رمضان المبارک کی مبارک راتوں اور پر نور ساعتوں کے بعد ہلالِ عید نے اپنا رخ دکھایا تو چہروں پر خوشیوں کی برکھا نے خوشنما گل کھلا دئیے، ہر دل جو عسرت میں بھی گزر بسر کر رہا تھا وہ بھی اس دن کو پا کر خوشی سے جھوم اٹھا عید کا تہوار بلاشبہ جہاں خوشیوں کا پیامبر ہوتا ہے وہاں یہ درس دیتا ہے کہ نفرتوں اور کدورتوں کے بیچ زندگی بسر کرنے والے تنہا رہ جاتے ہیں۔ہمارے پاس محدود چار روزہ زندگی میں اتنا وقت نہیں ہے کہ زندگی کو بغض و کینہ جیسے جذبات کی نذر کیا جاسکے اور مایہ جزبوں کی آبیاری میں زندگی کے قیمتی لمحات کو گنوایا جائے۔
اس لیے اس دن ہر مسلمان یہ ہی کوشش کرتا ہے کہ نفرتوں کو بھلا کر اخوت وروادری اور بھائی چارے کا اہتمام کرے ۔کیونکہ یہی حکم خداوندی ہے اور یہی درسِ رمضان ہے ۔عید میں جہاں ملنے کی خوشیاں ہوتی ہیں وہاں بچھڑے ہوئوں کی یادیں بھی رلاتی ہیں ،اس عید سعیدکے پر مسرت موقع پر جہاں ہر چہرہ خوشی سے دھمک رہا ہے وہاں ہر باشعور دل پریشان اور اداس ہے۔
صحافت کا ایک اہم ستون گر گیا ہے ،ہم نے بابائے صحافت جناب مجید نظامی مرحوم کو کھو دیا ہے ان کے انتقال پر ملال پر پاکستان کی تمام صحافی برادری افسردہ ہے ،یہ صرف رمیزہ نظامی کا ہی غم نہیں ہے یہ پاکستان کا غم ہے ،جناب مجید نظامی مرحوم کی پچاس سالہ خدمات صحافت ایک روشن باب کی حثیت رکھتی ہیں ۔پاکستان سے بے لوث محبت کرنے والے ،دشمانانِ پاکستان کے لیے کٹنے کے لیے تیار رہنے والے ،اغراض سے پاک قلم کے محافظ جناب مجید نظامی اس خطئہ پاک کے ہر لکھاری کے لیے مشعل راہ تھے۔
مارشل لاء ہو یا سویلین حکمران جناب مجید نظامی ہمیشہ اصولوں کے لیے لڑتے رہے ،انھوں نے اپنی زندگی پاکستان اور نظریہ پاکستان کے لیے وقف کر رکھی تھی ۔جناب حمید نظامی روزنامہ نوائے وقت کے بانی تھے تو جناب مجید نظامی روزنامہ نوائے وقت کی تعمیرو تشکیل کرنے والے تھے ،نوائے وقت ایک اخبار ہی نہیں تھا ایک تحریک تھی جس کی آبیاری حق و صداقت سے مجید نظامی نے کی۔ نظریاتی پختگی ہی نوائے وقت کی کامیابی کا ثبوت تھا ،وہ بکے نہیں ،وہ جھکے نہیں ،وہ اس حق کے لیے لڑتے رہے جس کی بنیاد نظریہ پاکستان تھا ۔ایوان کارکنان تحریک پاکستان میں چاہے کوئی بھی شمولیت اختیار کرے مجید نظامی مرحوم نے اس سے کبھی سودہ بازی نہیں کی ۔ان کی شجاعت کا عالم یہ تھا کہ ایک ڈکٹیٹر کو کہا کہ میں تمہارے ساتھ ہندوستان جانے کو تیار ہوں اگر تم ٹینک پر بیٹھ کر جائو ،وہ مسئلہ کشمیر کے حل تک بھارت سے کسی بھی قسم کے تعلقات روا رکھنے کے حق میں نہیں تھے۔
Kashmir Issue
اہل کشمیر خودبھی اس بات کے معترف رہے کہ مجید نظامی نے خودبھی جہاد کشمیر میں حصہ لیا اور مالی طور پر بھی کشمیریوں کی مدد کی۔آزادی کشمیر کے لیے لڑنے والوں کی سرپرستی بھی کرتے رہے یہاں تک کہ برطانوی نشریاتی ادارہ بی بی سی نے بھی یہ کہہ دیا کہ تحریک آزادی کشمیر میں آگاہی فراہم کرنے میں نوائے وقت کا کلیدی کردار ہے۔ان کی تنقید حکومتوں کے لیے درست راہ متعین کرتی تھی کیونکہ ان کا اوڑنا بچھونا پاکستان اور امت مسلمہ کی سالمیت تھا ،ان کا ِمقصد حیات مادر ملت، علامہ اقبال اور قائداعظم محمد علی جناح کے مشن کی آبیاری تھا اور اسی فرض کو سرانجام دیتے ہوئے اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔
مت سہل ہمیں جانوپھرتا ہے فلک برسوں تب خاک کے پردے سے انساں نکلتے ہیں
عالم اسلام کو پہلے ہی غم کچھ کم نہ تھے کہ پاکستان میں شمالی وزیرستان کے آئی ڈی پیز کا مسئلہ سر فہرست ہے جبکہ اسرائیل کی فلسطین پر موجود شدید جارحیت بہت ہی زیادہ دلخراش ہے۔ہندوستان کی سفاکیاں اہل کشمیر پر زندگی کی منہ بولتی تصویر ہیں،ان سب پر طرہ یہ کہ عالم اسلام پر اہل یورپ کی یلغار انتہائی قابل مذمت ہے الغرض جس طرف نگاہ دوڑائیں آہوں اور سسکیوں سے بوجھل فضا اور وحشت و خوف سے گھرے ہوئے انسان ہی نظر آتے ہیں ایسے حالات میں ایک عظیم شخصیت جناب مجید نظامی جو بظاہر تو ایک فرد تھے مگر وہ اپنے اندر ایک مکمل ادارہ اور مثالی انسان تھے ان کا غم اور بھی فضائے پاکستان کو غمناک کر گیا ہے ۔مگر یہی زیست ہے کہ خوشی اور غم ساتھ ساتھ چلتے ہیں ،جہاں بجتی ہیں شہنائیاں وہاں ماتم بھی ہوتے ہیں ۔اس خوشی اور غمی کے حسین امتزاج میں ہم سب ان کے لیے اللہ تعالیٰ کے حضور دعائے مغفرت مانگتے ہیں اور ان کے پسماندگان و ادارہ کے لیے صبر کی دعا مانگتے ہیں۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ آج صحافت کا ایک زریںباب ختم ہو گیا ہے اور یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ آج صحافت ایک کاروبار بن چکا ہے مگر آج بھی جناب مجید نظامی کی فکر اور استقامت پر عمل پیرا ہونے والوں کی کمی نہیں جو ان کے مشن کو آگے لے کر چلیں گے ۔جس نظریہ پاکستان کی سالمیت کے لیے وہ عمر بھر برسر پیکار رہے اس کے تحفظ کا عہد ہر نوجوان آج کر رہا ہے۔
ہمیں یقین ہے کہ ہر لکھاری جناب مجید نظامی کی طرح فکر اقبال اور قائداعظم کی حیات و خدمات کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنی زندگیوں کو ترتیب دے کر قوم کی رہنمائی کرے گا اور اس شمع کو فروزاں رکھے گا جس کو جناب مجید نظامی نے جلایا تھا ۔کیونکہ وہ تحفظ نظریہ پاکستان اور سالمیت پاکستان کے سلسلہ میں ایک ننگی تلوار تھے ۔ہم اس موقع پر اللہ تعالیٰ کے حضور یہ دعا بھی کرتے ہیں کہ وہ اپنے فضل و کرم سے تمام عالم اسلام کے دکھوں کو ختم کرے ،انکو عزت اور خوشحالی سے ہمکنار کرے اور ان کی کمزوریوں اور بے بسیوں کو دیکھتے ہوئے ان سب کا محافظوں و مہربان بن جائے ،ان کی بنجر زیست میں وہ رحمت کی برکھا برسا دے جو مایوسی میں ڈوبے ہوئے دلوں کو طمانیت سے سیراب کر کے خوشحالی و امن و سلامتی کے گل کھلا دے۔
یہ کیسی خوشی ہے کہ غم کے آنسو بھی مچل رہے ہیں درد میں ڈوبے زرد آنچل اور خاموش آہوں کے نذرانے مچل رہے ہیں بے خود کرتی ہے ہم کو اپنی ہستی کی شکست و ریخت شب وروز بے وجہ تو نہیں کہ ہم اب تک دکھ درد کی مسافتوں میں مچل رہے ہیں