اڑھائی منٹ کے جنازے

General Ayub

General Ayub

تحریر: میاں وقاص ظہیر
جنرل ایوب کے مارشل کے دور میں قرضوں کی علت نے ہمیں آج اس نہچ پہنچا دیا کہ اس پر مسلط چند خاندانوں کے گنے چنے افراد نے اقتداد کو اپنی وراثت سمجھتے ہوئے ملکی خزانہ اور معیشت کا وہ حشر کیا جو پنڈ کا تھانیدار معمولی جرائم میں گرفتار ”کمی ” سے کرتا ہے اور کارکردگی دکھانے کیلئے اس پر اگلی پچھلی تمام وارداتوں کا اعتراف کروا کے اس کے کھاتے میںڈال دیتاہے ،قرضوںکے حصول میں تواتر کی عادات نے ملکی معیشت کو وینٹی لیٹر پر منتقل کیا تو ہمارے اندرذرا ملال نہیں آیا کہ آخر ہمارا کیا بنے گا ،الٹا ہمارے چند اشرافیہ کے افراد نے اسے مال مفت سمجھ کر اس بہتی گنگا میںہاتھ اس طرح صاف کئے کہ آج پی آئی اے سے لیکر واپڈا،سٹیل مل سمیت دیگر اداروںکو نجکاری کا زہریلا ٹیکا لگا کر موت کے گھاٹ اتارا جارہاہے،

اس میں مرے کا کون اشرافیہ نہیں۔۔۔ نہیں ،،،،،کبھی نہیں اگر یہ کہا جائے کہ یہ زہریلا ٹیکا تو اشرافیہ کے بینک بیلنس کو بڑھانے کیلئے لگایا جارہاہے تو ہر گز جھوٹ نہیں ہوگا ،لیکن یہاں بھی ایک خاص بات ضرور ہے ،وہ یہ ہے کہ حسب روایت اس بار سوئس بینک میں دولت نہیںبڑھے گے ،بلکہ اب کے بار کسی اور بینک کا انتخاب ہوریاہے، ممکن ہے کہ چینی بینک” برک ”(BRICK) سے بھی خدمات لی جارہی ہوں ،اس خونی تصادم میں کون مارے جائیں گے آپ اور ہمارے جیسے عام گھروں کے ملازمین۔۔۔۔۔۔۔

Suicides

Suicides

ملکی اداروں کی زبوں حالی ،سڑکوں پر بھوک سے بلکتے بچے،سربازار ماؤں کے ہاتھوں اپنے لخت جگروں کے گلے میں ڈالے برائے فروخت کے کتبے ،کو بہ کو پھیلی کرپشن کا گند ،رشوت ستائی کا گرم بازار،خودکشیاں ،عصمت دریاں ، اور انسانی حقوق کی کھلے عام خلاف ورزی جب مجھ سے برداشت نہیںہوتی، تو سینے میں لگی احساس کی چنگاری الاؤ کی طرح دہکنا شروع ہوجاتی ہے ، پھر کیا ہے ، اپنے ہی وجود میں چھپے دونوں انسانوں کی لفظی جنگ شروع ہوجاتی ہے ،باہر کا انسان کہتا ہے کہ کیا میں ہی رہ گیا ہوں معاشرے کے درد محسوس کرنے کو یہ کام کسی اور پر چھوڑ دو،اندر سے آواز آتی ہے انسان تب تک زندہ ہے ،جب تک احساس زندہ ہے ،مردہ دلوں میں سانسوں کی چلتی ڈوری اس بات کی قطعاََ تصدیق نہیں کہ انسان زندہ ہے

،یہ قطع نظر حضرت اشرف المخلوقات ہیں جو مڈ بھیڑ میں بھی زندہ مردہ انسانوں کو پہچان نہیں پاتے اور شاید روح کو قفس عصری سے پرواز کرنے والے کو ہی مردہ قرار دیتے ہیں ،حالانکہ حقیقت اس سے بالکل برعکس ،بالکل ہی الگ ،تھلگ ،کیونکہ ہر بشر کا اصل مقام اور اصلی گھر تو وہی ہے جہاںروح پرواز کے بعد پہنچتی ہے ،دنیا میںجس طرح زندگی اور موت کا ساتھ عارضی اسی طرح روح اور جسم کے مراسم بھی چند منٹ ،چند گھنٹے اور چند دنوں کے ، سہواََایسے الفاظ کا چنا و ٔنہیں کیا گیا ، اس لئے استعمال کئے کیا کہ مجھے میرا مذہب اسلام اور میری اسلامی کتابیں بتاتی ہیں کہ قیامت کے دن کے مطابق توہماری زندگی محض اڑھائی منٹ ہے ،کیونکہ قیامت کا ایک دن 50ہزار سال کا ہے، تو کبھی سوچا ۔۔۔نہیں ،،،،،کبھی محسوس کیا۔۔۔۔۔

