تحریر : محمد حسنین اشرف دنیا میں زوال پذیر قوموں کی نشانیاں اتنی واضح ہوا کرتی ہیں کہ کسی مورخ کو زیادہ کریدنا نہی پڑتا۔ کسی بھی قوم کی حالت کا اندازہ اگر لگانا ہوتو اس قوم میں بڑوں سے چھوٹوں تک اخلاقی قدروں کا جائزہ لے لیا جائے تو اندازہ ہو جاتا ہے کہ وہ قوم دنیا میں کیا مقام رکھتی ہے۔ ہماری اخلاقی حالت ہماری پستی اور گراوٹ کا صاف پتہ دیتی ہے۔
ایک وقت تھا کہ چرچ بلکل اسی مقام پہ کھڑا تھا۔ جس مقام پہ آج ہم کھڑے ہیں۔ ایک خاص مذہبی نقطہ نظر رکھنے والے جنونی، عیسائیت میں اتنی تعداد میں پیدا ہو گئے کہ انہوں نے ریاست اور ریاست کے ذمہ داران کو اس انداز میں اپنا گرویدہ کرلیا کہ ریاست چرچ کے سامنے ایک باندی کی حثیت اختیار کرگئی۔ اور پھر ہوا یوں کہ عیسائی قوم کی قسمت کا فیصلہ ایوان کی بجائے چرچ میں ہونے لگا۔ اور پھر علوم جدید و قدیم کا جو حال عیسائیت نے کیا اور انسانیت کا تمسخر جس انداز میں اڑایا گیا۔ پھر تاریخ نے وہ وقت دیکھا جب، بیت المقدس کے در و دیوار معصوموں کے خون سے رنگ دئیے گئے۔ پھر تاریخ نےوہ وقت دیکھا کہ نئی سوچ رکھنے والوں اور چرچ کے خلاف بات کرنےوالوں کو یا تو ملک بدر کردیا گیا یا زندہ جلا دیا گیا۔ کوئی بھی نیا مذہب اور کوئی بھی نئی بات قابل قبول نہ ہوئی سوائے چرچ کے۔ چرچ حرف آخر بن کر ابھرا اور عیسائیت کی تاریخ کا سیاہ ترین باب رقم کر گیا۔
وہی عیسائی قوم جو آج سڑک پر گرے کتے کے بارے میں بھی محتاط معلوم ہوتی ہے۔ وہی قوم اتنی بے حس ہو گئی کہ انہوں نے صلیبی جنگوں میں اپنے عیسائی بھائیوں کو صرف اس جرم کی سزا دی کہ وہ سچے عیسائی نہی ہیں۔ اور پھر عیسائیوں کا چڑھتا سورج مسلمانوں کے ہاتھوں ایسے غروب ہوا کہ اسکا نام و نشان بھی باقی نہ رہا۔ اور پھر مسلمانوں کا وہ سنہری دور آیا جسکی مثالیں شائد ہی کبھی ملتی ہوں لیکن پھر وہی ہوا۔ جو ہوا کرتا ہے۔ہم نے بھی وہی کیا، ہر نئی سوچ رکھنے والا کافر کھلایا، یہ کندی، یہ سینا، یہ رازی، یہ تمام لوگ اپنے وقت کے کافر اعظم کہلائے۔ ہر نئی سوچ کی راہیں مسدود اور بند کردی گئیں سوائے ایک چھوٹے سے طبقے کے جو واحد طبقہ تھا جس نے دلیل کا جواب دلیل سے دیا جس نے تہافۃ الفلاسفہ، الرد الفلاسفہ جیسے شہکار تصانیف سپرد قلم کیں۔
اور پھر موسیٰ بن ابی غسان کی زوردادر تقریریں، ٹیپو کی چمکتی تلوار اور سید احمد بریلی جیسے جری بھی مسلمانوں کا سویا ضمیر نہ جگا سکے اور ذلت و رسوئی اور محتاجی و بے نوائی ہمارے ساتھ چمٹا دی گئی۔
تاریخ کا ایک ایک ورق اٹھائیے اور آجکے ہمارے حالات پہ رکھتے جائیے۔ تاریخ اپنے آپکو دہراتی ہوئی محسوس ہوگی۔
