یہ نواز لیگ والے تو بس ”ایویں تصویری شیر” ہی ہیں جن کی آمد پر ”رَن وَن ”کچھ بھی نہیں کانپتا۔ خادمِ اعلیٰ کی انگشتِ شہادت ہلتی دکھائی دیتی ہے نہ وہ مائیک گراتے نظر آتے ہیں۔ شاید وہ کچھ شرمندہ شرمندہ سے ہوں کہ انہوں نے ”زَر بابا، چالیس چوروں ” کو جو گلیوں میں گھسیٹنے کے وعدے اور دعوے کیے تھے اُن کا دور دور تک نام و نشان نہیں۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ پانچ سالہ محنت کے بعدتھک گئے ہوں اسی لیے اپنے خلفِ رشید حمزہ شہباز کو سب کچھ سونپ کے استراحت فرما رہے ہوں البتہ حبیب جالب کا شعری مجموعہ اب بھی اُن کے سرہانے دھرارہتا ہے اور وہ چوری چوری شعر بھی یاد کرتے رہتے ہیں تاکہ بوقتِ الیکشن کام آئیں۔
محترم میاں نواز شریف آجکل بیرونی ممالک کے دوروں پر ہی رہتے ہیں۔ دراصل وہ بیرونی سربراہان کو یہ یقین دلانے جاتے ہیں کہ اب وہ واقعی ”وزیرِ اعظم” بن گئے ہیں، سرور پیلس کے جَلاوطن نواز شریف نہیں۔ نواز لیگ کے پلّے ہے ہی کیا سوائے رانا ثناء اللہ کے، باقی وزراء تو اتنے مفقود الخبر ہیں کہ قوم کو اُن کا نام تک بھی یاد نہیں۔ صرف رانا ثناء اللہ ہی ہیں جن کی بڑھکوں سے صرف ماحول ہی نہیں سیاسی پارٹیاں بھی ”گرما گرم” ہو جاتی ہیں۔وزیرِ اطلاعات و نشریات محترم پرویز رشید صاحب آجکل رانا ثناء اللہ لائل پوری کی نقل کرتے ہوئے ”بڑھکیں” مارنے کی سعی توکر رہے ہیں لیکن اُن کا چہرہ اتنا معصوم اوراندازِ گفتگو میں اتنی شرافت و نزاکت ہوتی ہے کہ اُن کی بڑھکیں سُن کر ہنسی چھوٹ جاتی ہے۔
ایک زمانہ تھا جب قائدِ تحریک محترم الطاف حسین کی بڑھکوں سے بھی لوگ لرزہ بَر اندام ہو جاتے تھے لیکن اُنہوں نے بڑھکوں کا ایسا ”اتوار بازار” لگایا کہ اب سبھی کہتے ہیں کہ ”یہ بازو میرے آزمائے ہوئے ہیں” ۔محترم عمران خاں کی بڑھکوں میں بھی بڑی حدت ہوا کرتی تھی لیکن نہ وہ ایک بال سے تین وکٹیں گرا سکے اور نہ ہی شریف برادران کو ”چھٹی باری” لینے سے روک سکے۔ وہ بڑھکیں آج بھی مارتے ہیں لیکن اُن کا اثر صرف سٹیج پر ہوتا ہے جو خاں صاحب کی بڑھک سنتے ہی ٹوٹ جاتی ہے۔ ویسے جب سے خاں صاحب نے میدانِ سیاست میں قدم رکھا ہے لوگ ”سٹار پلس” کے ڈرامے بھول گئے ہیں ۔وہ تقریر کرتے ہیں تو آکسٹرا کی دھنوں کے ساتھ اوراگر موڈ میں آ جائیں تو سٹیج پر ہی نماز کی نیت باندھ لیتے ہیں۔
ہماری ایک پیپلز پارٹی بھی ہوا کرتی تھی جو اب صرف خوابوں ، خیالوں میں ہی زندہ ہے اور وہ جیالا کلچر جو کبھی ”تھرتھلی” مچا دیا کرتا تھا اب مرحوم و مغفور ہو چکا ۔پارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری کبھی کبھی انگلینڈ سے تشریف لا کر ایک خطاب پڑھ کر سنا دیتے ہیں۔پیپلز پارٹی کے یومِ تاسیس کے موقعے پر اُنہوں نے اپنے نانا ذوالفقار علی بھٹو کی طرح آستینیں چڑھانے کی کوشش کی تو نیچے لکھا ہوا پڑھنا بھول گئے ۔جماعت اسلامی کے ”ترازو” میں شروع سے ہی تین چار ”باٹ ” ہوتے ہیں جو تا حال برقرار ہیں لیکن اگر اُن کی تنظیم کو دیکھا جائے تو اُس کا کوئی ثانی نہیں ۔مولانا فضل الرحمٰن زور تو بہت لگا رہے ہیں لیکن اُن کی دال گلتی نظر نہیں آ تی ۔ اے۔این۔پی میں وراثتی جھگڑا اِس عروج کو پہنچ چکا ہے کہ اب ماں بیٹا تلواریں سونت کر آمنے سامنے ہیں۔ مایوسیوں کے اِس دَورِ کرخت میں اُمید کی آخری کرن بَس شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر علامہ طاہر القادری ہی رہ گئے ہیںجو انقلاب لانے کے لیے بس پہنچنے ہی والے ہیں۔
Tahir-ul-Qadri
