تھر میں قحط سالی کا مستقل

Muhammad Nawaz Sharif

Muhammad Nawaz Sharif

وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے تھرپارکر کے قحط زدہ علاقوں کا دورہ کر کے متاثرین کیلئے ایک ارب روپے کے امدادی پیکیج کا اعلان کیا ہے اور سوال اٹھا یا ہے کہ چولستان اور تھر پارکر کی صورتحال ایک جیسی ہے تو پھر تھر پارکر میں اموات کیوں ہوئیں اور اس کا ذمہ دار کون ہے ؟ انہوں نے اس بات پر سخت ناراضگی کا اظہار کیا کہ وافر مقدار میں گندم موجودہو نے کے باوجود تقسیم کیوں نہیں کی گئی؟ اس موقع پر انہیں مسلم لیگ (ن) کے سابق وزیر اعلیٰ ارباب غلام رحیم نے بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ سندھ حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق تھر پارکر میں اس وقت تک پانچ ہزار گندم کی بوریاں متاثرین میں تقسیم کی جا چکی ہیں لیکن ان باتوں میں مجھے کوئی صداقت نظر نہیں آتی، اس وقت تھر پارکر کے مختلف علاقوں میں بیسک ہیلتھ یونٹ قائم ہیں مگر ان سے تھر کے عوام کو کچھ نہیں مل رہا، ڈسٹرکٹ ہسپتال مٹھی تھر پارکر کا ضلعی ہیڈ کوارٹر ہے اس میں بھی سندھ حکومت نے کوئی سہولت فراہم نہیں کی جس کی وجہ سے تھر پارکر میں معصوم بچوں کی اتنی زیادہ اموات ہوئی ہیں۔

تھر پارکر میں 75 فیصد سڑکیں پختہ ہیں لیکن پھر بھی متاثرین تک خوراک کی ترسیل نہیں ہو سکی۔ وزیر اعظم نواز شریف نے اپنے دورہ کے دوران ڈسٹرکٹ ہسپتال مٹھی جاکر مریضوں کی عیادت کی اور کہا کہ جو لوگ علاج کے لیے دوسرے علاقوں میں جانے کے لیے تیار نہیں انھیں موبائل یونٹ کے ذریعے ان کے گھروں میں علاج فراہم کیا جائے۔ نواز شریف نے سندھ حکومت کو یہ بھی ہدایات جاری کیں کہ تھر میں ہونے والی اموات کے ذمہ داران کا تعین کر کے ان کیخلاف سخت کارروائی کی جائے۔

تھرپارکر کے قحط متاثرہ علاقوں میں پاک فوج، مرکزی و صوبائی حکومتیں، جماعةالدعوة کی فلاح انسانیت فائونڈیشن اور دیگر تنظیموں و اداروں کی طرف سے ریلیف سرگرمیوں کا سلسلہ جاری ہے تاہم بھوک، پیاس اور علاج معالجہ کی سہولیات سے محروم تھر کے عوام کی مشکلات کم نہیں ہو سکی ہیں۔بچے غذائی کمی کا شکار ہو کر نمونیا، بخار، دست و قے، خون اور وزن کی کمی اور ہیپاٹائٹنس جیسے موذی امراض میں مبتلا ہو رہے ہیں۔ حاملہ خواتین بھی خوراک نہ ملنے سے آئرن کی کمی کاشکار ہو رہی ہیں۔ لوگ اپنے مال مویشی لیکر مٹھی اور اسلام نگر کی جانب نقل مکانی کر رہے ہیں۔ سینکڑوں دیہات خالی ہو چکے ہیں مگر بعض علاقوں میں غربت کا عالم یہ ہے کہ ہزاروں افراد نقل مکانی کا یہ سفر کرنے سے بھی قاصر ہیں۔ ایک سروے کے مطابق تین ہزار کے قریب دیہات ابھی تک ایسے ہیں جہاں کے مکینوں کی حالت بھوک اور بیماریوں سے انتہائی خراب ہے مگر دورافتادہ ان دیہاتوں و علاقوں میں کئی امداد پہنچ رہی ہے اور نہ ہی میڈیکل ٹیمیں جس سے مزید اموات کا خدشہ پیدا ہورہا ہے۔ موجودہ صورتحال میں مال مویشی جو’ ان لوگوں کا بہت بڑا سہارا ہیںوہ بھی بری طرح متاثرہوئے ہیں۔

