حصہ نظر آنا شروع ہو چکا ہے 36اداروں کی نجکاری کو حکومت اور فرینڈلی اپوزیشن کے باہمی سودے بازی سے تعبیر کیا جاسکتا ہے جس کا نتیجہ ری سٹرکچرنگ اور ڈائون سائزنگ کی بد ترین شکل میں نکلے گا پی ٹی سی ایل کی نجکاری کا زخم 30 ہزار ملازمین کی برطرفیوں کی شکل میں ابھی تک نہیں بھر پایا چیئر مین نیب کی تقرری کو لیں وزیر اعظم ،صدر اور اپوزیشن لیڈر تینوں خود کو فاتح کی حیثیت سے دیکھ رہے ہیں ،اُن کے خیال میں وہ اپنی کامیابیوں اور محفوظ ھیثیت کو برقرار رکھنے کی سعی میں ہیں یہی بات ان کو اپنی خوشیوں کی ضمانت دے رہی ہے مگر حقیقت میں یہ تینوں بہت کچھ کھوچکے ہیں اور متاثرین عوام ہیں جن کے چہروں پر ان 120 دنوں میں غم و الم کی واضح داستانیں تحریر ہو چکی ہیں ،تنزلی اورذلت کی ایسی علامات سامنے آئی ہیں جنہوں نے سلطنت روم کے زوال کی بربادیوں اور تباہ کاریوں کو بھی ماند کر دیا ہے۔
حالات کی بہتری کی کیا کوئی موہوم سی اُمید ہے جو عوامی زندگی میں رونق کا موجب ہو اور ہماری نام نہاد جمہوریت ہے جو بڑے مکارانہ انداز میں اپنی حاکمیت، طاقت اور برتری ظاہر کرنے کی ہر جائز و ناجائز پالیسی پر گامزن ہے۔