تحریر : فیضان رضا سید غیر ایڈز زدہ یا غیر سیکولر، حلال خون سے جنم لینے والا بچہ جب اس دنیا میں چیخ مار کر اور رو رو کر اپنی زندگی کی پہلی انٹری کا اعلان کرتاہےتو عین اسی وقت اسلام اپنی سروسز کا آغاز کردیتا ہے۔۔۔بچے کو فی الفور پاکی فراہم کی جاتی ہے۔۔کان میں اذان دے کر سمجھا دیا جاتا ہے وہ کس کی امانت ہے۔۔بچہ جس ماحول میں آنکھ کھولتا ہے وہ “صفائی نصف ایمان ہے” کا معاشرہ ہے جہاں جراثیموں کو پنپنے کی مہلت ہی نہیں مل پاتی کہ وہ اس ننھی جان پر یلغار بھی کرسکیں: ۔۔۔۔۔مگر وہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کا کم عمری میں نکاح۔۔۔۔۔ یہ چھوٹا سا وجود بھی نان و نفقہ کے نام پر اپناروٹی پانی جیسے عالم ارواح میں ہی لکھوا آیا ہے۔۔۔ماں کا دودھ دو سال تک پینے کی آسائش اس کو میڈیکل سائنس کی تحقیق اور مشورے سے پہلے ہی فراہم کردی جاتی ہے۔۔۔یہ جس معاشرے میں آنکھ کھولتا ہے وہاں چھوٹوں پر رحم لازم ہے۔۔ اس کی اچھی تربیت کی ذمہ داری کے لیے کسی حکومتی ادارے کی نگرانی کی ضرورت نہیں بس ایک کلمہ کی حاجت ہے۔۔۔ ابھی وہ چلنا اور بولنا شروع کرتا ہے اس کی تربیت کا آغاز ہوجاتا ہے۔۔وہ شعور کی پہلی سیڑھی ہی پکڑتا ہے کہ اسے سکھانا شروع کردیا جاتا ہے۔
“بیٹا جھوٹ نہیں بولنا” ۔۔”چوری نہیں کرنی”۔۔۔۔”بیٹا گالی نہیں دینی”۔۔۔۔”کسی سے بدتمیزی یا غیر اخلاقی حرکت نہیں کرنی”۔۔”نہ غیبت کرنی ہے نہ چغلی”۔۔”لڑائی جھگڑا نہیں کرنا بلکہ بڑوں کو سلام کر کےدنیا و معاشرے کی سلامتی کی طرف پہلا قدم رکھنا ہے”۔۔”اچھا بچہ بننا ہے کیونکہ۔۔۔۔۔یہ اللہ کو پسند ہے!! برائی سے دور رہنا ہے۔۔۔۔کیونکہ یہ اللہ کو پسند نہیں!!” ۔۔۔۔۔مگر وہ چوری پر ہاتھ کاٹنے والی بات؟۔۔۔۔۔۔۔ ابھی وہ لڑکپن میں قدم رکھتا ہے اس کی علم و مہارت کی ترویج کا اہتمام کیا جاتا ہے۔۔تحصیل علم و عمل تحقیق کا اہتمام اور ترغیب اتنے جاندار اور موثر انداز میں کی جاتی ہےشعور کی منزلیں تیزی سے طے ہونے لگتی ہیں۔۔یہ غوطہ ضروریات دین سے لے کر ضروریات دنیا پر محیط اس قدر وسیع سمندر ِ علم میں ہوتا ہے کہ انسان ” ماں کی گود سے قبر کی آغوش تک علم حاصل کرتا رہتا ہے”۔۔
۔تعلیم دین تجدید، اجتہاد و قیاس کے ذریعے اس انسان کی عصری ضروریات اور عرف عام کا پورا پورا خیال رکھتی ہے۔۔۔ریاست مدینہ میں شروع ہونے والی گھڑ سواری کی مشقیں جدید زمانے میں مکینکل انجئنیرنگ کے ذریعے عصری ذرائع آمد و رفت کی تیاری اور سواری تک پہنچ جاتی ہیں جس میں عباس بن فرناس نامی سائنسدان کی گراں قدر خدمات سفر کو قیمتی اور درست سمت فراہم کرتی ہیں۔۔۔کار معیشت میں دولت کا ارتکاز روک کر اس کی گردش کو یقینی بنانے کا نظام دنیا میں اپنا سکہ منواتا ہے ۔۔ یہ نظام معیشت اسلام کے ان چند اصولوں پر قائم ہے جہاں اجتہاد کا راستہ کافی حد تک بند رکھا گیا ۔۔ اور جدید نظام معیشت نے دولت کا ارتکاز کر کے ثابت کیا ہے کہ اسلام نے حقیقتاً ایسا نظام دیا تھا جو ہر زمانے کے لیے موسم بہار کی حیثیت رکھتا ہے۔۔آج دنیا کی آدھی دولت دنیا کے ایک فیصد لوگوں کے قبضے میں ہے اور اس میں بھی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔۔یہ اسلامی معاشرے کی علمی اور عملی تربیت کا نظام ہی تھا کہ مائیکل ہارٹ جیسا عیسائی مصنف جب دنیا کی 100 بہترین شخصیات کی فہرست مرتب کرتا ہے تو اس میں سب سے پہلا نام حضرت محمد ﷺ کا یہ کہہ کر رکھتا ہے:” اگرچہ آپ (ﷺ) کی زندگی تک اسلام مکہ و مدینہ تک محدود رہا لیکن آپ تعلیم و تربیت کا جو نظام دے کر گئے تھے اس نے دنیا بھر میں اسلام کا جھنڈا لہرادیا”۔۔۔۔۔
Islam