Human Born

Human Born

ہاں کیا،،، لیکن اس پر توجہ نہیںدی ،،،،ا سلئے کہ جب بھی حضرت انسان دنیا میں آیا ،اور آتے ہی رفتہ رفتہ اپنے مقاصد کو بھلاتا چلا گیا ، بھلکر جو ہوا،،،، نہیں ایسا بھی بھلکر نہیں ،، جب اپنی ترجیحات میں انا ،شان وشوکت ،لائف سٹائل،میں نے یہ کردیا ،میں یہ کردوں گا ،مجھے جانتے ہی نہیں ، کوئی میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتا جیسے الفاط کے استعمال سے غلط فہمی کا شکار ہوتا ہے تو عرش معلیٰ پر بیٹھے فرشتے حیران ہوتے ہیں کہ قیامت کے دن کے مطابق اڑھائی منٹ دنیا میں گزارنے والا مٹی کا کھلونا بہک کر گمراہی کے کس رستے پر چل نکلا کہ فانی آرائشوں کیلئے لافانی مراعات کو بھول گیا،محدود طاقت ،عقل سوچ رکھنے والا اڑھائی منٹ میں خود کو کیا سمجھنے لگا ہے، جھوٹ ،دھوکہ ،دہی ،حوص زر نے اسے اندھا کردیا، جسے دائیں بائیں موت کا کھیل نظر نہیں آتا،سمجھتا ہے جسے دفنا یااسے ہی مرنا تھا، قبرستان گیا ،کتبوں پر کنندہ تحریروں کو بھی پڑھا لیکن سبق نہیں لیا،بھلکر جو ہوا نہیں ،،،ہر گز نہیں ، اسے بھلکر نہیں کہتے احساس زیاں کا رخصت ہونا کہتے ہیں، جو ہماری زندگیو ں میںابد ی نیند سورہا یا خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہا،کبھی تم نے دنیا کی ایجاد کردہ گھڑی کے اڑھائی منٹ خود کو دیکھا ۔۔۔۔تدبر کیا۔۔۔۔

کہ خاک سے بنے بدن کو خاک شاہ ہونا ہے، چلوپیدائش آدم سے آج کے دن تک کے مرنے والے انسان کا کوئی ایک کفن ہی دیکھا دو جس پر جیب ہو ،،،،،کوئی قبر جس میں مرنے والے کا مال ومتاع دفن ہوا ہو،اس کے باوجود نفسانفسی ،لالچ ،کینہ اور مفادات، اے کم عقل تم تو جس خطہ میں رہتے ہو وہاں تو تمام معاملات سود پر چل رہے ہیں ،جس کے بارے میں رب کعبہ نے کاکہنا تھا کہ ایسے لوگوں کیساتھ میری کھلی جنگ ہے،کیا کبھی ہمارے حکمرانوں کو رحم آیا،کبھی انہوں نے اڑھائی منٹ کیلئے موت کو محسوس کیا ،مجھے نہیں لگتا کیا ہوا ،کیونکہ وہ زنداؤں میں نہیں ہیں ، پہلے بھی کہا احساس مرجائے تو انسان مر جاتا ہے ،سانس کے آنے کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہتی، دولت تو باضمیر انسان کے قدموں کی خاک ہے ،جب خاک کو اڑوھنا بنا ؤ گئے تو قبر بن جاتی ہے، کیا یہاں بھی وضاحت لینا چا ہتوں ہو کہ قبر مردوں کیلئے ہوتی ہے ،اگر سمجھ آئی گئی تو جان لویہ بے ضمیر ،خوص زدہ اشرفیہ تمام جنازے ہیں۔۔۔۔۔جنازے ہیں ،اڑھائی منٹ کے جنازے،،،،،جن کی تدفین کیلئے صرف مقررہ وقت کا انتطار ہے،جو جلد آنے والا ہے۔

Waqas Zaheer

Waqas Zaheer

تحریر: میاں وقاص ظہیر