ہم نے بھی دراصل اہالیانِ وطن کو یہ نویدِ سعید سنانے کے لیے قلم اُٹھایا ہے کہ اب اصلی شیر کی آمد آمد ہے، باقی باتیں تو ہم محض مُنہ کا ذائقہ بدلنے کے لیے کر گئے۔ شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر علامہ طاہر القادری نے وقت کے فرعونوں، شدادوں، نمرودوں اور قارونوں کو للکارتے ہوئے ملک کے طول و عرض میں مظاہروں کا اعلان کر دیا ہے اور پہلا مظاہرہ غالباََ 20 دسمبر کو ہونے جا رہا ہے۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ شیخ الاسلام بھی شیخ رشید جیسے ہی ہونگے جو ہر وقت ٹی۔وی پر بیٹھ کر خالی خولی بڑھکیں لگاتے رہتے ہیں تو یہ اُس کی بھول ہے۔ ہمارے شیخ الاسلام پچھلے سال انہی دنوں میں اپنے جلال کی دھاک بٹھا چکے ہیں۔ اگر عین وقت پر ایم۔کیو۔ایم دھوکا نہ دیتی، جنرل کیانی مُنہ نہ پھیرتے اور چیف جسٹس صاحب بھی طرح نہ دے جاتے تو شیخ الاسلام نے تو قوم کو کہہ ہی دیا تھا کہ” مبارک ہو، مبارک ہو ۔۔۔ آدھا کام آج ہو گیا باقی کل ہو جائے گا۔ اب کپتان صاحب ہاتھ ملتے ہوئے بار بار کہتے ہیں کہ ڈاکٹر طاہر القادری جو کچھ کہتے تھے سب سچ ثابت ہوا۔اگر خاں صاحب اُس وقت یقین کر لیتے اور شیخ الاسلام کی کلاہ و دستار کے پیچھے پناہ کے خواستگار ہو جاتے تو آج نہ ڈرون حملے ہوتے اور نہ نیٹو سپلائی روکنے کی ضرورت پیش آتی کیونکہ امریکہ کے لیے شیخ الاسلام کا نام ہی کافی تھا۔ بہرحال اب بھی کچھ نہیں بگڑا اگراب بھی خاں صاحب ہمارے مُرشد کے سامنے زانوے تلمذ تہ کر لیں تو وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ ایک بال سے وہ تین تو کیا تیرہ وکٹیں بھی گرا سکتے ہیں۔ ایک وکٹ توخاں صاحب اپنی معروف بالنگ کے ذریعے گرا لیں گے اور باقی بارہ وکٹوں کو ہمارے مُرشد کا جلال بھسم کر دے گا۔
اِس میں کوئی شک نہیں کہ پچھلی بار بھی مُرشد کا وجدان اُنہیں بتلا چکا تھا کہ پیپلز پارٹی کا جانا ٹھہر چکا ہے۔اپنے کشف و کرامات کے زور پر وہ سمجھ چکے تھے کہ اگر اُنہوں نے اپنا کرامتوں بھرا ”عصائے موسوی” استعمال نہ کیا تو ”تختِ لاہور ” کو ”تختِ پاکستان” بننے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ اُس وقت تو مُرشد حجت تمام کرکے چلے گئے لیکن اب” ایکشن”کا سمے آ ن پہنچا۔ ہمارا بھی یہی خیال ہے کہ حکمرانوں کو اپنے اعمال و افعال کی درستی کے لیے جتنا وقت دیا جا چکا ہے وہ کافی ہے اور اب اُنہیں ”سیدھا” کرنے کے لیے مُرشد کو اپنا ” عصائے موسوی” لہرانا ہی ہو گا۔
کچھ لوگ سوال کرتے ہیں کہ شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر علامہ طاہر القادری آخر ”ٹھنڈے ٹھار” موسم کا انتخاب ہی کیوں کرتے ہیں؟۔ یہ فہم و ادراک سے کوسوں دور عقل کے اندھے اتنا بھی نہیں جانتے کہ پاکستان میں مفلسی اُن انتہاؤں پر ہے کہ غریبوں میں اب لنڈے بازار سے بھی گرم کپڑے خریدنے کی سکت باقی نہیں بچی اِس لیے اگر لہو گرم رکھنے کے لیے اتنا بھی ہلّا گُلّا نہ ہو تو یہ بیچارے بے موت مر جائیں۔ ویسے بھی شیخ الاسلام نے خود تو 500 سے زائد کتابیں لکھی ہی ہیں جن کے بارے میں کچھ بد بخت یہ کہتے ہیں کہ لکھوائی گئی ہیں ۔اتنی عظیم تصانیف کے باوجود مُرشدنہ صرف حضرتِ اقبال کے معتقد ہیں بلکہ افکارِ اقبال کی عملی تصویر بھی ہیں جنہوں نے کہا تھا
پلٹنا جھپٹنا جھپٹ کر پلٹنا لہو گرم رکھنے کا ہے اِک بہانہ
اقبال کا یہ شاہیں بھی اپنا لہو گرم رکھنے کی کوئی نہ کوئی سبیل تلاش کرتا رہتا ہے۔ اِس بار بھی دسمبر، جنوری کی لہو جماتی سردی میں مُرشد قوم کا لہو گرم رکھنے کے لیے تشریف لا رہے ہیں اور امیدِ واثق ہے کہ جونہی سردی کا زور ٹوٹے گا تو مُرشد واپس تشریف لے جائیں گے۔