پھانسی کی سزا پر یہ شور شرابا کیوں برپا ہے؟

Hanging

Hanging

تحریر : ابنِ نیاز
قران پاک کی سورة البقرة کی آیت ١٧٨ کا ترجمہ ہے:۔ “مومنو! تم کو مقتولوں کے بارے میں قصاص (یعنی خون کے بدلے خون) کا حکم دیا جاتا ہے (اس طرح پر کہ) آزاد کے بدلے آزاد (ماراجائے) اور غلام کے بدلے غلام اور عورت کے بدلے عورت۔ اور اگر قاتل کو اس کے (مقتول) بھائی (کے قصاص میں) سے کچھ معاف کر دیا جائے تو (وارث مقتول کو) پسندیدہ طریق سے (قرارداد کی) پیروی (یعنی مطالبہ خون بہاکرنا) اور (قاتل کو) خوش خوئی کے ساتھ ادا کرنا چاہیے یہ پروردگار کی طرف سے (تمہارے لئے) آسانی اور مہربانی ہے جو اس کے بعد زیادتی کرے اس کے لئے دکھ کا عذاب ہے۔” قرآن کی اس آیت کی بہت سی تفاسیر ہوئی ہیں جو کہ ان کتب میں پڑھی جا سکتی ہیں۔میں کوئی تفسیر بیان نہیں کروں گا۔ کیوں کہ ہمارے اسلاف میں ایک سے بڑھ کر ایک عالم، مفتی پیدا ہوا ہے، ولی اللہ پیدا ہوا ہے۔ سب سے بڑھ کر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی ایک جماعت تھی، جنھوں نے براہِ راست حضور نبی کریم سے درس لیا۔ قرآن کی مجسم تفسیر کو اپنی آنکھوں سے پڑھتے رہے۔ ان کی زبان مبارک سے نکلا ہوا ہر لفظ پتھر پر لکیر ہوتا تھا اور تا قیامت رہے گا۔تو مجھے یہ حق کہاں حاصل کہ میں قرآن کی مندرجہ بالا آیت کی تفسیر بیان کروں، یا اس میں کوئی کمی بیشی کروں۔ میں تو یہاں پر قاتل کو موت کے حوالے کرنے کے ایک طریقے پھانسی کی سزا پر اپنے دل کے پھپھولے پھوڑنے آیا ہوں۔

