تحریر : انجینئر افتخار چودھری خوشی اتنی ہے کہ جی چاہتا ہے اسے دل و دماغ سے نکال کر قرطاس پر بکھیر دوں۔ ان بکھری ہوئی خوشیوں میں میریی گیارہ سالہ رفاقت اچھلتی کودتی محسوس ہو گی پنجابی دی مثال اے یار یاراں دے مراثی ہوندے نیں مجھے تو وہ شخص پیر و مرشد بھی کہتا ہے۔جمہوری طرز میں کسی نے کہا ہے کہ یہاں بندوں کو تولا نہیں جاتا انہیں گنا جاتا ہے میرے اس دوست کو کنڈے پر تول کے بھی دیکھ لیں انشاء اللہ بھاری نکلے گا فہم میں بھی اور فراست میں بھاری بھر کم۔کسی نے ایک شاہسوار سے کہا کپڑے اور سواری تو تمہاری بہت خوب ہے بولو تو پتہ چلے کہ تم ہو کیا؟میرے بھاری بھر کم دوستوں میں اس کا شمار ہوتا ہے جب بھی اس سے ملے دل باغ باغ ہوا اللہ پاک اسے مزید عزتیں دے آمین۔میری پہلی ملاقات تو باضابطہ طور پر ایک کالم نویس دوست نے کرائی جو خود بھی سو کلو کے پیٹے میں ہے میرا ایک اور وزنی بھانجہ بھی میرے اس دوست کا ذکر کرتا رہا۔کشمیری ویسے بھی بڑے چنگے ہوتے ہیں پچھلے دنوں کسی شر انگیز نے سینٹورس کے خلاف بیان بازی شروع کی اس کا مطلب تھا کہ مال پانی ملے گا ۔سینٹورس کی کمرشل نہیں کر رہا لیکن اسے دیکھ کر میں ہمیشہ فخر محسوس کرتا ہوں کہ یہ بھی ایک کشمیری کی پاکستان سے محبت کا مظہر ہے شاہجہاں نے ملکہ ممتاز محل کی محبت کی نشانی تاج محل کی صورت کھڑی کی ایک کشمیری نے پاکستان سے محبت کا تاج محل سینٹورس کی شکل میں اسلام آباد میں بنا دیا۔
اچھے لوگ ہیں جدہ میں رہ کر ان خوبصورت لوگوں کے درمیان زندگی گزارنے کا موقع ملا سارا دن میلے کچیلے کپڑے پہنے ہوں گے جمعرات کی شام کو نہا دھو کر خوبصورت لباس پہن کر عزیزیزیہ کے ہوٹلوں میں خوشگفتاری کا مظاہرہ کرتے لوگ پاکستان کے ماتھے کا جھومر ہیں۔ میں جس کے لئے لکھ رہا ہوںمیرے اس دوست کو اخباری مالکان کی تنظیم کا بلامقابلہ صدر بنایا گیا ہے۔صد مبارک عامر محبوب۔ مجھے ان سے ملاقات کئے ہوئے تین ماہ ہو چکے ہیں۔ہمیشہ کی طرح پھول جھڑتی گفتگو کوئی دو گھنٹے گزرے تو میںنے ایک سوال داغ دیا یار عملے کو تنخواہیں بھی دیتے ہویا؟کہنے لگے اللہ کے کرم سے ہم مہینے ختم ہوتے ہی ادا کر دیتے ہیں۔اب آپ آ جائیے ان لوگوں کے پاس جن کی باتوں سے خوشبو آتی ہے ۔بولیوں گے تو ایس الگے گا کہ بس قرون اولی سے اٹھ کر آئے ہیں اور کرادر دیکھیں تو گن آتی ہے۔کئی کئی ماہ تنخواہ نہیں ملتی میں ان نام نہاد دانشوروں کو دیکھ کر گھبرا سا جاتا ہوں جن کے سکرینوں پر بیانات سن کر عام آدمیکسی اور دنیا میں پہنچ جاتا ہے لیکن ان کے عملے کی صورت دیکھ کر دکھ ہوتا ہے میرے ایک ہمسائے تھے گجرانوالہ کے محلہ باغبانپورہ کے اللہ انہیں غریق رحمت کرے ان سے جب مالکان کا پوچھا تو اف اف کر اٹھا میں ان کی ٹی وی پر باتیں سن کر عش عش کر اٹھتا تھا۔اللہ میرے اس بھائی کو مزید ہمت دے کی وہ کارکنان کا خیال رکھے یاد رکھئے ملازمین کی زندگیاں عذاب ہو کر رہ گئی ہیں ان میں کوئی ایسے لوگ بھی ہیں جو کہتے ہیں جائیں خود بھی کمائیں اور ہمیں بھی کھلائیں۔میں یہ جان کر حیران ہوا کہ بڑے بڑے صنعت کار اخبار کے بیوروچیف بنتے ہیں اور لاکھوں دے کر کروڑں کی بے ایمانیاں کرتے ہیں ایسے لوگ وسطی پنجاب میں تھوک کے بھائو ملتے ہیں اؤپنے کالے دھندے اخبار میں چھپا کر فروخت کئے جاتے ہیں۔
