تحریر : پروفیسر محسن عثمانی ندوی سیاست کی راہ بھی بڑی عجیب وغریب ہوتی ہے ، کبھی گلزار کبھی خارزار، کبھی آسان کبھی دشوار، کبھی شاخ گل کبھی تلوار ، ہم حرم مکی ہیں اور ہم حرم مدنی ہیں، ہم صرف دین محمدی کے ترجمان اور شریعت کے پاسبان ہیں ،ہمارے مینارے پورے عالم اسلام پر نظر رکھتے ہیں، ہم سیاست کے نشیب وفراز سے واقف ہیں اور حالات کی نبض پر ہماری انگلیاں ہیں۔جوبھی اسلام اور مسلمانوں کیلئے صحیح کام کرتا ہے ہم اس کے لئے دل سے دعا گو ہوتے ہیں اور جو بھی غلط کام کرتا ہے چاہے وہ اسی سرزمین کا فرماںرواہی کیوں نہ ہوہماری روح اس کو ماننے سے ابا کرتی ہے۔ کسی حکومت سے ہمارا کوئی رشتہ نہیں ہے ۔ ہم سے محبت کرنے والے ایک ہندوستانی شاعر نے اپنے بارے میں جو کہا تھا وہی شعر مجھ پر صادق آتا ہے جہاں بینی مری فطرت ہے لیکن کسی جمشید کا ساغر نہیں میں
ہمارے ہی میناروں نے کل سعودی حکومت کی عبد الفتاح سیسی نوازی پر اور اخوان دشمنی پرخون کے آنسو بہائے تھے ،آج ہمارے ہی مینارے آپ کی ، خادم الحرمین سلمان بن عبد العزیز کی، حوثیوں کی یورش کو کچلنے کی کوشش پر اور سیاست میں صحیح روش اختیار کرنے پرتعریف کرنے پر مجبور ہیں، یمن میں یہ اقدام دین اسلام کا عین تقاضہ ہے اور اسلام کی حفاظت کے لئے ایک صحیح اور ضروری قدم ہے ۔ خادم الحرمین سلمان بن عبد العزیز ، آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ آپ کی عزت ہمارے نام سے ہے ، ساری دنیا میں آپ کا نام محترم ہی اسی لئے ہے کہ اس میں ہماری طرف یعنی حرمین کی طرف نسبت کی گئی ہے ، ساری دنیا میں مسلمانوں کے طائر ٍروح کا نشیمن حرمین کی سرزمین ہے وہ اس کے لئے ُ اپنی جانیں قربان کرسکتے ہیں اور اپنا سب کچھ نثار کرسکتے ہیں، چونکہ آپ کی نسبت حرمین کی طرف ہے اس لئے آپ کے صحیح اقدام سے تمام مسلمانوں کو خوشی ہوتی ہے ، اس وقت آپ نے یمن میں جواقدام کیا ہے وہ درست بھی ہے اور بروقت بھی ہے ، علی عبد اللہ صالح نے شیعہ حوثیوں سے مل کر اور ایران کے تعاون سے منصورہادی کی جائز حکومت کو ختم کرنے کی کوشش کی، ہمارے میناروں نے اسلحہ سے بھرے ہوئے پانی کے جہاز دیکھے ہیں جو ایران سے یمن بھیجے گئے تھے تاکہ ملک کے اندر خلفشار پیدا کیاجائے اہل سنت کو کمزور کیا جائے اور شیعت کے قدم جمائے جائیں اور حرمین کی سرزمین کو شہ مات دی جائے ۔ اس طرح یمن میں ایرانی سرگرمیوں نے سعودی عرب کے لئے داخلی سلامتی کا مسٔلہ پیدا کردیا تھا اس لئیے سعودی عرب کو اس کا نوٹس لینا ہی تھا ،