شاید سب پڑھنے والے، لکھنے والے ہابیل و قابیل کے واقع سے واقف ہیں۔ قابیل نے ہابیل کو قتل کیا۔ انجام کیا ہوا! قیامت تک دنیا میں جتنے بھی لوگ بے گناہ مارے جائیں گے، چاہے وہ کسی بھی طریقے سے ہوں، ان سب کے جرم میں اور آخرت کی سزا میں قابیل برابر کا حصہ دار ہو گا۔اس بات سے اندازہ ہوتا ہے کہ قتل کتنا بڑا جرم ہے۔اور پھر حدیثِ پاک کے وہ الفاظ کہ ایک شخص کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے۔ تو کیا پوری انسانیت کے قاتل کو زندہ رہنے کا حق دیا جائے، کہاں کا انصاف ہے؟ اسلیے قاتل کے لیے سزائے موت تو ہے۔ لیکن ۔۔ دنیا کے بہت سے ممالک میں قتل کے مجرم کو، کسی دہشت گرد کو، کسی جاسوس کو مختلف قسم کی موت کی سزائیں دی جاتی ہیں۔ جس میں لوہے کی کرسی پر بٹھا کر اسے کرنٹ سے مارنا، زہریلا انجیکشن لگانا وغیرہ شامل ہیں۔ جب مارنا ہی ٹھہرا تو کیا کرنٹ سے ، کیا زہر سے یا پھر کیاپھانسی سے۔ پھانسی کی سزا یا موت کی سزا عمومی طور پر اس مجرم کو دی جاتی ہے جس پر کوئی نہ کوئی قتل ثابت ہو چکا ہو۔ اسی ثبوت کو سامنے رکھتے ہوئے قرآن پاک کی مندرجہ بالا آیت کے شروع کا ترجمہ پڑھیں۔ مومنو! تم کو مقتولوں کے بارے میں قصاص یعنی خون کے بدلے خون کا حکم دیا جاتا ہے۔۔۔۔۔۔ بس۔ اس آیت میں شک کہاں پر ہے؟ متشابہات میں سے تو یہ آیت ہر گز نہیں ہے۔ صریح پتہ چلتا ہے کہ جب کسی شخص کو قتل کیا جائے گا تو اسکے بدلے میں بھی ایک جان کو جان دینی پڑے گی۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ شخص کون ہو گا جو جان کے بدلے اپنی جان دے گا۔اس کا جواب آگے ہے۔ آزاد کے بدلے آزاد، غلام کے بدلے غلام اور عورت کے بدلے عورت۔ جہاں تک آزاد غلام کی بات ہے تو بے شک آج کے دور میں غلام موجود نہیں۔ لیکن اگر ہم غلام کو اس معنوں میں لے لیں جیسے آج کل مختلف تنظیموں نے اجرتی قاتل رکھے ہوئے ہیں، اور وہ اپنے اوپر والوں کے کہنے پر مختلف قتل کی وارداتوں میں ملوث ہو جاتے ہیں، تو اس میں ان کا ذاتی کیا قصور۔ تو جب کہا گیا کہ آزاد کے بدلے آزاد۔ تو میرے خیال میں مقتول کے بدلے ا س شخص کو موت کی سزا دینی چاہیے جس نے یہ حکم دیا ہے، نہ اس شخص کو جس نے یہ قتل کیا ہے۔ بے شک اس قاتل کو بھی سزا تو دینی ہی ہے، لیکن پہلے حق دار وہ حاکم ہے جس نے یہ کام کروایا ہے۔تو یوں آزاد کے بدلے آزاد ہوا۔ اب بات آتی ہے عورت کے بدلے عورت کی۔ تو پرانے زمانے میں یہ کیا جاتا تھا کہ اگر کسی قبیلے کی کوئی عورت کسی دوسرے قبیلے کی کسی عورت کو قتل کرتی تھی تو اسکے بدلے میں پہلے قبیلے کے کسی نہ کسی مرد کو موت کی سزا سنا دی جاتی تھی، جو کہ عموماً اسکے رشتہ داروں میں سے ہوتا تھا۔لیکن ان احکامات نے واضح کر دیا کہ اگر مجرم عورت ہے تو عورت کو ہی موت کی سزا دی جائے گی، نہ کہ اسکے بدلے کسی مرد کو سزا ملے گی۔سزا ملنی ہے اور وہ بھی موت کی۔