متاثرین کیلئے طبی سہولیات کی فراہمی کی بات کی جائے تو اس حوالہ سے بھی صورتحال بہت زیادہ سنگین نظرا تی ہے۔ ابھی تک مٹھی، ڈیپلو، چھاچھرو، اسلام کوٹ اور نگرپارکر کے ہسپتالوں میں اضافی عملہ تعینات نہیں کیا گیا ہے۔ صرف مٹھی ہسپتال میں روزانہ ایک سو ساٹھ سے ایک سو پچتہر افراد علاج کیلئے لائے جارہے ہیں۔ جن لو گوں نے نقل مکانی کر کے شہروںکا رخ کیا ہے وہ بے یارومددگار جگہ جگہ پڑائو ڈالے بیٹھے ہیں او ر وسائل کی عدم دستیابی متاثرین کیلئے دوہرا عذاب بن کر رہ گئی ہے۔ تھر میں اسی فیصد سے زائد آبادی غربت کی لکیر سے نچلی سطح پر زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ ریتلے ٹیلوں پر پانی کاحصول دشوار ہے اور اگر ابر رحمت نہ برسے تو خشک سالی سے زندگی اور زیادہ مشکل ہوجاتی ہے۔ اس مرتبہ بھی یہی ہوا ہے۔ چیئرمین این ڈی ایم اے نواز شریف کے دورہ کے دوران اپنی بریفنگ میں اس بات کا اقرار کیا کہ امسال تھرپارکر میں مون سون اور اس کے علاوہ بارشیں بہت کم ہوئی ہیں جس کی وجہ سے پانی کی کمی ہوئی اور تھر میں قحط کی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ یہاں سب سے اہم بات یہ ہے کہ جب یہ بات سب کو معلوم ہے کہ بارشیں کم ہونے سے ان علاقوں میں کسی وقت بھی یہ صورتحال پیدا ہو سکتی ہے۔

Thar Parker

Thar Parker

پھر یہ کوئی آج کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ سلسلہ تو برسوں سے جاری ہے۔ تو پھر اس کیلئے مستقل بنیادوں پر کوئی منصوبہ بندی کیوں نہیں کی جاتی؟ خشک سالی کی کیفیت ایک دو’ دن میں تو پیدا نہیں ہوتی۔ سندھ فیسٹیول پر کروڑوں روپے برباد کرنے والی صوبائی حکومت کیا اس ساری صورتحال سے آگاہ نہیں تھی؟ کیوں سرکاری گوداموںمیں گندم سڑتی رہی اور بھوکوں کو کھانے کیلئے نوالہ میسر نہیں آسکا؟ وزیر اعظم نواز شریف کا یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ حالات کو یہاں تک پہنچانے میں ملوث ذمہ داران کا تعین ہونا چاہیے اور انہیں سخت سزا ملنی چاہیے۔ اسی طرح متاثرین کیلئے امدادی سرگرمیوں اور زیادہ مربوط و منظم کرنے کی ضرورت ہے۔ ماضی میں آنے والے زلزلوں، سیلاب اور دیگر قدرتی آفات کی طرح تھر میں متاثرین کیلئے ریلیف سرگرمیوں کا جائزہ لیں تو پاک فوج اور حکومت کے بعد امدادی سرگرمیوں میں جماعةالدعوة کا ادارہ فلاح انسانیت فائونڈیشن سب سے نمایاں نظر آتا ہے۔ پوری دنیا کی طرف سے ان کے خلاف شدت پسندی کا پروپیگنڈا کیا جاتا ہے لیکن متاثرہ علاقوں میں جاکر دیکھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ ایف آئی ایف کے رضاکار مسلمانوں کی طرح کس طرح بلاامتیاز ہندوئوں کی بھی بھر پور مدد کر رہے ہیں۔ ان علاقوں میں چونکہ ہندو بہت بڑی تعداد میں آباد ہیں اس لئے جماعةالدعوة کے امدادی اور میڈیکل کیمپوں پر بھی ہندوئوں کی کثیر تعداد امدادوصول کرتے نظر آتی ہے۔ کوئی بھی ٹی وی چینل لگا کر دیکھ لیں’ خبر وزیرا عظم کی ہو یا کسی اور کی’ چینلوں پر چلنی والی فوٹیج میں ہر طرف ایف آئی ایف کی جیکٹیں پہنے امداد میں مصروف نوجوان ہی نظر آتے ہیں۔ اس کی ایک خاص وجہ یہ ہے کہ جماعةالدعوة کے رضاکار قحط کے بعد وہاںنہیں پہنچے بلکہ پہلے سے ہی وہ ان علاقوں میں کروڑوں روپے مالیت کے واٹر پروجیکٹس پر کام کر رہے ہیں۔

