بازارِ دنیا گرم ہے تڑکے اُٹھے ہوئے متلاشیانِ رزق شام کے دھندلکے میں اپنی مکین گاہوں کی سمت پلٹ رہے ہیں کچھ پیٹ کا ایندھن اُٹھائے ہوئے اور کچھ خالی ہاتھ ہیںبس اسی طرح محفلِ ہستی کا یہ قافلہ رواں دواں ہے کوئی آرہا تو کوئی جا رہا ہے۔کیا نئے آنے والے کے لیے پرانے کا جانا ضروری ہے ؟تاحدِنظر پھیلی ہوئی کائنات اور ا س کا حسن دیکھنے والوں کے لیے اپنے دامن میںبہت سے مناظر سمیٹے ہوئے ہے۔چیونٹی کو بوجھ اٹھاتے ہوئے دیکھا تو انسان نے یہ راز پا لیا کہ اگر یہ حقیر سی مخلوق بوجھ اُٹھا سکتی ہے تومیں کیوں نہیں ؟درخت کا وجود بھی انسان کو اس کی اصلیت سے آگاہ کرتاہے ۔شجر کا وجود ایک بیج کی عطاہے بیج نے اپنی ذات کو قربان کیا اور ایک نئے وجود کو زندگی کی لذتوں سے آشنا کیا بیج کا وجود تو ختم ہو گیا لیکن وہ اپنے پیچھے ایک نیا وجود چھوڑ گیا جس سے بہت سے نئے وجودجنم لیں گے ۔انسان کی حقیقت بھی اسی طرح ہے انسا ن چلا جاتا ہے لیکن اپنا تُخم ،اپنی نسل پیچھے چھوڑجاتا ہے یہ کارواں ازل سے جاری ہے اور اسے چلانے والاہی جانتا ہے کہ کب تک چلتا رہے گا۔اسی لیے کہا کہ کوئی آ رہا ہے اور کوئی جارہا ہے۔
انسان کی تباہی وبربادی اس وقت شروع ہوتی ہے جب انسا ن اللہ،اس کی مخلوق اور اپنی اوقات کو بھول جاتا ہے میراسالوں سے معمول ہے کہ میں ازل اور ابد کی اصلیت کی یاد تازہ کرنے کے لیے ہر ماہ میں دو یا تین مرتبہ شہرِخاموشاںمیں ضرور جاتا ہوںکیوںکہ میرا اصل وہی ہے میرا خمیر اسی مٹی سے اٹھا یا گیا تھا اور اسی میںملایا جانا ہے ۔ازل اور ابد کے درمیان بھی انسان کی کچھ اصلیت ہوتی ہے اس کی یاد مجھے وہ ہوٹل دلاتا ہے جہاں سے میں نکلایا نکالا گیا کچھ بھی کہا جا سکتا ہے بلکہ موخرالذکر زیادہ موزوں رہے گاانسان کون سا اتنا دانش مند ہے جو دانائے عیوب کے کرم کے بغیر مصائب کی دلدل سے نکل آئے۔
اندھیرا کافی پھیل چکا تھا لیکن مجھے استا د سے ملنے جانا تھا عادت سے مجبو ر لوگوں کے ارادوںکارُخ نہیں موڑا جا سکتا میںسلام کرنے کے بعد استا د کے پہلو میں بیٹھ گیا وہ چائے بنانے میں محو تھا اور ساتھ ساتھ چھوٹے جس کا نام نعمان تھا اسے گاہکوں سے حسنِ سلوک سے پیش آنے کی ہدایات کر رہاتھا وہی پرانی باتیں تھیں جو سالوں پہلے استاد نے مجھے کہیں تھیںجب نعمان کی جگہ میں ہواکرتا تھا۔جب رش کم ہوا تو استا د نے نعمان سے پوچھا “:او نعمان پتر !کل عید ہے آپ نے بھی کوئی کپڑے لیے ہیں کہ نہیں”؟”استاد کیسی باتیں کرتے ہو جن کے پاس دو وقت کی روٹی کے لیے پیسے نا ہوں وہ کپڑے خریدنے کے لیے پیسے کہاں سے لائیں گے ؟لیکن استاد میں اگلی عید پہ ضرور نئے کپڑے خریدوں گا ۔وہ پتا ہے کیسے”؟” کیسے نعمان پُتر “؟استا د نے پوچھا۔”وہ ایسے اُستاد کل میں امراء کے دروازوں پہ جائوں گاشاید کسی کو مجھ پہ ترس آجائے اور مجھے کھال اور انتڑیاں دے د یںمیں انہیںبیچ کر پیسے بنائوں گا اور پھر اگلی عید پر اچھے کپڑے لوں گا”۔نعمان کی داستان سنتے سنتے استاد کی آنکھیں نم ہو گئیں۔”استاد کیسا لگا میرا آئیڈیا”؟نعما ن نے استاد سے پوچھا۔”نہیں یار نعمان تم میرے ساتھ چلو ہم ابھی بازار سے نئے کپڑے لے کر آتے ہیں ۔یہ میری طر ف سے تیری عیدی”۔ ایک مزدور کو سارا دن کام کرنے کے بعد جب مزدوری ملتی ہے تو اس کی شادمانی قابلِ دید ہوتی ہے اور اگر ما لک کچھ پیسے اضافی دے دے تو اس مزدور کی خوشی ہر چند دو بالا ہو جاتی ہے نعمان کی کیفیت بھی کچھ ایسی ہی تھی۔
ساتھیو !یہ ایک نعما ن کی داستان ِغم ہے ایسے کئی نعمان جو چاند رات کو بازار تو جاتے ہیں لیکن ریٹ لسٹ پر لکھے ہوئے دام دیکھ کر ہی پلٹ آتے ہیں ،جن کی مائیں اُن کو یہ کہہ کر دلاسہ دیتی ہیں بیٹا ہم اگلی عید پہ نئے کپڑے لے لیں گے عید تو ہر سال آتی ہے۔میں اس ملک کی بات کر رہا ہوں جو اسلام کے نام پر وجود میں آیاتھا عام دن تو دور کی بات جب لوگ چاند رات کو بھی ایسی زندگی گزار رہے ہوں اس ملک اور اس کے حکمرانوں کے بارے میں ان کے تاثرات کیسے ہوں گے۔کاش کوئی ان کی مدد کو بھی پہنچے وہ بھی اسی دھرتی کے باسی ہیںان کے آبائواجدانے بھی اس ملک کے حصول کے لیے قربانیاں دی ہیں۔وہ منتظر ہیں کے شاید کوئی مسیحا ادھر بھی آئے ،شاید ہمیںبھی حقیقی معنوں میں آزادی میسر آجائے،شاید ہماری صلاحیتوں کی بھی قدر کی جائے۔۔۔۔!!