نئے سال کی صبح اول کے سورج۔۔۔تیری پہلی سنہری کرنیں۔۔۔ نہ جانے کب سے۔۔۔کم فہموں سے۔۔۔مبارک بادوں کی خراج۔۔۔وصول کر رہی ہیں۔۔۔ خوش گمانوں سے خوش فہمیوں کا۔۔۔ تاوا ن لے رہی ہیں۔۔۔
تجھے خبر ہے کہ سال بدلنے سے۔۔۔حالات نہیں بدلتے۔۔۔حالات توخود کو بدلنے سے بدلتے ہیں۔۔۔جو گزرتے سال کی شام ِ آخر کی ڈوبتی آخری کرن پر۔۔۔خود احتسابی کی کوئی عدالت نہیں لگاتے۔۔۔اپنے آپ کو خود احتسابی کے کٹہرے میں کھڑا نہیں کرتے۔۔۔ اُن کے پاس نئے سال کے کوئی اہداف نہیں ہوتے ۔۔۔اورا ُن اہداف کی تکمیل کے لیئے وقت کا تعین نہیں کرتے۔۔
۔سال تو بدلتے رہیں گے۔۔۔لیکن احوال نہیں بدلیں گے۔۔۔اپنے اپ کو اتنا بدل ڈالو۔۔۔تاکہ اگلے سال کی صبح اول کے سورج کی پہلی کرنوں کے ساتھ ۔۔۔لوگ اپ کوبھی مبارک باد دے رہیں ہوں۔۔۔
یقینِ کامل کے ساتھ دعائوں کا تسلسل قائم رکھیں۔۔۔ چاہے گزرتے سال کے ڈوبتے سورج کی آخری کرن ہو۔۔۔یا نئے سال کی صبح اول کے سورج کی پہلی کرن۔
مُحسن نقوی کا نئے سال کی صبح اول کے سورج سے منفرد طرز تکلم۔ میرے آنسوئوں کے شکستہ نگینے میرے زخم در زخم بٹتے ہوئے دل کے یاقوت ریزے تیری نذر کرنے کے قابل نہیں ہیں مگر میں (ادھورے سفر کامسافر) اجڑتی ہوئی آنکھ کی سب شعائیں فِگار انگلیاں اپنی بے مائیگی اپنے ہونٹوں کے نیلے افق پہ سجائے دُعا کر رہا ہوں !کہ تو مسکرائے جہاں تک بھی تیری جوان روشنی کا ابلتا ہوا شوخ سیماب جائے وہاں تک کوئی دل چٹخنے نہ پائے کوئی آنکھ میلی نہ ہو،نہ کسی ہاتھ میں !حرفِ خیرات کا کوئی کشکول ہو کوئی چہرہ کٹے ضربِ افلاس سے نہ مسافر کوئی بے جہت جگنوئوں کا طلبگار ہو کوئی اہلِ قلم مدحِ طبل وعَلم میں نہ اہلِ حکم کا گنہگار ہو کوئی دریُوزہ گر کیوں پھرے در بدر؟ دُعا ہے کہ تیری حرارت کا خَالق میرے گنگ لفظوں میرے سرد جذبوں کی یخ بستگی کو کڑکتی ہوئی بجلیوں کا کوئی ذائقہ بخش دے راہ گزاروں میں دم توڑتے ہوئے رہروئوں کو سفرکا نیا حوصلہ بخش دے میری تاریک گلیوں کو جلتے چراغوں کا پھر سے کوئی سلسلہ بخش دے، شہر والوں کو میری اَنا بخش دے دُخترِ دشت کودُودھیا کہر کی اک رِدا بخش دے