جب ملک کے پایہ تخت صنعاء پر حوثیوں نے جارحانہ کار وائی کے ذریعہ قبضہ کرلیا تھا ا ور قصر صدارت کو زیر نگین کرلیاتھا اور ہادی منصورکو جو یمن کے جائز اور دستوری فرمارواں ہیں اور دنیا کے تمام ملک ان کی اس حیثیت کو تسلیم کرتے ہیںبیرون ملک پناہ لینی پڑی تھی اس وقت یمن کے فرما رواں منصور ہادی نے حوثیوں کی جارحیت کے خلاف سعودی عرب سے مدد طلب کی تھی دنیا کے ہر قانون کے تحت یمنی صدر کی مدد کے لئے سعودی عرب کا یہ اقدام درست ہے اس پر ایران کو اور اخبارات میں ایران کی لابی کو واویلا کرنے کی کوئی ضرورت نہں۔آج ایرانی لابی اخبارات میں اس خبر کو اس طرح پیش کررہی ہے جیسے سعودی عرب نے کسی جارحیت کا ارتکاب کیا ہے ۔ شام اور عراق میں ایران کی کھلی ہوئی جارحیت اور خون ریزی پریہ اخبارت خاموش رہتے ہیں شام میں جو ناقابل بیان ظلم ہوا ہے چشم فلک نے اس کی نظیر پوری انسانی تاریخ میں نہیں دیکھی ہے اگر انہیںکھول کر بیان کروں تو کلیجہ منہ کو آئے اور زمین کانپ جائے اور آسمان تھرا جائے ۔ خادم الحرمین سلمان بن عبد العزیز ، آج کے اخبارات میں یہ خبر شائع ہوئی ہے کہ آپ کی حکومت نے ایرانی جہاز کو ہوائی اڈے پر اترنے نہیں دیا اس میں عازمین عمرہ سوار تھے ، اور یہ اس وجہ سے کہ پہلے سے جہاز کی روانگی کی کوئی اطلاع تھی اور نہ سعودی عرب میں اترنے کا اجازت نامہ۔ بظاہر تو یہ بات مشہور کی جائیگی کہ عازمین عمرہ کو عمرہ سے روکا گیا لیکن اس غلطی کی تو بہر حال سزا ملنی ہی چاہئے تھی کہ پہلے سے اس کی اطلاع نہیں دی گئی تھی اور نہ سعودی عرب میں جہاز کے اترنے کی اجازت حاصل کی گئی تھی ۔ میری آنکھوں نے اپنی دور بینی نگاہوں سے شام میں ایرانی حکومت کی اور حزب اللہ کی سفاکانہ غارت گری دیکھی ہے۔
Dead Bodies
تین لاکھ معصوم جانیں شام میں ہلاک ہو چکی ہیںاور بیس لا کھ پناہ گزین ہیں اگر چہ بظاہر یہ کارروائی بشار السد کی ہے لیکن اگر بشار کی حمایت میں ایران کا پنجہ سفاک اوردست غارت گر نہ ہوتا تو بشار کو بہت پہلے ملک چھوڑ دینا پڑتا۔لاکھوں معصوم بچوں عورتوں اور اہل سنت کے قتل کے خون کے دھبے ایران کے دامن پر ہیں۔اگر اس کی پاداش میں سعودی عرب ایران کے تمام عازمین حج وعمرہ کو اس وقت تک کے لئے حج اور عمرہ سے روک دے جب تک ایران شام وعراق میں ظلم وسفاکی سے دست کش اوردامن کش نہیں ہوجاتا ہے تو سعودی عرب کا یہ اقدام غلط نہیں ہوگا۔ آخر شام کے لاکھوں مظلوموں کی داد رسی کیسے ہوگی، اور ملک شام کی سیاہ رات کب ختم ہوگی؟ ایران کے توسیع پسندانہ عزائم بہت خطر ناک ہیں، شام پر اس کا قبضہ، عراق پر اس کا قبضہ ، لبنان پر اس کا قبضہ ، یمن اور بحرین اس کے نرغے میں، مکرو فریب کے حربہ پر وحدت اسلامی کے نعرہ کی نقاب ڈا لی جاتی ہے ۔ آخر وہ کب وقت آئیگا کہ ایران کے بے پناہ ظلم وستم کے خلاف اسلامی ملک حرکت میں آئیں گے۔ اسلام اور عالم اسلام کو سب سے بڑ ا خطرہ ایران سے ہے، کسی کو غلط فہمی نہ ہو ،ہم شیعہ اور سنی کی بات نہیں کرتے ہیں ،شیعیت تو یزید کے مقابلہ میں حق کا اور امام حسین کے ساتھ دینے کا ایک تاریخی حوالہ ہے، کیا ایران کو شیعیت یہی سکھاتی ہے کہ وہ یزید سے زیادہ بدکردار بشار کی حمایت کرے جس کی حکومت کا کوئی جواز موجود نہیں اور ان اسلام پسند جماعتوں سے لڑے جو شام میں اقتدار کی تبدیلی چاہتے ہیں۔ ہم خادم الحرمین سے یہ نہیں کہتے کہ وہ شیعہ مسلک کے لوگو ں کو حج اور عمرے سے روک دے لیکن اگر وہ ایران سے حج اور عمرہ پر آنے والوں پر روک لگا دے تو یہ اقدام پورے طور پر قرین انصاف ہوگا۔
ایران کی موجودہ حکومت حسینیت کی نہیں یزیدیت کی نمائندگی کرتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ایران میں ہزاروں ہزار شیعہ ہیں اور ان میں بعض مرجعیت کا درجہ رکھتے ہیں جو شام کے سلسلہ میں اپنی حکومت کی پالیسی سے ناراض ہیں اور اس پالیسی کو شیعہ مخالف پالیسی سمجھتے ہیں ۔اور عرب چینلس پر ان کے انٹرویو نشر ہوچکے ہیں ۔ عالی مرتبت جناب خادم الحرمین سلمان بن عبد العزیز!آپ کی عالی مقامی ہمارے دم سے ہے ، ہمارے مینارے جو باتیں گوش گذار کررہے ہیں انہیں غور سے سنئے ، دنیا کے تمام مسلمانوں نے آپ کی ذات سے بڑی امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں، آپ نے اقتدار سنبھالتے ہی فوراً خالد التویجری کو بڑے بھائی کی تدفین سے پہلے ہی معزول کردیا، آپکو شاید اندازہ نہ ہو کہ عالم اسلام میں ہر گھر میں اس خبر کے چرچے تھے کیونکہ گذشتہ عہد میں آپ کے بڑے بھائی کی بیماری اور معذوری کا فائدہ اٹھا کرکے سارے غلط فیصلے اسی شخص نے کرائے تھے، لوگوںکا خیال ہے کہ عالم اسلام کی مسلم اور محترم دینی جماعت الاخوان المسلمون کو دہشت گرد قرار دینے میں بھی اسی تویجری کا ہاتھ تھا۔اور پھراخوان کی جمہور ی اور دستوری حکومت کو ختم کرکے عبد الفتاح سیسی جیسے فاسد اور مفسد شخص کی حمایت ا ور مالی مدد بھی اسی تویجری کے ایماء اور اشارے پر ہوئی تھی، آج ہزاروں مظلوم اور بے کس اور بے سہارا لوگ مصر کی جیلوں میں پڑے ہوئے ہیں اور سینکڑوں کو پھانسی کی سزا دی گئی ہے۔ آپ کے اقتدار کے تخت پر جلوس افروز ہونے سے ان مظلوموں کے لئے امید کی کرن پیدا ہوئی ہے کہ آپ حصار ظلم کو گرائیں گے فصیل جور وستم کو منہدم کریں گے ،