مگر وہ بنو قریظہ والا واقعہ؟۔۔۔۔۔۔ جیسے ہی وہ نوجوانی کی طرف بڑھتا ہے اسلام اس کی معاشرتی اور اخلاقی تربیت میں تیزی پیدا کردیا ہے۔۔اسے سمجھادیا جاتا ہے ” ایمان کی ساٹھ سے اوپر شاخوں میں ایک حیا بھی ہے”۔۔”بےشک جن لوگوں نے مومن مردوں اور مومن عورتوں کو اذیت دی پھر توبہ (بھی) نہ کی تو ان کے لیے عذابِ جہنم ہے اور ان کے لیے (بالخصوص) آگ میں جلنے کا عذاب ہے”(البروج، 85 : 10)۔۔۔ اسے بتادیا جاتا ہے اسلام اور ایمان کس قدر ضروری ہیں اور ان کے استحکام کے لیے کیا کچھ کرنا پڑے گا۔۔اسے بتایا جاتا ہے اسلام کا مطلب سلامتی اور ایمان کا مطلب امن کے سوا کچھ نہیں! “جس شخص نے کسی مومن کو ظلم سے ناحق قتل کیا تو اﷲ تعالیٰ اس کی کوئی نفلی اور فرض عبادت قبول نہیں فرمائے گا ۔” (ابو داود) اور۔۔ “(اے کعبہ!) تو کتنا عمدہ ہے اور تیری حرمت کتنی زیادہ ہے، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے! مومن کے جان و مال کی حرمت اﷲ کے نزدیک تیری حرمت سے زیادہ ہے ” (ابن ماجہ)
اور اس معاملے میں اسے سمجھادیا جاتا ہے کہ غلطی کی گنجائش بھی باقی نہیں ہے!! “تم میں سے کوئی شخص اپنے بھائی کی طرف ہتھیار سے اشارہ نہ کرے، تم میں سے کوئی نہیں جانتا کہ شاید شیطان اس کے ہاتھ کو ڈگمگا دے اور وہ (قتلِ ناحق کے نتیجے میں) جہنم کے گڑھے میں جا گرے۔” (مسلم) “رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نےننگی تلوار لینے دینے سے منع فرمایا۔” (ترمذی) امن و سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے اسلام نے خود کو ایک دو بار تلقین کرنےتک محدود نہیں رکھا بلکہ اس سلسلے میں مسلسل تعلیم و تربیت کو جاری رکھا اور اس کے خلاف جانے کو اس قدر سنگین جرم بنادیا کہ: “جس نے کسی شخص کو بغیر قصاص کے یا زمین میں فساد (پھیلانے کیسزا) کے (بغیر، ناحق) قتل کر دیا تو گویا اسنے (معاشرے کے) تمام لوگوں کو قتل کر ڈالا۔” (المائدہ-32) اور۔۔۔ “اور جو شخص کسی مسلمان کو قصداً قتل کرے تو اس کی سزا دوزخ ہے کہ مدتوں اسمیں رہے گا اور اس پر اللہ غضبناک ہو گااور اس پر لعنت کرے گا اور اس نے اسکے لیے زبردست عذاب تیار کر رکھا ہے” (النساء، 4 : 93)
’’تم میرے بعد ایک دوسرے کو قتل کرنے کے سبب کفر کی طرف نہ لوٹ جانا۔‘‘ (بخاری) اور۔۔ “اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو عذاب دے گا جو دنیا میں لوگوں کو اذیت و تکلیف دیتے ہیں۔” (مسلم) ۔۔۔۔۔مگر وہ نبی(ﷺ) کا کثرت ازدواج والا معاملہ؟۔۔۔۔ وہ جوانی کی طرف قدم رکھتا ہے تو جذباتیت اور توانائی اپنے عروج پر ہوتی ہیں۔۔اسلام یہاں بھی اس بھپرتی جوانی پر بند باندھتا ہے۔۔ حق پر ہونے کے باوجود جھگڑا چھوڑ دینا، صلہ رحمی کرنا، بد عنوانی نہ کرنا، حرام کمائی چوری، ڈاکہ، رشوت ،جوا اورسود وغیرہ سے دور رہنے کا حکم دیتا ہے۔۔پڑوسیوں کے اس قدر حقوق بیان کرتا ہے کہ ان کا وراثت میں شراکت دار ہونے کا خدشہ پیدا ہونے لگتا ہے۔۔زنا کو جرم قرار دیتا ہے اور ایک حیادار معاشرے کی بنیاد فراہم کرتا ہے۔۔پسند کی شادی کی اجازت دیتا ہے۔۔اس کے بعد بیوی سے حسن سلوک کی تلقین کرتا ہے۔۔اولاد پیدا ہونے پر اس کی اچھی تربیت کی ذمہ داری سونپتا ہے۔۔۔والدین کے حقوق، رشتہ داروں کے حقوق، بیوی اور بچوں کے حقوق، پڑوسیوں کے حقوق،مسلمانوں کے حقوق، غیر مسلموں کے حقوق، اجنبی کے حقوق،جانوروں کے حقوق، زندوں کے حقوق، مُردوں کے حقوق غرض زندگی کے ہر ہر معاملے اور زاویئے سے معاشرے کی ایسی مضبوط بنیاد فراہم کرتا ہےجو دنیا کے کسی قانون میں ممکن ہی نہیں ہے۔۔!! مگر وہ۔۔۔۔۔ مگر وہ بھی۔۔۔۔۔ مگر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!