لاہور (جیوڈیسک) حلیمہ کے بہنوئی راشد لطیف نے بتایا کہ وہ روزے سے تھیں، مگر وہ یہ سمجھنے سے قاصر نظر ہیں کہ جب کوئی کھانے پینے سے دور ہو تو وہ تیزاب کیسے پی سکتا ہے۔
میڈیا رپورٹس میں اس موت کو متنازعہ قرار دیا گیا ہے، جبکہ اس کا خاندان اسے خودکشی قرار دے رہا ہے۔ مگر حلیمہ کا خاندان میڈیا کو خود سے دور رکھنے کوشش بھی کررہا ہے۔ انہوں نے خبروں کے کھوجی رپورٹرز اور مستقل مزاج کیمرہ مینوں کو حلیمہ کی تدفین سے جس حد تک ممکن ہوسکا دور رکھنے کی کوشش کی۔ اس کے علاوہ انہوں نے اس موت کی خودکشی کے طور پر پولیس میں رپورٹ بھی درج نہیں کرائی، جو کہ درج کرائی جانی چاہیئے تھی۔
ان کے پاس اس کی چونکا دینے والی وجوہات ہیں۔ گزشتہ سال جولائی میں ملتان کرکٹ کلب (ایم سی سی) سے تعلق رکھنے والی حلیمہ سمیت تین دیگر لڑکیاں ایک ٹی وی ٹاک شوز میں شریک ہوئیں اور کلب کے چیئرمین مولوی عالم کے خلاف جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کے الزامات عائد کیے۔
اگر آپ اس ٹی وی شو کی ریکارڈنگ دیکھیں تو حلیمہ کافی خاموشی سے ایک کونے میں بیٹھی تھی جبکہ دیگر لڑکیاں سابق جج مولوی عالم پر الزامات کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے پر بھی الزامات لگا رہی تھیں۔ حنا غفور اس شو میں حلیمہ کے ساتھ آنے والی لڑکیوں میں سے ایک تھیں، وہ بتاتی ہیں کہ حلیمہ ایک سادہ مزاج لڑکی تھی، جس کے خاندان نے اس شو کے بعد وہ جس کرب سے گزری اس ذہنی کرب میں اس کو سہارا نہیں دیا۔
حنا نے کہا “ہم سب کی طرح حلیمہ کو بھی الزامات سے دستبردار ہونے کے لیے دھمکی آمیز فون کالز آرہی تھیں۔ میں نے ایک ماہ قبل اس سے آخری مرتبہ بات کی تھی تو وہ اس معاملے کے حوالے سے کافی پریشان تھی۔ پاکستان کرکٹ بورڈ نے ٹی وی شو کے بعد ایک تحقیقاتی کمیٹی قائم کی تھی، مگر اسے الزامات کو ثابت کرنے کے لیے زیادہ شواہد نہیں مل سکے تھے۔ اس لیے کہ حلیمہ اور دیگر لڑکیوں کو کمیٹی کے سامنے بیانات دینے سے تو روکا ہی گیا تھا، اس کے ساتھ ہی ان چاروں کو چھ ماہ کے لیے کرکٹ کھیلنے سے بھی روک دیا گیا۔
ویمن کرکٹ ٹیم کی منیجر عائشہ اشعر کا تو کہنا ہے کہ اس معاملے کو مناسب طریقہ سے لیا گیا تھا اور اب یہ ختم ہوچکا ہے، مگر حنا کا کہنا ہے کہ تحقیقاتی کمیٹی کی تفتیش نامکمل تھی۔ دوسری جانب راشد لطیف کا کہنا ہے کہ حلیمہ کو یہ بات معلوم نہیں تھی کہ وہ ایسے ٹی وی شو میں جارہی ہے جہاں اسے دیگر لڑکیوں کے دعوﺅں کا ساتھ دینا پڑے گا۔