وہاں اندھیری رات ختم ہوگی اور نیا سورج طلوع ہوگا۔ مسلمانوں کو مایوس مت کیجئے ، آپ مصر پر دباو ڈالئے، بے قصور لوگوں کو رہا کروائے ٍ۔جب لوگوں کو صحیح یا غلط یہ خبر ملی تھی کہ عبد الفتاح سیسی جب آپ سے تعزیت کے لئے ملنے آئے تو آپ نے ان سے ملنا پسند نہیں کیا، آپکو اندازہ نہیں ہوگا ہزاروں لاکھوں مسلمان گھروں میں کیسی خوشی اور مسرت کی لہراس خبر سے دوڑ گئی تھی، دنیا کے مسلمان آپ سے یہ امید لگائے ہوئے ہیں کہ آپ اپنے پیش رو کی غلطیوں کو بہ تدریج ٹھیک کریں گے اور سعودی عرب کے وقار کو پورے طور پر بحال کریں گے۔محترم المقام خادم الحرمین الشریفین! میری دور بین آنکھوں نے عالم اسلام کی دینی کانفرنسوں کو دیکھا ہے اور علماء مشائخ اور اہل دین کی آوازیں میرے کانوں تک پہونچی ہیں۔میرے کانوں کو دنیا کے بہت سے ملکوں اور بین الاقوامی کانفرنسوں میںتقریرں کے سننے کا موقع ملا ہے۔عبد الفتاح سیسی جیسے مجرم کی مدد نے سعودی عرب کی شہرت کو داغدار کیا تھا،میں اگرچہ حرم کا مینار ہوں لیکن اللہ کے فضل سے میری قوت مشاہدہ بہت تیز ہے اور میری قوت سماعت حیرت انگیز ہے، آپ یقین کیجئے کہ میں نے جو کچھ اس وقت آپ سے کہا ہے یہ پورے عالم اسلام کی آواز کی صدائے باز گشت ہے ہمیں نہیں معلوم کہ یہ آواز آپ کے کانوں تک پہونچی ہے یا نہیں پہونچی ہے۔ ساری دنیا میں آپ کے جو سفارت خانے ہیں ان کا کام ہے کہ عالم اسلام کے جذبات کو آپ تک پہونچائیں اس لئے کہ عالم اسلام آپ سے جتنی محبت کرتا ہے اور کسی سے نہیں کرتا اور یہ آپ کی بھی ذمہ داری ہے کہ عالم اسلام کو اعتماد میں لیکر وہ قدم اٹھائیں جس سے اسلام سرسبز وسر بلند ہو۔
Free Syrian Army
اس وقت شام کی گلگوں گلریز اور گل بداماں سرزمیں خون سے رنگین ہے ،شام کے معصوم باشندوں کی داد رسی کرنا اور ان کو ظلم سے بچانا اور ایران کو کیفر کردار تک پہونچانا آپ کی منصبی ذمہ داری ہے ۔شام کے مظلوم کب سے فریاد کناں اور گریہ بلب ہیں ، ان کی حسرت بھری نگاہیں آپ کی طرف اٹھی ہوئی ہیں ، لاکھوں معصوموں کے دیدہ نمناک پر شفقت ومحبت کی نگاہ ڈالئے ارحم الراحمین آپ پر رحم کرے گا ۔آپ کو امریکہ کی جانب نہیں غزہ اور فلسطین کے بے آسرا لوگوں کی طرف بھی توجہ کرنی ہے حرمین کی طرف نسبت کوئی معمولی چیز نہیں ہے اس نسبت کے تقاضوں کو پورا کرنا بھی آپ کی ذمہ داری ہے ۔ میری جانب نسبت کرنے والے معززومکرم خادم الحرمین ، میں نے جو باتیں آپ کے گوش گذار کی ہیں وہ آپ کے التفات کی مستحق ہیں ، میں مینارہ حرم ہوں لیکن خدا نے مجھے زبان دی ہے ( انطقنا اللہ الذی انطق کل ش )آپ نہ صرف یمن کا بلکہ ایران کی ریشہ دوانیوں کا پوری قوت کے ساتھ مقابلہ کیجئے ۔ایران کی مجوسی اور صفوی حکومت نے شام کی سنی آبادی پر ،عورتوں اور بچوں پر، جو ظلم کیا ہے وہ ناقابل معافی ہے، اسلام میں اور دنیا کے دستور میں جرم اور سزا کا پورا فلسفہ موجود ہے ، ظلم کرنے کے بعد اور جرم کرنے کے بعد وحدت اسلامی کا نعرہ جرم کی پردہ پوشی کے لئے ہے اور لوگوں کو فریب دینے کے لئے ہے ، اوراس مکرو فریب میں مبتلا ہونے کے لئے آخری درجہ کی سادگی اور سادہ لوحی درکار ہے جو مسلم قائدین اور صحافیوں کے پاس وافر مقدار میں موجود ہے ۔
