پاکستان کو صحافیوں کے لئے خطرناک ترین ملک تصور کیا جاتا ہے۔ روز بروز شعبہ صحافت سے وابستہ لوگوں کو جان سے مار دینے، اغواء کئے جانے اور دھمکیاں ملنے کے واقعات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ جبکہ ملک میں امن و امان کی اس مخدوش صورت حال میں حکومت وقت کی طرف سے صحافیوں کی سکیورٹی کو یقینی بنانے سے متعلق کوئی خاطر خواہ اقدامات نظر نہیں آتے۔
تازہ ترین واقعہ میں ہفتہ سہ پہر کو سوا پانچ بجے ملک کے نامور اینکر پرسن اور کالم نگار حامد میر پر نامعلوم افراد کی جانب سے قاتلانہ حملہ کیا گیا۔ حملہ اس وقت کیا گیا جب وہ کراچی ائیرپورٹ سے اپنے ٹی وی چینل کے ہیڈ آفس آ رہے تھے۔ شاہراہ فیصل پر مادام اپارٹمنٹ کے قریب نامعلوم دہشتگردوں نے ان پر فائرنگ کر دی۔ فائرنگ کے نتیجہ میں حامد میر شدید زخمی ہو گئے۔ انہیں تین گولیاں لگیں اور ایک گولی نے بڑی آنت کو شدید متاثر کیا۔ شاہراہ فیصل پر فائرنگ کی وجہ سے خوف و ہراس پھیل گیا اوربھگدڑ مچ گئی جبکہ کئی گاڑیاں بھی آپس میں ٹکرا گئیں۔ قریب ہی واقع منی چینجر کے سکیورٹی گارڈ نے حملہ آوروں کو ڈاکو سمجھ کر ہوائی فائرنگ کی تو حملہ آور فرار ہو گئے۔ انہیں آغا خان ہسپتال منتقل کیا گیا اور کئی گھنٹے کے طویل آپریشن کے بعد گولیاں نکال لی گئیں۔ ڈاکٹرز نے ان کی حالت کو خطرے سے باہر بتایا ہے۔
ایس ایس پی ایسٹ پیر محمد شاہ کے مطابق اس واقعہ میں نائن ایم ایم پسٹل استعمال ہوا ہے اورجائے وقوعہ سے گولیوں کے 9 خول ملے ہیں جنہیں فارنسک ٹیسٹ کے لئے محفوظ کر لیا گیا ہے۔ آئی جی سندھ اقبال محمودنے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ جائے وقوعہ پر دو کیمرے نصب تھے۔ جن مین سے ایک کیمرہ بند تھا جبکہ دوسرے کیمرہ میں کچھ نظر نہیں آ رہا تاہم عینی شاہدین کی مدد سے خاکے تیار کئے جا رہے ہیں۔
اس المناک واقعہ کے بعدحامد میر کے بھائی عامر میر نے کہ آئی ایس آئی کے بعض عناصر پرویز مشرف اور بلوچستان کے معاملات پر حامد میر کے خیالات، نظریات اور مئوقف کے شدید خلاف ہیں اور حامد میر نے پہلے ہی اپنے اہل خانہ، دوستوں اور اپنے اخبار کے ساتھیوں کو بتادیا تھا کہ ان پر حملہ ہوا تو اس کے ذمہ دار آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ظہیر الاسلام اور آئی ایس آئی کے دیگر حکام ہوں گے۔ اس حوالہ سے پاک فوج کے تعلقات عامہ کے شعبے آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل عاصم سلیم باجوہ نے حامد میر پر ہونے والے قاتلانہ حملے کی پرزور مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اس واقعہ کی فوری اور آزادانہ تحقیقات کی جائیں تاکہ حقائق کا پتہ لگایا جا سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ آئی ایس آئی اور اس کے سربراہ کے خلاف بیانات کو گمراہ کن قرار دیا اور کہا کہ بغیر کسی بنیاد کے الزامات افسوسناک ہیں۔
ISI
یقینا حامد میر پر حملہ ایک بزدلانہ کاروائی اور آزادی اظہار کو دبانے کی مکروہ کوشش ہے۔ اس کی جتنی مذمت کی جائے، کم ہے مگر حساس ادارے پر یوں الزامات لگانا بھی درست نہیں۔حامد میر پر حملہ سے متعلق کالم نگار علی رضا شاف نے کچھ یوں تبصرہ کیا۔ ”سینئر صحافی حامد میر پر حملہ بلاشبہ آزادی صحافت پر حملہ ہے مگر اس کے ساتھ ہی ملک کی معتبر اور دنیا کی اعلیٰ ترین خفیہ ایجنسی پر الزامات کاحملہ اور پورے ادارے کی یوں تذلیل کس زمرے میں آتی ہے؟۔ بہرحال یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ آئی ایس آئی کا نشانہ اس قدر کمزور ہے کہ دوسری مرتبہ بھی ان کا نشانہ چوک جائے۔اللہ صحافتی اثاثے کو جلد صحت یاب کرے۔ پاک فوج زندہ باد، آئی ایس آئی پائندہ باد۔” اس بارے میں راقم بھی کچھ ایسے ہی خیالات رکھتا ہے۔
حامد میر پر حملے کے بعد سے ملک بھر میں صحافتی تنظیمیں سراپائِ احتجاج ہیں۔ کراچی، لاہور، کوئٹہ اور دیگر چھوٹے بڑے شہروں سمیت منڈی بہائوالدین، پھالیہ اور ملک وال میں بھی احتجاجی مظاہرے کئے گئے اور سینئر صحافی پر حملہ کرنے والے ملزمان کو کیفرکردار تک پہنچانے اور صحافیوں کی سکیورٹی یقینی بنانے کا مطالبہ کیا۔
حامد میر پر حملہ تمام صحافی برادری کے لئے باعث تشویش ہے تو آئی ایس آئی پر الزامات بھی قابل صد افسوس ہیں۔ ہمیں یقینا تنقید کاحق حاصل ہے لیکن احتیاط کا دامن کبھی نہیں چھوڑنا چاہیئے۔پوری قوم پاک فوج کے ساتھ کھڑی ہے اور ہر لحظہ ملک کے لئے تن من دھن قربان کرنے کے لئے تیار ہے۔ اللہ تعالی حامد میر کو جلد صحت یاب کرے ،ملک کے حالات کو سنوارنے کے لئے ہمیں کوئی رہبر و راہنما عطا کرے اور ہمیں اپنے اداروں کا احترام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
Tajammal Mahmood Janjua
تحریر: تجمل محمود جنجوعہ [email protected] 0301-3920428 www.facebook.com/tajammal.janjua.5