آج ہماری حالت یہ ہے کہ ہم خود پسندی کے جام کو منہ سے لگائے، آنکھیں، کان، دل اور دماغ کو بند کرکے مدہوش پڑے ہیں۔ ہم دیکھنا، سننا، سوچنا اور سمجھنا نہی چاہتے کیونکہ سچائی ہمارے ان محلوں کو برباد کرکے رکھ دے گی جو ہمارے دماغوں میں ہماری عظمت کے بن چکے ہیں۔ ہم اس چودہ سو سالہ تاریخ کی زندہ دلی، نرم خوئی، علم، عمل اور عظمت میں ایسے ڈوبے ہیں کہ اب دنیا کا محور صرف مسلمان معلوم ہوتے ہیں۔ اس دنیا میں بسنے والا ہر انسان اور اس کائنات کے خالق کی توجہ اور ہر عمل کا محور ہم اپنے آپکو محسوس کرتے ہیں۔ ہمیں ہر آسمانی آفت خدا کا عذاب محسوس ہوتی ہے۔او بھائی، اتنے اہم تم کب سے ہو گئے؟
خدا نے بڑے واشگاف الفاظ میں کتاب مقدس میں فرما دیا ہے جسکا مفہوم ہے کہ خدا کبھی اس قوم کی حالت نہی بدلتا، جو اپنی حالت خود نہ بدلنا چاہے۔ خدا کو کیا ضرورت آن پڑی کے تم پہ عذاب لا لا کر تمہیں جگائے بھئی کامیاب ہو جاؤ؟
دنیا میں ہزاروں اقوام، اربوں لوگ، وہ سب ہم سے بہتر، بلکہ بہت بہتر، انکا عدل، انکے معاملہ جات سب ہم سے بہتر۔ ہم کب سے خدا کے چہیتے ہو گئے؟
پرائی شادی میں عبداللہ دیوانہ
اگر دنیا میں بھی کوئی معاملہ ہو تو ہم کرید کرید کر اس میں سے کوئی نہ کوئی سازش نکال ہی لیتے ہیں۔ امریکہ میں یا یورپی ممالک میں کوئی معاملہ ہو تو ہم اس میں بھی کچھ نہ کچھ لازمی ڈھونڈ نکالتے ہیں کہ یہ انہوں نے مسلمانوں کے خلاف سازش کی ہے۔ او بھائی، نہ تو آپ کوئی اہمیت کے حامل ہو، اور نہ ہی کوئی علم و عقل ہے آپکے پاس۔ پچھلی تین چار صدیوں میں مسلمانوں نے کیا ایسا خاص اس دنیا کو دیا ہے کہ چین، جاپان، امریکہ یہ سمجھے کہ یہ تو ہمارے مد مقابل آ گئے ہیں؟ صنعت، زراعت، سائنس، بیالوجی، کوئی ایک علم؟ ہمارے تو بچہ پیدا ہونے سے لے کر ایک بوڑھے کی چلتی سانسیں انہی سازشیوں کی مشینیوں کی بدولت ہیں۔ ہسپتال میں دوڑ دوڑ کر اپنے باپ کو سازیشیوں کی دوائیاں پلاتے وقت مولوی صاحب کو اسلام اور ملک سے وفا یاد نہی رہتی لیکن منبر پہ آتے ہی وہ ایمان کی چنگاری پھوٹتی ہے کہ کیا کہنے۔
Islam
ہر دوسرا بندہ ہمیں یہودی ایجنٹ، اسلام کو نقصان پہنچانے والا محسوس ہوتا ہے۔ ہر دوسرے بندے کو لگتا ہے کہ دین کی حفاظت کا یہ وزنی اور مشقت طلب کام اللہ نے اسے سونپا ہے اور اس سے پوچھا جائے گا کہ تم نے یہودی ایجنٹوں کی اور دیسی لبرلوں کی ڈھونڈ ڈھونڈ کر نشاندہی کیوں نہی کی؟
یہ تمام نشانیاں ایک زوال پذیر قوم کی ہوتیں ہیں۔ اپنے پہ گذرنے والی کا دوسروں پہ تھوپ کہ میٹھی نیند سو جانا۔
مجھے آج تک سمجھ نہی آیا یہ کس نبی کی بات کرتے ہیں؟ کس دین کی بات کرتے ہیں؟ کسی اللہ کی بات کرتے ہیں؟ کونسا کلمہ پڑھتے ہیں؟ یہ انسان بھی ہیں یا جانور ہیں؟
حمزہ علی عباسی صاحب کے معصومانہ سوال کے جواب میں جو طوفان بدتمیزی بپا ہوا ہے۔ اس نے مجھے قلم درازی پہ مجبور کردیا ہے۔ پیمرا نے انہیں بین کردیا ہے اور مولویوں کی زبانیں ڈیڑھ فٹ باہر آ چکی ہیں۔ میں اس انداز میں بات اسلئے کر رہا ہوں کہ یہ ایک اذیت ہے، الزام ہے کسی پہ، کسی کی بات کا غلط مطلب ہے۔ جب کسی کی بات کا غلط مطلب لیا جائے اور اسکی سچائی اور پاکیزگی کا مذاق اڑیا جائے تو میں جانتا ہوں کہ وہ کس اذیت سے گذرتا ہے۔