اگر لاکھوں بے گناہوں اور معصوم بچوں اور عورتوں کی جان کی کوئی قیمت ہے اور اس موج خون کیلئے جو سروں پر سے گذر رہی ہے دل میں درد اٹھتا ہے تو اس کا کوئی مداوا بھی ڈھونڈھنا چاہئے ۔ لاکھوں انسانوں کے قتل ناحق کی اگر کوئی سزا ہوسکتی تووہ سزا ضرور دی جانی چأہئے اور اس ملک کے لئے حج اور عمرہ کے دروازہ کو بند کردینا چاہئے ۔ جناب خادم الحرمین ، یمن میں اس وقت آپ کا اقدام سو فی صد درست ہے ، اس وقت صورت حال یہ ہے کہ بہت سے ملکوں میں اور ہندوستان کے اخبارات میں بھی ایرانی لابی اتنی طاقتورہوگئی ہے کہ اس میں حق بات کو سامنے آنے نہیں دیا جاتا ہے ۔ کوئی ایران پر تنقید کرے یا عراق کے حکمراں پر تو وہ بیان شائع نہیں ہوسکتا ہے ، شام میں حکومت کے خلاف لڑنے والوں کی مذمت میں بیان شائع ہوگا لیکن بشار اور ایران کی مذمت میںکوئی بیان یا مضمون شائع نہیں ہوسکے گا اور یمن میں سعودی حکومت کے جائز اقدامات کی کوئی حمایت کرے تو اخبارات میں یہ خبر تشنہ طباعت رہ جائے گی،
Saudi Arabia
کوئی ایسی خبر زیور طبع سے آراستہ نہ ہوسکے گی جس میں سعودی حکومت کی حمایت ہو اور ایران موضوع تنقید ہو۔ ابھی کچھ دن پہلے ہندوستان میں عربی زبان کے اساتذہ کی انجمن کی طرف سے یمن کے سلسلہ میں سعودی عرب کی حمایت میں بیان جاری کیا گیا تھا انہیں اخبارات میں عام طور جگہ نہیں مل سکی۔ ان چیزوں کا نوٹس لینا اور مناسب اقدام کرنا آپ کے سفارت کاروں کا کام ہے ۔یہ سفارت کاروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ جانیں کہ وہ کون سے اخبارات ہیں جو سعودی عرب کو طاقتور اور معزز دیکھنا چاہتے ہیںاور وہ کون سے اہل قلم ہیں جو سعودی عرب سے محبت کرتے ہیں اور کبھی تنقید بھی کرتے ہیں تو بربنائے اخلاص اور ایک دینی فریضہ کے طور پر۔آنکھ بند کرکے ہر اقدام کی حمایت کرنا انہوں نے سیکھا ہی نہیں ہے کیونکہ قلم ان کے ضمیر کی ایک امانت ہے اور عدل کی میزان ہے، انہیں نہ حرص ِ لطف وکرم ہے نہ خوفِ خمیازہ ۔انہیں نہ ستائش کی تمنا ہے نہ صلہ کی پروا ۔بعض کم فہم سفارت کار ایسے مخلص لوگوں کو اپنا مخالف سمجھتے ہیں اور ان کے خلاف حکومت میں جاجاکر رپٹ لکھواتے ہیں۔ آپ کی وزارت خارجہ کو ایسے سفارت کاروں کی گوشمالی بھی کرنی چاہئےٍ۔