غزہ (اصل میڈیا ڈیسک) حماس اور اسرائیل کے مابین گزشتہ جنگ گرچہ بالکل اسی ڈھنگ سے ہوئی جو اطراف کے مابین عرصے سے رہ رہ کر ہونے والے تصادم کا روایتی نمونہ ہے تاہم اقوام متحدہ نے اب ان جنگوں سے ہونے والے ہوش ربا مالی نقصانات کا تخمینہ لگایا ہے۔
حماس اور اسرائیل کے درمیان تازہ ترین جنگ کا انداز بھی بالکل وہی تھا، جیسا گزشتہ تیرہ برسوں میں غزہ میں ہونے والی متعدد جنگوں میں دیکھا جاتا رہا ہے۔ تاہم اب اقوام متحدہ نے ان جنگوں کے مالی نقصانات کا ایک جائزہ پیش کیا ہے۔ عالمی ادارے کے مطابق گزشتہ ایک دہائی سے زائد عرصے کے دوران ہونے والی چار جنگوں میں صرف غزہ میں رہائش، زراعت، صنعت، بجلی اور پانی کی فراہمی کے بنیادی ڈھانچے کو پانچ ارب ڈالر سے زائد کا نقصان پہنچا۔
دوہزار آٹھ، دوہزار نو، دوہزار بارہ اور اب دو ہزار اکیس میں غزہ پٹی کے علاقے میں ہونے والی جنگوں کے بعد ایک ہی طرح کے مناظر دیکھنے میں آئے: مرنے والوں کا سوگ مناتے فلسطینی باشندے، آئندہ جنگ کے خوف سے لرزتے بچے اور کھنڈرات پر گھروں کی تعمیر نو کی کوشش کرتے فلسطینی۔ تاہم بغور دیکھنے سے ایک بھیانک حقیقت سامنے آ جاتی ہے۔ وہ یہ کہ تعمیر نو کا کوئی بھی منصوبہ ایک بڑے چیلنج سے کم نہیں تھا۔ جنگ زدہ علاقوں کی سیٹلائٹ تصاویر اور اموات کی تعداد دل ہلا دینے والے حقائق بیان کرتی ہیں۔غزہ میں غربت اور بدحالی: نجی چڑیا گھر کے شیر بھی برائے فروخت
اقتصادی ڈیٹا ظاہر کرتا ہے کہ غزہ کی ایک پوری نئی نسل روزگار کی اشد ضرورت کا سامنا کر رہی ہے مگر اسے کام کاج کے بہت ہی کم امکانات دکھائی دے رہے ہیں۔ یہ فلسطینی باشندے انتہائی غیر مطمئن اور نا گفتہ بہ صورتحال میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ان میں سے 40 فیصد اپنے مستقبل کے بارے میں قطعی بےیقینی کا شکار ہیں اور اگر انہیں موقع ملے تو وہ غزہ پٹی کا علاقہ چھوڑ کر کہیں اور جانے کے لیے بھی تیار ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ غزہ مسلسل بحران کا شکار ہے اور جنگ ہر بار حالات کی سنگینی میں اضافے کا سبب بنتی ہے۔ یہ نتیجہ فلسطینیوں کی جدوجہد اور مشکلات دونوں کو بڑھا دیتا ہے۔
غزہ ہمیشہ سے اسرائیل اور فلسطینیوں کے مابین مقامِ حرب بنا رہا ہے۔ غزہ کی کل آبادی کا ایک تہائی ان خاندانوں پر مشتمل ہے، جو 1948ء کی جنگ کے دوران اسرائیل کی طرف سے جبری طور پر بے دخل کر دیے گئے تھے۔ 1980ء کی دہائی کے آخر میں غزہ میں اسرائیل کے خلاف فلسطینیوں کی پہلی بغاوت کا آغاز ہوا تھا اور عسکریت پسند اسلامی گروپ حماس نے اسرائیل کے وجود کے خلاف اپنی تحریک شروع کی۔ 2007ء میں فلسطینی پارلیمانی انتخابات جیتنے کے ایک سال بعد حماس نے غزہ کا کنٹرول حاصل کر لیا اور اسرائیل نے مصر کی مدد سے غزہ کی سرحدیں بند کر دیں۔ نتیجہ یہ کہ آج بھی اسرائیل کی اجازت کے بغیر کوئی بھی اور کچھ بھی نا تو اس جگہ داخل ہو سکتا ہے اور نہ ہی وہاں سے نکالا جا سکتا ہے۔فلسطینی بچےکی ہلاکت،مذاق اُڑانے والے یہودیوں کا ویڈیو کلپ
