ہمارے معاشرے کی تلخ حقیقت یہ ہے کہ ہم ایک دوسرے کی خوشیوں کو برداشت نہیں کرتے جدید تحقیق سے ثابت ہو چکا ہے کہ دنیا میں زیادہ بیماریاں کیوں پھیل رہی ہیں اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم ایک دوسرے کی خوشیوں سے ناخوش ہیں یعنی حسد کرتے ہیں حسد ایک ایسی بیماری ہے جو دیمک کی طرح انسان کو اندر سے ختم کر دیتی ہے یعنی انسان ڈپریشن کا شکار ہو جاتا ہے یہی ڈپریشن انسان کو اس قدربیمار کر دیتا ہے کہ انسان میں عجیب سی کیفیت طاری ہو جاتی ہے یہی عجیب سی کیفیت انسان کو اس قدر چڑ چڑا بنا دیتی ہے کہ انسان تنہا رہنا پسند کرتا ہے جس کی بدولت وہ غلط راستے اختیار کرتا ہے مختلف قسم کے تعویذ دھاگے اور ٹونے کرنے کی بھی کیفیت طاری ہو جاتی ہے یعنی انسان میں حسد اس قدر ہو جاتا ہے کہ انسان کو اچھے اور برے کی تمیز تک نہیں ہوتی ہم اگر کسی سے حسد کرتے ہیں تو ہم اس کا تو کوئی نقصان نہیں کرتے بلکہ اپنا سب کچھ یعنی چین سکون برباد کر دیتے ہیں اپنے اندر نفرت کی وہ آگ جلاتے ہیں جو ہمیں اندر سے کھوکھلا کر دیتی ہے۔
ہمارے جذبات و احساسات بہت متاثر ہوتے ہیں اور ہم ذہنی پسماندگی کا شکار ہو جاتے ہیں اسی طرح ہم ڈپریشن کے مرض میں مبتلا ہو جاتے ہیں جو ہمیں مستقل طور پر دماغی تنائو کی طرف لے جاتا ہے اور ہم مختلف قسم کے ڈاکٹروں اور طبیبوں کا نشانہ بن جاتے ہیں جن کی بدولت ان کے مزے ہو جاتے ہیں کیونکہ وہ ہماری تمام جمع پونجی ہم سے بڑے سکون کے ساتھ لے لیتے ہیں او ر ہمیں ادویات کا عادی بنا دیتے ہیں ہم ہنسی خوشی سب کچھ لوٹا دیتے ہیں اور ہمیں اس بات کا علم تک نہیں ہوتا حالانکہ یہ ایک آسان سا مسئلہ ہے جو ہم تھوڑی سی توجہ سے حل کرسکتے ہیں مگر بے سود۔۔۔۔ کیونکہ ہمارا ذہن اس بات کی عکاسی کرنے کی اجازت نہیں دیتااس لئے ہم مختلف قسم کی ادویات کا سہارا لیتے ہیں صرف اور صرف اپنے دماغ کو سکون دینے کے لئے حالانکہ ان کا اکثر اوقات منفی ردعمل ہوتا ہے کیونکہ ادویات سے ڈپریشن کی شدت کو کم کیا جاتا ہے لیکن اس سے مکمل صحت یابی ممکن نہیں ہوتی کیونکہ جب تک حسد کو ختم نہ کیا جائے اس وقت تک ذہنی پسماندگی ختم نہیں ہو سکتی اور جب تک ذہنی پسماندگی ختم نہیں ہوتی اس وقت تک ہم مکمل سکون میں نہیں آ سکتے۔
اگر ہم ذہنی پسماندگی کو ختم کریں گے تو ہمیں ذہنی سکون بھی ملے گا اور ہم اپنے پیسے بھی بچا سکتے ہیں بس تھوڑی سی توجہ کی ضرورت ہے انسان کو چائیے کہ دوسروں کی خوشیوں میں حسد کرنے کے بجائے خوش ہوں تاکہ ان بیماریوں سے مکمل طور پر چھٹکارا حاصل ہو سکے ایک حدیث میں ارشاد ہے کہ ایک زمانہ ایسا آئے گا جب ہر انسان کا مقصد پیٹ ہو گا دولت ان کی عزت ہوگی عورت ان کا قبلہ ہو گا روپیہ ان کا دین ہو گا یہ لوگ بدترین ہونگے اور آخرت میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہو گا اگر ہم اس حدیث کو بغور دیکھیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ آجکل ہمارے معاشرے میں ایسا سب کچھ ہو رہا ہے اور ہم انسانوں کے بجائے دولت کو زیادہ ترجیح دے رہے ہیں ہمارے اندر لالچ اس قدر بڑھ گیا ہے کہ ہم رشتوں کا تقدس تک بھول گئے ہیں ہمیں بس اپنی فکر نے بے ہوش کیا ہوا ہے جس کی بدولت سے بھائی بھائی کا دشمن ہو گیا ہے ایک دوسرے کو صرف دولت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
میری نظر میں دولت ایک بادل ہے جو مسلسل ایک ہی جگہ نہیں برستا اس کی برسات مختلف اوقات میں مختلف جگہ پر ہوتی ہے اس لئے ہمیں اس کی آس میں اپنے آپ کو برباد نہیں کرنا چائیے کیونکہ ہم بھی کبھی اس کی برسات سے محروم ہو سکتے ہیں جس طرح سایہ ہمیشہ ایک جیسا نہیں رہتا اسی طرح برسات بھی ایک جیسی نہیں ہوتی ہمیں دولت کی وجہ سے اپنوں کو کھو دینا اچھا نہیں ہوتا کیونکہ دولت کے پائوں نہیں ہوتے او ر اپنے رشتوں کے پائوں ہوتے ہیں جس طرح حضرت علیٰ علیہ السلام کا فرمان ہے کہ دولت کی وجہ سے کسی کی عزت مت کرو کیونکہ اس کے آنے اور جانے میں دیر نہیں لگتی ۔۔۔
ہمیں چائیے کہ اپنوں کی خوشیوں میں خوش ہوں اور اپنوں کے غم میں غمزدہ کیونکہ یہ سب کچھ ہمارے ساتھ بھی ہو سکتا ہے تب ہمیں اس کا احساس ہو گا جس طرح کسی کو تکلیف دینے سے پہلے سوچیں کہ اگر یہی تکلیف آپ کو ملے تو آپ کا کیا ردعمل ہوگا اس لئے زندگی چار دن کی چاندنی ہے اس چاندنی کو ہمیشہ کے لئے اپنا مقدر مت سمجھیں بس ایک مسافر کی طرح زندگی گزاریں کیونکہ یہاں پر کوئی بھی مستقل نہیں رہا ہے ہم سب کی ایک مدت ہوتی ہے جس کے بعد ہم یہ دنیا چھوڑ دیتے ہیں تو پھر یہ جھگڑے کس بات کے ۔۔۔بس اپنی زندگی کو ایسا بنائیں کہ آپ سے کسی کو تکلیف نہ ہو اور سب کی خوشیوں میں خوش ہوں اس کا اجر اللہ تعالیٰ کی ذات آپ کو ضرور دے گی۔
یہ میرا دعوا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ ہم سے سب سے زیادہ پیار کرتا ہے اگر ہماری نیت اچھی ہو گی تو ہم کبھی مایوسی کا شکار نہیں ہونگے بس ہمیں اپنے پروردگار پر پختہ یقین ہونا چائیے دنیا آپ کے پیچھے ہوگی ہمارا ایمان مکمل ہونا چائیے کیونکہ ہم مٹی سے بنے ہیں اور ایک دن اسی مٹی میں چلے جانا ہے تو پھر یہ غرور اور غمنڈ کس بات کا ہماری اصلیت تو مٹی ہی ہے بس ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے آپ کو اس دنیا میں کتنا ڈھلتے ہیں اور کتنا دور رہتے ہیں میں مانتا ہوں کہ دولت انسان کی ضرورت ہے مگر اس کو ضرورت ہی رکھیں اگر اس کو جذبات یا خواہشات رکھیں گے تو دنیا میں ہمیشہ پریشان ہی رہیں گے اور ڈپریشن جیسی مہلک بیماریوں میں مبتلا ہوتے جائیں گے بس اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ ہمیں اچھی زندگی عطاکرے اور صحت و تندروستی ہمارے نصیب میں ہو۔