ALLAH

ALLAH

جو کہ ہمارے خدا کی طرف سے ہمیں بحیثیت مسلمان، مومن ہونے کے حکم ہے، تو پھر وہ پھانسی کی سزا کیوں نہ ہو۔ زہر دے کر یا کرسی میں کرنٹ دوڑا کر تڑپا تڑپا کر مارنے سے بہتر نہیں کہ اسے تین ، چار سیکنڈ میں ہی دنیا سے رخصت کر دیا جائے۔ اور اسکی لاش کی بے حرمتی بھی نہ ہو، یعنی اسکا جسم اندر باہر سے پورا ہو۔ کرنٹ جب جسم سے گزارا جاتا ہے تو وہ جس کے بہت سے حصوں کو جلا دیتا ہے۔ اگرنکلنے کا راستہ نہ ہو اور کرنٹ کا وولٹیج زیادہ ہو تو عین ممکن ہے کہ جسم میں سوراخ بھی ہو جائیں۔ پھر جس شخص کو کرنٹ دیا جاتا ہے ،وہ کتنی دیر تک تڑپتا ہے ، اس کی روح نکلنے میں کتنا وقت لگاتی ہے، رب ہی جانتا ہے۔ جب کسی شخص کو زہر دیا جاتا ہے سوائے سائنائیڈ زہر کے، تو وہ زہر اس کے جسم کی رگوں کو کاٹتے ہوئے پورے بدن میں گردش کرتی ہے۔ یا تو پھر مساموں سے خون خارج ہوتا ہے یا وہ کٹے کلیجے کی الٹی کرتا ہے یا پھر تڑپ تڑپ کو اپنی جان دے دیتا ہے۔ لیکن جب کسی شخص کو پھانسی دی جاتی ہے تو چند لمحوں کے لیے تڑپتا ہے، اسکی گردن کا منکا ٹوٹتا ہے اور اس کی روح دنیا سے رخصت ہو جاتی ہے۔ بتائیے قارئین! کس طریقے سے کسی شخص کو موت کے حوالے کرنے میںکم وقت اور لگتا ہے اور کم تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انگریزوں کے پاکستان ، انڈیا پر قبضے کے دوران انگریزوں نے پھانسی کا قانون رائج کیا تھا۔ ١٨٥٧ ء کی جنگ آزاد ی میں گرفتار ہونے والوں کو یہ سزا دی گئی تھی، اور وہاں سے با قاعدہ آغاز ہوا تھا۔ بعد میں اس کو باقاعدہ قانون کی کتابوں میں درج کیا گیا۔ٹو بی ہینگڈ ٹِل ڈیتھ۔ جب تک جان نہ نکل جائے، پھانسی پر لٹکائے رکھو۔ شروع میں تو یہ سزا ١٨٥٧ ء کی جنگ آزاد ی کے متوالوں ، جیالوں کو دی گئی تھی جو حق پر تھے۔ آزادی چاہنا ہر اک کا حق ہوتا ہے ۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں غالباً حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کے کسی بیٹے نے ایک شخص کو مارا تھا۔ اس شخص نے خلیفۂ وقت کے دربار میں شکایت کی تھی تو خلیفۂ وقت نے حضرت عمروبن العاص رضی اللہ عنہ کو بلا کر کہا تھا کہ اے عمرو۔ تم نے کب سے لوگوں کو غلام بنا لیا، جب کہ ان کی مائوں نے ان کو آزاد جنا تھا۔اور اسکے ہزار سال بعد مشہور فلسفی جے جے روسو نے کہا تھا کہ انسان تو آزاد پیدا ہوا ہے لیکن ہر جگہ زنجیروں میں ہے۔یعنی کوئی نہ کوئی قدغن اس پر لگی رہتی ہے۔ تو آزادی چاہنا بھی ہر کسی کا حق ہوتا ہے۔خیر۔ پھانسی کی سزا یہاں پر انگریزوں نے جب لاگو کی تو جرموں کی تعداد میں خاطر خواہ کمی ہوئی۔ کیونکہ پھانسی کی سزا سے ہر کوئی ڈرتا تھا۔

انگریزوں کا اپنا لایا ہوا قانون، اور آج یورپی یونین اٹھ کھڑی ہوئی کہ اس ظالمانہ سزا کو پاکستان سے ختم کیا جائے۔کیونکہ جینا ہر کسی کا بنیادی حق ہے۔ ارے عقل کے اندھو! کیا پھانسی کی سزا راہ چلتے کسی بھی بندے کو پکڑ کر دی جاتی ہے؟ کوئی مذاق ہے کیا؟ یہ سزا تو اس شخص کو دی جاتی ہے جس نے قتل کیا ہو۔ اور اب جس شخص نے ایک سو چار قتل کیے ہوں ، اس کو جینے کا حق دیا جائے اور جو ایک سوچار افراد اس کے ہاتھوں اس دنیا سے چلے گئے اور پیچھے ایک سو چار خاندان ہمیشہ کے لیے تڑپتے رہ گئے، ان کو جینے کا کوئی حق نہیں تھا۔ دہشت گرد کلاشنکوفیں، ریپیٹرز، بم لے کر آئیں، سکولوں، مسجدوں، چرچوں میں آکر بے گناہ افراد پر گولیاں برسائیں ۔ اور پھر ان گولیاں برسانے والوں کو جینے کا حق دیا جائے۔یورپی یونین والو! کیا یہ جینے کا حق ہوتا ہے کہ ایک بے گناہ خاتون کو اسکے ناکردہ گناہ پر پورے امریکہ نے چوراسی سال کی قید کی سزا سنا دی۔ جس کا جرم یہ تھا کہ اس نے امریکہ سے پڑھ کر امریکہ کی خدمت کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ اس نے حق کو حق کہا تھا۔ اس نے امریکہ کے جرائم ،جو وہ افغانستان میں بے گناہ افراد کو مار کر رہا تھا ، کے خلاف آواز اٹھائی تھی۔ اس ڈاکٹر عافیہ کے حق میں تو آپ نے کبھی بھی کوئی بات نہیں کی۔ اس ڈاکٹر عافیہ کی آج پندرہ سال ہونے کو آئے ہیں، تنہا کال کوٹھڑی میں روزانہ گوروں کے ہاتھوں عزت لوٹی جاتی ہے، اور آپ کہتے ہیں کہ موت کی سزا نہ دے کر جینے کا حق دیا جائے۔اگر ڈاکٹر عافیہ کو چوراسی سال کی سزا دینے کی بجائے ڈائریکٹ پھانسی کی سزا سنا دی جاتی یا کسی بھی طریقے سے لمحوں میں مل جانی والی موت دی جاتی تو آج پندرہ سال میں اسکے بہن بھائیوں ، اولاد کو بھی صبر آجاتا اور ان کو جینے کا حق بھی حاصل ہوتا۔ آج وہ روزانہ جیتے ہیں، روزانہ مرتے ہیں، لیکن یورپی یونین والو، تمھارے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔

اندھوں میں کانا راجا، اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل بانکی مون بھی بولے۔ کہ پاکستان میں رائج پھانسی کی سزا ختم کرو۔ کیوں؟ کیونکہ امریکہ ، برطانیہ، انڈیا، فرانس، اسرائیل کے بہت سے چمچے اور گرگے یہاں گرفتار ہیں یا ان شاء اللہ عنقریب مختلف جرموں کے بدلے میں جن میں قتل تک شامل ہے، گرفتار ہو جائیں گے۔ ظاہر ہے جرم ثابت ہو گا اور پھر ان کو پھانسی کی ہی سزا ملے گی۔ تو ان ممال کو یہ خطرہ ہے کہ پھر کون انکو پاکستان کی کمزوریاں بتائے گا۔کون پاکستان کے راز افشا کرے گا۔ کون انکے جاسوسوں کو جائے پناہ دے گا۔تو انھوں نے براہِ راست کہنے کی بجائے ایک فورم کا انتخاب کیا گیا، جسے دنیا یونائیٹڈ نیشنز کے نام سے جانتی ہےاسکے سیکرٹری جنرل کے ذریعے پاکستان کے حکمرانوں کو پیغام پہنچایا گیا کہ یہ ظالمانہ سزا ختم کرو۔ اقوامِ متحدہ کی ویسے تو کوئی مانتا نہیں، خاص طور پر بڑے ممالک، جن کا سربارہ شیطان کا کارندہ امریکہ ہے۔ تو ہم کیوں مانیں۔ اور پھر خاص طور پر وہ بات جس کو کرنے کا حکم ہمیں ہمارے رب نے دیا ہے۔یعنی ہم اپنے عاقبت خراب کریں۔ یہاںہم سے مراد پاکستان کے حکمران ہیں۔

Law

Law

دنیا میں واقعی اندھیر نگری ہی ہے۔ قانون کی بھینس بھی اسی کی ہے جس کے ہاتھ میں لاٹھی ہے۔ فرانس کا پوپ بھی بولا کہ ہم کسی طور بھی پھانسی کی سزا پر عمل درآمد کی اجازت نہیں دے سکتے۔ واہ رے تیرے کیا کہنے۔ تم سے پوچھا کس نے ہے؟ تم ہوتے کون ہو پاکستان کے اندرونی معاملات میں دخل دینے والے۔ اگر تم سے کہا جائے کہ ایک پاکستانی ہے جو پاکستان سے ہزاروں میل دور ایک اور ملک میں بیٹھا پاکستان کے خلاف جوشِ خطابت کے مظاہرے کر رہا ہوتا ہے، اسے اس ملک کو کہہ کر پاکستان کے حوالے کروائو تو کیا اتنی جرأ ت کر سکو گے؟ ہر گز نہیں۔ کیونکہ وہاں یہ کہہ کر معاملہ ختم کردینا ہے کہ وہ تو اس ملک کا اندرونی معاملہ ہے۔عقل کے اندھوں کو بس پاکستان نظرآتا ہے۔ اور اسلیے کہ اس پر اللہ پاک کی خاص الخاص نظر ہے۔ ورنہ چین کے ایک دانشور کے مطابق اگر چین کے ساتھ یہ صورت حال ہوتی تو چین آج سے تیس سال پہلے ختم ہو چکا ہوتا کہ پاکستان کو لوگ باہر سے بھی کھا رہے ہیں اور اندر سے بھی۔