ریاست جموں و کشمیر کے اخبارات کا طلوع میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے علی اکبر ہائوس جی ٨ اسلام آبادؤ کی کافی سیڑھیاں چڑھنے کے بعد جب ٢٠٠٦ میں میری ملاقات ہوئی تو میں نے اس اخبار میں لکھنا شروع کیا ان دنوں ان پیج نہیں لکھ سکتا تھا بعد میں لکھنا سیکھ لیا میری تحریریں چھپنا شروع ہوئیںؤ ان دنوں اوصاف میں چھپا کرتا تھا کالم کا عنوان تھا آدھا سچ بعد میںپتہ چلا پورا سچ پونا سچ چوتھائی سچ ان عنوانات سے لکھاری کام چلا رہے ہیں مولاناؤ سید مودودی کے دفتر میں ایک دوست کام کیا کرتے تھے پیارے دوست محمد خالد وہ ایک دن نوائے وقت میں کالم پڑھ کر مجھے ڈھونڈنے میں کامیاب ہوئے انہوں نے تجویز کیا کہ باعث افتخار کے نام سے لکھو۔ ؤجموں و کشمیر میں میری تحریریں اس قدر پڑھی جانے لگیں کہ ایک دن جب میں جاوید بڈھانوی کے ہاں کھڈ گجراں میں ان کے والد صاحب کی تعزیت کے لئے گیا تو بہت سے دوست مجھے اس اخبار میں چھپے کالموں سے جانتے تھے۔
حالاں کہ میں اس وقت بھی پاکستان کی ایک بڑی پارٹی کا اہم عہدے دار تھا۔سچی بات تو یہ ہے کہ ہم پوعی دنیا کو بتاتے ہیں کہ ہم مسئلہ کشمیر کے پشتیبان ہیں یہ جان کر مجھے حیرانگی ہوئی کے ہم گلگت بلتستان کے اخبارات کو اشتہارات تو دیتے ہیں لیکن آزاد کشمیری اخبارات کو ٹھینگا دکھاتے ہیں۔مجھے کسی نے بتایا کہ پاکستان پوسٹ کے پاس کشمیریوں کے اربوں روپے موجود ہیں لیکن وہ بس موجود ہی ہیں۔اخباری مالکان کی تنظیم کا بلامقابلہ کامیاب ہونا ثابت کرتا ہے کہ محبوب خالی نام کے نہیں کام کے بھی ہیں وہ اس سے پہلے دو بار صدر منتحب ہو چکے ہیں مجھے کسی نے بتایا کہ اس بار انہوں نے کہا اگر مجھے یہ ذمہ داری دینا ہے تو بلامقابلہ اس لئے کہ پاکستان کی طرح ہر شہر ہر ضلع میں صحافیوں کی تنظیمیں جوتوں میں دال بانٹ رہی ہیں میں نہیں چاہتا کہ ہم آپس میں الیکش الیکشن کریں۔انہوں نے بہت اچھا کیا جمہوریت میں سب سے بڑا گند یہ انتحاب ہی ڈالتے ہیں کبھی ہماری پارٹی میں بھی اس نسخہ ء کیمیا کو آزمانے کی کوشش کی گئی تھی یار لوگوں نے اس طرز حکومت کو سینے سے لگایا اور ہوا کیا آج تک پارٹی تقسیم ہو کے رہ گئی ہے۔یہ دوائی کسی اور جگہ کامیاب ہو گی ۔مجھے جمہوریت مخالف مت سمجھئے مگر اس کی اچھائیاں ڈھنڈنے نکلوں تو چراغ کی بیٹری ڈائون ہو جاتی ہے ملتی نہیں ہیں ۔میں اس دوست کو بھی مبارک باد دوں گا جس نے ایک قدم پیچھے کر کے عامر محبوب کو آگے کیا اس کے ثمرات یہ ہوتے ہیں کہ ان کا مقام اپنی جگہ بن گیا ہے۔
آزاد کشمیر کو پاکستان میں بیٹھ کر دیکھتا ہوں تو ان لوگوں کی قابلیت ملک کے ساتھ کمٹمنٹ کمال کی دکھتی ہے جب مظفر آباد میں بیٹھ کر السام آباد کی طرف نظر اٹھاتا ہوں تو محسوس ہوتا ہے بیچ میں مری ہے جو آگے دکھنے میں رکاوٹ ڈال رہا ہے مری بھی اپنا ہے اسلام آباد بھی اپنا دونوں کو مل کر مظر آباد کی مشکلات کو دیکھنا ہو گا۔ان اخبارات کو ان کا حصہ دیا جائے ان کے واجبات انہیں ملیں جو ایک فی صد کا فارمولہ طے ہوا تھا اس پر عمل کیا جائے۔