راشد کا کہنا تھا “حلیمہ نے اپنے ساتھ کٹ لے لی تھی اور اس کا خیال تھا کہ وہ بہاولپور کھیلنے جارہی ہے، مگر وہ لوگ اسے لاہور کے ایک اسٹوڈیو لے گئے۔ اس نے کبھی ہراساں کیے جانے کے معاملے پر ہم سے یعنی اپنے خاندان سے کوئی بات نہیں کی تھی”۔ حلیمہ کی عمر سترہ سال تھی اور اس نے میٹرک مکمل کرنے کے بعد ایک سال گھر میں گزارا تھا جہاں وہ پانچوں وقت کی نماز کی ادائیگی کے ساتھ اپنی بیوہ ماں کا ہاتھ بٹاتی تھی۔
ہم نے راشد لطیف سے پوچھا کہ زندگی کے آخری سال میں حلیمہ کی کیا مصروفیات تھیں۔ اس کا جواب تھا “وہ بس کرکٹ کھیلنا چاہتی تھیں، وہ بہت اچھی آل راﺅنڈر تھیں اور میں بھی اس کے ساتھ کھیلا کرتا تھا، بلکہ وہ تو بچوں کے ساتھ بھی کھیلتی تھی، وہ کرکٹ کا جنون رکھتی تھی اور ہر اس کھیل سے متعلق قسم کے اعدادوشمار سے واقف تھی۔
راشد نے مزید بتایا کہ مگر ایسا لگتا تھا کہ کرکٹ کیرئیر اس سے دور ہونے والا تھا، کیونکہ خودکشی سے پہلے جمعے کے روز اسے ایم سی سی چیئرمین مولوی عالم کی جانب سے ٹی وی شو پر دیے گئے بیانات پر دو کروڑ روپے ہرجانے کا سمن موصول ہوا تھا۔
راشد کا کہنا تھا “وہ بہت کم عمر تھیں، اس سمن نے انہیں ہلا کر رکھ دیا تھا، اور جب اس سمن کی خبر اتوار کے اخبار میں شائع ہوئی تو انہوں نے خودکشی کرلی۔ یہ بات واضح ہے کہ لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والی اس نوجوان کرکٹر کو دباﺅ برداشت کرنے کے لیے سپورٹ سسٹم حاصل نہیں تھا، مگر اس حوالے سے باقی تفصیلات کافی مبہم ہیں اور ہر فرد کا اپنا الگ ہی بیان ہے۔
حنا اپنے الزامات پر قائم ہیں، راشد ان کی تردید کرتے ہیں، جبکہ ایک مقامی صحافی بھی ان الزامات کو درست مانتا ہے۔ کیا اس نوجوان لڑکی کو زبردستی تو اس معاملے میں گھسیٹا نہیں گیا؟ وہ کم عمر تھیں تو کیا اسے شو میں لے کر جانے سے اس کے خاندان سے پوچھا گیا تھا؟
شو کے پروڈیوسرز یا اس کی ساتھی لڑکیوں نے مشاورت کی تھی؟ کیا تحقیقاتی کمیٹی نے جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کے قانون پر مکمل عمل کیا؟ کیا حلیمہ پر اپنے خاندان کی جانب سے الزامات واپس لینے کے لیے دباﺅ ڈالا جارہا تھا؟
کیا وہ میڈیا جو اس طرح کے اسکینڈلز کو اچھالنا کرنا پسند کرتا ہے، اس نے حلیمہ کے تحفظ کی پروا کی؟ کس پر اس لڑکی کی زندگی کے خاتمہ کی ذمہ داری عائد کی جاسکتی ہے؟ حلیمہ اب اپنے حصے کی کہانی سنانے کے لیے موجود نہیں اور ہمیں لگتا ہے کہ اسے موقع ملتا تو بھی وہ کچھ نہیں کہتی کیونکہ اسے معلوم ہوچکا تھا کہ کرکٹ صرف ایک کھیل ہی نہیں۔