ہر بار کی جنگ میں حماس کی طرف سے اسرائیل پر ہزاروں راکٹ داغے گئے۔ گزشتہ دہائی کے دوران اسرائیل کے ‘آئرن ڈوم‘ نامی فضائی دفاعی نظام نے بہت سے راکٹوں کو نشانے پر لگنے سے روک دیا۔ اسرائیل کی طرف سے گزشتہ مئی میں میزائلوں اور فضائی حملوں میں ڈیڑھ ہزار سے زائد اہداف کو نشانہ بنایا گیا۔ تل ابیب حکومت کا کہنا ہے کہ اس کا مقصد صرف فوجی اہداف کو نشانہ بنانا تھا مگر ان حملوں میں بہت سے شہری ڈھانچے بھی تباہ ہوئے۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ حماس رہائشی علاقوں میں اپنی سرگرمیاں جاری رکھتی ہے اور اس لیے چند شہری علاقوں کو بھی نشانہ بنایا گیا۔
اقوام متحدہ نے سیٹلائٹ تصاویر کی مدد سے غزہ میں بنیادی ڈھانچے کو اب تک کی جنگوں اور اسرائیلی حملوں سے پہنچنے والے نقصانات کا پتہ چلایا۔ یہ سیٹلائٹ تصاویر ایک جنگ کے بعد اگلی جنگ کے نقوش اور غزہ کی بار بار کی تباہی کی کہانی سناتی ہیں۔ متعدد بار تباہ ہونے والے علاقوں میں جنوبی غزہ کا علاقہ رفح، خزاعہ اور شمالی قصبہ بیت حنون وغیرہ شامل ہیں۔فلسطینیوں کا اسرائیل سے قطع تعلق، آٹھ ماہ کے بچے کی موت
فلسطینی حکام کے مطابق غزہ کی دو ملین کی آبادی کا 70 فیصد حصہ 30 سال سے کم عمر کے افراد پر مشتمل ہے۔ ان نوجوان بالغوں نے اپنا بچپن اور بلوغت کے سال باقاعدہ جنگ کے دوران ‘وار زون‘ میں گزارے ہیں۔ غزہ میں نوجوانوں کی اوسط عمر 19 اور اسرائیل میں 30 برس ہے۔ ان کو درپیش چیلنجز میں بے روزگاری اور طویل المدتی حالت جنگ میں زندگی بسر کرنے کے اثرات سے نمٹنا بھی شامل ہے۔ جب سے حماس نے غزہ پر قبضہ کیا ہے، اس علاقے میں بے روزگاری میں مزید اضافہ ہوا ہے اور اس کی سطح مغربی اردن کے فلسطینی علاقے میں بے روزگاری سے دو گنا زیادہ ہے کیونکہ ویسٹ بینک میں شہریوں کو آزادانہ نقل و حرکت کے مواقع میسر ہیں اور کام کی اجازت اور مواقع بھی زیادہ ہیں۔ ماہرین کے مطابق غزہ کے علاقے میں بچوں میں ‘پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر‘ بہت عام ہے۔
2012ء کی جنگ میں قریب ایک ہزار بچوں کی مدد سے ایک ریسرچ مکمل کی گئی، جن میں سے تقریباً ہر ایک نے کہا کہ اس نے ٹینکوں، توپوں اور فوجی طیاروں سے شیلنگ کی آوازیں سنی ہیں۔ ان میں سے نصف بچوں نے کہا کہ انہوں نے کسی نا کسی کو زخمی ہوتے یا مارے جاتے ہوئے دیکھا تھا۔