غزہ (اصل میڈیا ڈیسک) گیارہ دنوں تک شدید لڑائی کے بعد اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کا عالمی رہنماؤں نے خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ مزید پیش رفت کے لیے یہ ایک حقیقی موقع ہے۔
اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے دفتر نے 20 مئی جمعرات کی دیر رات کو غزہ میں جنگ بندی کا اعلان کیا۔ ایک سینئر اسرائیلی اہلکار نے اس جنگ بندی کو، ”خاموشی کے بدلے خاموشی” قرار دیا۔ حماس کے ایک رہنما نے بھی اس خبر کی تصدیق کی اور کہا کہ یہ، ”دو طرفہ اور ایک ساتھ جنگ بندی” ہے جس کا نفاذ جمعے کے روز مقامی وقت کے مطابق رات کے دو بجے سے شروع ہو گیا۔
جمعرات کی شب جس وقت اس جنگ بندی پر بات چیت اور اس کے اعلان کے تذکرے شروع ہوئے اس وقت بھی اسرائیل نے غزہ پر فضائی حملہ کیا جس کے جواب میں حماس نے بھی ایک راکٹ فائر کیا۔ تاہم دو بجے کے بعد سے کسی تازہ حملے کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔
اسرائیلی وزیر دفاع بینی گنٹز نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ حماس کے خلاف حملوں سے ”غیر مثالی عسکری فوائد حاصل ہوئے ہیں۔”
حماس نے اس جنگ بندی کو ”فلسطینی عوام کی فتح” قرار دیا اور کہا کہ جو مکانات بھی اس لڑائی میں تباہ ہوئے ہیں انہیں دوبارہ تعمیر کیا جا ئے گا۔ اس جنگ بندی کے اعلان کے بعد ہی غزہ میں لوگ کافی خوش نظر آئے جہاں جنگ کے بجائے اچانک جشن کا ماحول ہو گیا۔ بڑی تعداد میں لوگ سڑکوں پر نکل آئے اور خوشی سے نعرے بازی کرتے دکھائی دیے۔
غزہ پر گزشتہ گیارہ دن کی اسرائیلی بمباری میں 232 فلسطینی ہلاک ہوئے ہیں جس میں 65 بچے اور تین درجن سے زیادہ خواتین شامل ہیں۔ دوسری جانب اسرائیل کے دو فوجیوں سمیت 12 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ 15 سو سے زیادہ فلسطینی زخمی بھی ہوئے ہیں جبکہ متعدد اسکول، اسپتال اور دیگر سینکڑوں رہائشی عمارتیں تباہ ہو گئیں۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے وائٹ ہاؤس میں صحافیوں سے بات چیت کے دوران اس جنگ بندی کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ یہ مزید پیش رفت کے لیے ایک حقیقی موقع ہے۔ انہوں نے اس موقع پر ثالثی کی کوششیں کرنے کے لیے مصر کے صدر عبد الفتاح السیسی کا بھی شکریہ ادا کیا۔
بائیڈن کا کہنا تھا، ” میرا یقین ہے کہ اسرائیلی اور فلسطینی دونوں ہی یکساں طور پر محفوظ اور پر امن زندگی گزارنے کے مستحق ہیں اور برابری کے درجے پر آزادی، خوشحالی اور جمہوری اقدار کے بھی مستحق ہیں۔ میرے خیال سے ہمارے پاس پیش رفت کرنے کا یہ ایک حقیقی موقع ہے اور میں اس کے لیے مزید کام کرنے کے لیے پر عزم ہوں۔”
امریکی وزارت خارجہ کے مطابق وزیر خارجہ انٹونی بلینکن آنے والے دنوں میں مشرق وسطی کا دورہ کرنے والے ہیں جہاں وہ اپنے اسرائیلی ہم منصب سے بھی ملاقات کریں گے۔
اسرائیل کے صدر عبد الفتاح السیسی نے بھی وائٹ ہاؤس کے بیانات کے بعد اپنی ایک ٹویٹ میں جنگ بندی میں اہم کردار ادا کرنے کے لیے امریکی صدر جو بائیڈن کا بھی شکریہ ادا کیا۔
برطانوی وزیر خارجہ ڈومنک راب اور یورپ کے کئی دیگر رہنماؤں نے بھی جنگ بندی کا خیرمقدم کیا ہے۔ ڈومنک راب نے ایک ٹویٹ میں کہا، ”تمام فریقوں کو جنگ بندی کو پائیدار بنانے، تشدد اور عام شہریوں کی جانوں کے ضیاع کے ناقابل قبول تسلسل کو ختم کرنے کے لیے ایک ساتھ مل کر کام کرنا ہو گا۔ امن کے قیام کے لیے ہونے والی کوششوں کی برطانیہ کی طرف سے حمایت جاری رہے گی۔”
اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انٹونیو گوٹیرس نے جنگ بندی کا خیر مقدم کرتے ہوئے ہلاک ہونے والے افراد کو تعزیت پیش کی۔ انہوں نے اس موقع پر فلسطین اور اسرائیل سے اس مسئلے کی جڑ تک جانے اور اس کو حل کرنے کی بھی تلقین کی۔
کی اصل وجوہات کو حل کرنے کے لیے سنجیدہ بات چیت کا آغاز کریں۔ غزہ مستقبل کی کسی بھی فلسطینی ریاست کا لازمی جزو ہے اور اس تقسیم کو ختم کرنے کے لیے قومی مفاہمت لانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جانی چاہیے۔”
پاکستان نے بھی اس جنگ بندی کا خیر مقدم کیا ہے۔ پاکستانی وزیر خارجہ محمود قریشی نے کہا، ”یہ متحدہ، اجتماعی کاوشوں کا نتیجہ ہے۔ یہ انصاف پر مبنی ایک مقصد کے لیے ہر شخص اور قوم کی کوشش کا ثمرہ ہے۔ کاش یہ جنگ بندی فلسطین میں دائمی امن کے لیے پہلا قدم ثابت ہو۔”
دس مئی کو حماس کی جانب سے مشرقی یروشلم میں فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے طور پر اسرائیل پر راکٹ داغے گئے۔ اسرائیل کی جانب سے جوابی کارروائی میں غزہ پر بھاری بمباری کی گئی۔ تشدد کا یہ سلسلہ مشرقی یروشلم میں فلسطینیوں اور اسرائیلی سکیورٹی فروسزکے درمیان تصادم کے بعد شروع ہوا۔
اس سے قبل پاکستانی وزیر خارجہ نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اس موضوع پر ایک ہنگامی اجلاس سے خطاب کے دوران غزہ میں اسرائیلی حملوں کی نکتہ چینی کی تھی۔ ان کا کہنا تھا، ”جس وقت ہم یہ بات کہہ رہے ہیں غزہ میں فلسطینی عوام کو کھلے عام قتل کیا جا رہا ہے۔ حقیقت میں تو اس وقت غزہ تاریکی میں ڈوبا ہوا ہے اور وہاں صرف ایک روشنی ہے جو اسرائیلی دھاکوں کی ہے۔” ان کا کہنا تھا کہ فلسطینیوں کی آواز کو اس طرح نہیں دبایا جا سکتا۔