لیکن اس سارے معاملے سے میں بہت خوش ہوں۔ وہی ملا، جو پہلے آئین اور ریاست کے خلاف کھڑے آوازے کس رہے ہوتے تھے۔ چند دنوں میں انہوں نے ریاست کو اہمیت دینی شروع کردی۔ ہر مولوی اب ریاست یہ کرسکتی ہے، ریاست وہ کرسکتی ہے، ریاست کو یہ کرنے کا حق ہے، ریاست کو یہ کرنے کا حق اللہ کے نبیﷺ نے دیا۔ ریاست کو یہ کرنے کا حق اللہ نے دیا ہے کی مالا چبھ رہا ہے۔
اسمیں میری ذاتی رائے ہے یہ بلکل ٹھیک بات ہے یہ پہلا اور آخری حق ریاست کا ہی ہے کہ گروہوں کی تقسیم کرے اور قادیانی حضرات کے معاملہ میں آئین نے تعریف کرکے دو گروہوں کو علیحدہ کردیا۔ اس نے بتا دیا کہ فلاں گروہ جو اپنے آپکو مسلمان کہتا ہے، وہ فلاں گروہ جو اپنے آپکو قادیانی (احمدی) کہتا ہے اس سے علیحدہ ہیں۔ اور پھر حدود بھی مقرر کردیں۔ اور یہ جمہوریت کا حسن ہے کہ اس نے پورا موقع دیا اپنی بات کی وضاحت کرنے کا، سو قادیانیوں کے اس وقت کے خلیفہ کو پارلیمنٹ میں بلایا گیا اسکی بات سنی گئی پھر فیصلہ کردیا گیا۔ یہ بات ہمارے مولوی حضرات بھی مانتے ہیں۔ اور اسکے لئے انہوں نے قران و سنت کے دلائل دے دئیے۔ لیکن ایک مسئلہ پیدا ہو گیا ہے۔
اب جب ریاست کسی فرد یا کسی گروہ کے مذہب کے بارے میں فیصلہ کرسکتی ہے کہ اسکا مذہب کیا ہے تو حق پھر اب صرف ریاست کو ہے اور اسکا فیصلہ وہ کسی دارلافتاء میں ، کسی مسجد میں یا کسی مسجد کے حجرے میں نہی بلکہ ریاست اسے پارلیمنٹ میں اور آئین کی روشنی میں کرنے کا حق رکھتی ہے۔ اب کوئی مولوی کسی کو کافر کہے گا تو وہ اس ریاست کی رٹ کو چیلنج کرنا ہوگا۔ اور ریاست اسکے خلاف اقدام کرنے میں حق بجانب ہوگی۔
اب جب ریاست کا حق قران و سنت کی روشنی میں مانا گیا ہے تو ریاست یہ حکم جاری کرنے میں حق بجانب ہوگی کہ مدراس کا آڈٹ کروایا جائے اور مدارس کے ذمہ داران پہ یہ لازم ہوگا کہ وہ اس آڈٹ میں اپنی ہر ممکن مدد پیش کریں۔ تاکہ معلوم کیا جا سکے کہ ہر مدرسے کو اتنا پیسہ کہاں سے آتاہے اور مدرسہ اسے کہاں پہ خرچ کرتا ہے۔
اب ریاست حق بجانب ہے کہ وہ یہ قانون سازی کرے کہ آجکے بعد کوئی بھی چندہ مدارس کو نہی دیا جائے گا۔ بلکہ حکومت اسے عوام سے لے کر مدارس کی ضروریات کے مطابق تقسیم کرے گی۔ اور اگر یہ قانون پارلیمنٹ میں بنتا ہے تو اب وہ خواہ مفتی اعظم ہے یا طالب علم، اسے اس ریاست کے اس حق کو بھی تسلیم کرنا پڑے گا۔
ہمارے ایک فاضل دوست ہیں۔ انہوں نے لکھا کہ جناب حکومت نے اس بجٹ میں بھی، مدارس کے لئے کوئی حصہ مختص نہی کیا۔ میں نے کہا صاحب، مدارس حکومت کو آڈٹ کرنے دیں۔ اور حکوت کو چندہ اکھٹا کرنے دیں۔ مدارس کو اگلے سال بجٹ میں پورا حصہ ملے گا۔ تو پیارے دوست تپ گئے فرمانے لگے الحمدللہ! مدارس پہلے بھی انکی گرانٹ کے بغیر چل رہے تھے اب بھی چلتے رہینگے۔
احمد جاوید صاحب، فرماتے ہیں کہ بھئی سچ بات سلیقے اور احترام سے بھی تو کہی جاسکتی ہے۔ اس اللہ کے بندے ایک سوال کر کیا ڈالاہم نے تو جناب، ایک طوفان بدتمیزی برپا کرکے رکھ دیا ہے۔