کیا خیال ہے پھانسی کے فوائد کچھ بھی نہیں کیا؟ میرے خیال میں تو کافی ہیں۔ جب ہر گلی ، محلے ، قصبے سے نکلنے والا ایک چھوٹے درجے کابدمعاش اپنے آقائوں کے بل بوتے پر جیل میں عیاشی کی زندگی گزارتا ہے، دنیا کی ہر آسائش اس کو میسر ہوتی ہے، اسکو جب بیچ چوراہے کہ پھانسی دی جائے تو شاید بہت سے مجرموں کی، ملزموں کی ، جرم کا خیال دل میں لانے والوں کی سوچ بدل جائے کہ کل انکا انجام یہ ہو سکتا ہے۔ پچھلے آٹھ سالوں میں آٹھ ہزار سے زیادہ پھانسی کے لیے ثابت شدہ مجرموں کو پھانسی گھاٹ کے قریب بھی نہ پھٹکا کر ان پر تیرہ ارب سے زیادہ اخراجات کیے گئے۔ یاد رہے یہ اخراجات مجرموں پر کیے گئے۔ اگر یہی مجرم سزا ملنے کے اگلے دن ہی پھانسی لگ جاتے تو یہ تیرہ ارب شاید، شاید پاکستان میں کسی بہتر کام کے لیے مہیا کیے جا سکتے تھے۔ پھانسی کی سزا واقعی ایک سخت سزا ہے، لیکن جس طرح سعودی عرب میں ایک چور کا پہلی مرتبہ چوری ثابت ہونے پر دایاں ہاتھ کاٹا جاتا ہے تو اس کو لوگ دیکھ کر عبرت پکڑتے ہیں اور شاید بہت سے چوری کرنے کا سوچتے بھی نہیں۔ تو اسی طرح جب عوامی سطح پر بیچ چوک کے پھانسی دی جائے گی تو بہت ممکن ہے کہ جرائم کی سطح میں کمی آجائے، ان شاء اللہ۔شاید موت کی سزا ہی کی وجہ سے چین اور سعودی عرب میں جرائم کی شرح کم ترین سطح پر ہے۔ تو پھانسی کی سزا سے ہمارے معاشرہ بھی اگر سدھر سکتا ہے تو کیا پر امن پاکستان دنیا کی نظروں میں کھٹکتا ہے؟؟؟اگر بانکی مون، پوپ فرانس یا یورپی یونین کے پاس اس سے بہتر کوئی سزا ہے جس کی وجہ سے جرائم کی شرح میں کمی آئے تو بتا دیں۔۔

جناب عالی۔ پھانسی کی سزا صرف ایک صورت میں ختم ہو سکتی ہے وہ بھی مجرم کی، نہ کہ قانون کی کہ جب اللہ کے حکم کے مطابق قاتل مقتول کے ورثأ کو دیت دے گا۔ جو کہ باہمی افہام و تفہیم کے مطابق آزاد ماحول میں، بنا کسی زور زبردستی کے طے پاجائے گی۔تب ہی اس مجرم کی پھانسی کی سزا ختم ہو ستی ہے۔اور یہ بھی اللہ کا حکم ہے ۔ اور اس طرح معافی دینے کے بعد کوئی بھی کسی قسم کی زیادتی نہیں کرے گا۔ کہ معاف کرنے والا پھر بھری محفلوں میں احسان جتاتا پھرے کہ اگر وہ معاف نہ کرتا توآج اسکی لاش کو کیڑے کھا چکے ہوتے۔اور قاتل کے گھرانے والے یہ کہتے پھریں کہ اگر وہ دیت نہ ادا کرتے تو یہ لوگ غریب کے غریب ہی رہتے، یا انھوں نے تو پھر بھی اپنے قاتل کو دے دلا کر بچا لینا تھا وغیرہ وغیرہ۔ زیادتی کرنے والے کے لیے ، چاہے وہ کسی بھی طرف سے ہو، اللہ پاک نے دکھ دینے والا عذاب رکھا ہے۔ پھانسی کی سزا کے لیے قانون میں تبدیلی کر کے چوراہے میں دینی چاہیے کہ لوگ عبرت حاصل کریں۔اور آئندہ جرم کرنے سے توبہ کریں۔یہ اللہ کا حکم بھی ہے اور وقت کی آواز بھی۔

Ibn e Niaz

Ibn e Niaz

تحریر : ابنِ نیاز