جب کبھی اس اخبار کو پاکستان کے ایک بڑے اخبار سے موازنہ کرتا ہے تو میں انکار کرتا ہوں میرے منکر ہونے کی ایک وجہ ہے میں نے اس اخبار کو حکمرانوں سے لڑتا دیکھا ہے اس کے شہزاد راٹھور کی کاٹ دار تحریروں حکمران کٹے پھٹ جاتے ہیں انہیں ہر دور میں رگڑے میں دیکھا ہے ۔جس اخبار کا ذکر کیا جاتا ہے اس کے مرحوم مالک کوثر نیازی کے پائوں دابتے پائے گئے تھے۔ظلم جبر فحاشی کے علمبردار ظال جابر اور فاحش نظر آئے مثالیں دینے سے ثابت کرنا مشکل ہو گا اس لئے کہ ستر اللہ کی صفات میں ہے ستار و غفور ناراض ہو جائیں گے کسی نے اپنے ماتھے پر لکھا کہ بہترین جہاد جابر سلطان کے سامنے کلمہ ء حق کہنا ہوتا ہے میں جانتا ہوں کہ کلمہ ء حق کیا ہوتا ہے حضور اس راستے میں جیلیں ہوتی ہیں۔سزا ہوتی ہے جابر سلطان کے ایک اشارے پر صحافی کی چھٹی کرا دی گئی۔دوہرے عمیار ہیں ہم لگوں کے کہتے کچھ اور ہیں اور کرتے کچھ اور ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ صحافی کا اخبار میں کچھ بھی نہیں جو ہے مالک کا اگر مالک اچھا ہے تو صحافی کی رپورٹ من و عن چھپے گی نہیں تو اسے دراز میں رکھ کر پارٹی کو فون کر دیا جائے گا کیا خیال ہے؟ اور مجھے یہ پورا یقین ہے کہ عامر ایسا نہیں کرتے ہوں گے۔اگر کرتے ہیں تو اس مضمون کو اپنی مذمت سمجھ لیں۔ پاکستان کی سیاسی پارٹیاں آزاد کشمیر میں کیا کر رہی ہیں۔سچ پوچھیں دشمنیاں اور نفرت۔سارا آزاد کشمیر راجہ کشمیر گجر کشمیر میں تقسیم ہو چکا ہے میں سردار عبدالقیوم کی اس سوچ سے متفق ہوں کے ریاست کے اس متنازعہ علاقہ میں پاکستان کی کسی سیاسی جماعت کا عمل دخل نہیں ہونا چاہئے ۔پاکستان کے ایک سابق وزیر اعظم نے در اصل پارٹی کی بنیاد رکھ کر اس سفر کی سمت قدم اٹھایا تھا کہ جو ادھر ہے ہمارا ہے جو ادھر ہے تمہارا ہے۔میں ایک پارٹی کا ذمہ دار ہوں یقین کیجئے مجھے اسلام آباد کی دم چھلہ پارٹی وہاں نہیں چاہئے کم از کم اس ادھورے کشمیر میں کشمیریوں کو جینا دینا چاہئے وہ اپنی مرضی سے پلیں بڑھیں ایک وزیر امور کشمیر جسے کوہالپ پل کی لمبائی کا بھی علم نہ ہو جب اسے کشمیری قیادت پر تیر برساتے دیکھتا ہوں دل دکھتا ہے۔اخباری مالکان اپنا راستہ خود تجویز کریں۔اب تو وہواں ایک صحافی وزیر اطلاعات بھی ہیں ان کے تجربات سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔عامر محبوب کو مبارک باد دینی تھی سوچا فون کرنا مناسب نہیں ہے۔
آج مجھے جناب بشیر جعفری اور افتخار مغل بھی یاد آ رہے ہیں تزئین گلستان میں ان کا بھی بڑا ہاتھ ہے ہم یہ تو کر سکتے ہیں کہ ان کے لئے ہاتھ اٹھا سکیں کیا ہی اچھا ہو مظفر آباد کی کوئی چھوٹی سی سڑک ان کے ان ہو جائے۔کچھ عرصہ سے اخبار کے کالم نویسوں کو اعزازات سے نوازا جات ہے جو اتنے بھوجل ثابت ہوتے ہیں کہ بندہ اعزاز سمیت دنیا سے چلا جاتا ہے عامر محبوب یہ اعزاز مجھے نہ دیں کیوں کہ میں نیا پاکستان دیکھ کر مرنا چاہتا ہوں۔میرے پیارے قارئین جو مجھ سے محبت کرتے ہیں انہیں سلام۔میں کشمیر نہیں جا سکا جاوید بڈھانوی کے بھتیجے کا قتل ہوا بیماری کی وجہ سے سفر نہیں کر سکا ۔جب کشمیر میں اس طرح کی وارداتیں دیکھتا ہوں تو جنت نظیر کہنا مشکل سا ہو جاتا ہے۔
عامر محبوب کو ایک بار پھر مبارک باد دیتا ہوں ایسے میں وہ دوست بھی لائق صد مبارک ہیں جنہوں نے رات دن محنت کر کے عامر محبوب کو طاقت بخشی خاص طور پر وہ اوورسیز کشمیری و پاکستانی جو اس اخبار کو دل و جاں سے کامیاب بنانے میں لگے رہے۔اللہ سب کو خوش رکھے۔ آمین