ہمارا مسئلہ ہے کہ ہم یہ بات ماننے کو تیار نہی کہ ہم دنیا میں زوال پذیر ہو چکے ہیں اور اب ہماری ٹکے کی اہمیت نہی اقوام عالم میں۔ ہم اپنی غلطیاں ماننے کی بجائے اب ایسی چیزوں کے پیچھے چھپ کر اپنا احساس کمتری کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
Pakistan
ایک صاحب مجھے کہتے ہیں کہ دیکھیں تجارت ہم بھی کرتے ہیں۔ ہم بھی تمام چیزیں بناتے ہیں لیکن ترقی امریکہ اور چین وغیرہ ہی کیوں کرتے ہیں۔ پھر اسکی وجہ بھی انہوں نے مجھے بتائی کہ یہ سارا پیرکرنسی کا چکر ہے اور انہوں نے سارا سونا تو اپنے پاس رکھ لیا ہے۔ اور پھر انہوں نے مشہور زمانہ فیڈرل ریزو بینک کی مثال بھی مجھے سنائی۔ جواباَ جب میں نے چند طالبعلمانہ سوالات کئے تو آپ فرمانے لگے کہ آپ سب کو یہ نصاب میں پڑھایا جاتا ہے اور آپ چپ چاپ مان لیتے ہوں۔حالانکہ پیر کرنسی کیسے بنتی ہے؟ ایشو کیسے ہوتی ہے؟کریڈٹ کے نتیجے میں نئی کرنسی یا نیا پیسہ کیسے وجود میں آتا ہے؟ گولڈ سمتھ بینکس کیا تھے؟
ان میں سے ایک سوال کا وہ جواب نہ دے سکے۔ اور کسی بھی معاملےکے بارے میں ٹکے کا علم نہی تھا۔
حسن نثار صاحب کی بڑی عمدہ بات آج بھی مجھے یاد ہے۔ ایک پروگرام میں انہی سازشوں کےمتعلق پوچھا گیا تو انہوں نے کہا بھئی وہ تم سے بہتر دماغ رکھتے ہیں تو سازشیں کرتے ہیں۔ تم بھی کرلو۔
جب دنیا ترقی کر رہی تھی تب ہم نے فتاوی جات کے ڈھیر لگا دئیے اور اپنی بیڑی میں وٹے خود ڈال دئیے اور اب عیسیٰء اور مہدی کے انتظار میں بیٹھے ہیں۔عباس ابن فرناس جیسا جنونی جو ہوا میں اڑنا چاہتا تھا اڑنے کی کوشش میں مر جاتا ہے تو جناب ہمارے علماء میں بحث چھڑتی ہے کہ یہ عام موت مرا یا خودکشی کی۔ اور یورپ میں بحث چھڑتی ہے کہ کیا واقعی انسان اڑ سکتا ہے یا نہی؟ سپین سے مسلمانوں کی شہرہ آفاق تصانیف کو اتنی کثیر تعداد میں انہوں نے ترجمہ کروایا، ایک کتاب سپین میں عربی میں لکھی جاتی تھی اور ادھر فوراَ اسکا ترجمہ ہوجاتا تھا۔ اور ہمارے محسنوں نے کہا جو لوہے کی سواری کرے وہ حرام، کیمرے سے تصویر بنانا حرام، بلڈ ٹرانسفیوژن حرام، اور ابھی پچھلے دنوں میں سٹرابری کی حرمت کا بھی فتویٰ آیا ہے۔
ڈھکے ہوؤں سے زیادہ انسانیت تو ان برہنہ لوگوں میں ہے جو مذہب اور ذات سے بالاتر ہو کر بے لوث خدمت کرتے ہیں۔ وہ بے لوث کام جو میڈیکل کے فیلڈ میں ہوا، جو ٹیکنالوجی کے فیلڈ میں ہوا، جو بزنس کے فیلڈ میں ہوا، جو موسیقی کے فیلڈ میں ہوا، ڈرامہ، آرٹ، کلچر، فلم یہ تمام شبعہ ہائے زندگی جسکا رخ آج یورپ نے بدل دیا ہے۔ اسکی بدولت آج ہم سکھ سے پنکھے نیچے یا اے سی نیچے بیٹھ کر سخت روزے میں سکون حاصل کرتے ہیں۔ یار وفا کرو، اور چھوڑ ان چیزوں کو، جو سازش کر رہا ہو، اسکی طرف دیکھنا بھی مناسب نہی تم انہی سازیشیوں کے چیزیں استعمال کرتے ہو؟ ذرا گدھے کی سواری کیا کرو، تلواروں سے لڑا کرو، جب کہیں لوگوں کو مشتعل کرنا ہوتا ہے تب تو کالی لینڈ کروزر پہ دوڑے دوڑے چلے جاتے ہو۔
حمزہ علی عباسی صاحب اورانسانیت کا درد رکھنے والے سب سے کہوں گا۔