ان کے پاس مقامی دیہاتوں و علاقوں کی باقاعدہ سروے لسٹیں موجود ہیں جس کی مدد سے ان کے رضاکار اونٹوں کے ذریعہ اور اپنے کندھوں پر سامان لاد کر دور درازکے ان دیہاتوںجہاں ابھی تک کوئی نہیں پہنچ سکا’ وہاں جاکر متاثرین کو امداد فراہم کر رہے ہیں۔ تھر کی تازہ ترین صورتحال کے حوالہ سے جماعةالدعوة کے سربراہ حافظ محمد سعید نے پریس کانفرنس کرکے وہاں کے حالات، مسائل اور امدادی سرگرمیوں سے متعلق بریفنگ دی تو اس موقع پر موجود صحافیوں کی آنکھیں کھلی رہ گئیں۔ انہوںنے بتایاکہ جماعةالدعوة کے رضاکار تھرپارکر میں قحط سالی کی خبریں میڈیا میں آنے سے پہلے ہی وہاں امدادی سرگرمیوں میں مصروف تھے اور ان کی تنظیم کی جانبس سے روزانہ کی بنیاد پر ہزاروں افراد میں پکا پکایا کھانا تقسیم اور متاثرین کو طبی سہولیات فراہم کرنے کیلئے میڈیکل کیمپنگ کی جارہی ہے۔ مٹھی میں کنٹرول روم قائم کر کے ملک بھر سے اکٹھا کیا گیا امدادی سامان وہاں پہنچاکر آگے تقسیم کیا جارہا ہے۔ حالیہ ہفتہ میں پانچ ہزار سے زائدقحط متاثرہ خاندانوں میں ایک ماہ کا خشک راشن تقسیم کیا جائے گااور ہم مسلمانوں کی طرح ہندوئوں کو بھی بلاامتیازامداد فراہم کر رہے ہیں، میڈیا ہمارا یہ کردار بھی دنیاکے سامنے لائے۔ حافظ محمد سعید نے قوم سے اپیل کی کہ وہ تھر میں پیدا ہونے والی اس ہنگامی صورتحال میں متاثرین کیلئے امدادی سرگرمیوںمیں بڑھ چڑھ کر حصہ لے۔

Thar Victims

Thar Victims

ان کی یہ اپیل وقت کا تقاضا اور بروقت ہے’ تھر متاثرین کی مدد محض ایک، دو جماعتوں کا مسئلہ نہیں ہے۔ تمامتر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ’ خاص طور پر وہ علاقے جہاں اللہ نے لوگوں کو گندم وچاول جیسی فصلیں اور دیگر وسائل سے نواز رکھا ہے انہیں متاثرین کی مدد سے کسی صورت پیچھے نہیں رہنا چاہیے۔ اسی طرح مرکزی و صوبائی حکومتوں کو بھی چاہیے کہ وہ اپنی غلطیوں کی اصلاح کرتے ہوئے ان کا ازالہ کریں اور اس مسئلہ کا مستقل بنیادوں پر حل نکالیں تاکہ آئندہ کیلئے وہاں ایسی صورتحال پیدا ہونے سے بچا جاسکے۔

تحریر: حبیب اللہ سلفی
برائے رابطہ: 0321-4289005