تحریر: قاری محمد یعقوب شیخ حوثی باغیوں کے سرغنہ و سردار عبدالمالک الحوثی نے سعودی عرب پر حملے اور حرمین شریفین پر قبضے کی بات اور اعلان کر رکھا تھا اعلان کے بعد اور اقدام سے پہلے سعودی عرب نے بروقت حملہ کر کے انہیں شکست سے دوچار کر دیا۔ اب وہ جنگ بندی کی باتیں اور مذاکرات کی خواہش کرنے لگے ہیں بلکہ اپنے سفارتی تعلقات کے ذریعے سے کچھ لوگوں اور ملکوں سے کہہ بھی چکے ہیں کہ وہ ان کے کام آئیں۔ جو ملک پہلے سے ان باغیوں کے ساتھ ہیں یا سرپرستی کر رہے ہیں انہوں نے تو ان کا جھنڈا اٹھانا اور ان کی حمایت کا دم بھرنا ہی بھرنا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مخالفین ظہور پذیر ہو رہے ہیں، سر اٹھا رہے ہیں اور ان کی فہرست میں اضافہ ہو رہا ہے۔
حوثیوں کے علاوہ حزب اللہ نے بھی بیت اللہ پر قبضے اور سعودی عرب پر حملے کا اعلان باقاعدہ طور پر کر رکھا ہے۔ ان کے ایک اہم ذمہ دار کا انٹرویو ایک عرب چینل پر چل رہا ہے جس کا کلپ مجھے کئی اطراف سے موصول ہوا ہے جس میں حزب اللہ کے ذمہ دار نے بیان دیا ہے کہ ہم نے لشکر تیار کر لیا ہے اور ہم عنقریب حرمین شریفین میں نماز ادا کریں گے۔اینکر نے کہا: میں سمجھا نہیں، اس سے کیا مراد ہے کہ آپ عنقریب حرمین شریفین میں نماز ادا کریں گے؟ کیا اس سے مراد یہ ہے کہ آپ سعودیہ پر حملہ کریں گے؟ اس نے جواب میں کہا جی! ہم سعودیہ کے ملحد و بے دین اور کافرانہ نظام کو تہس نہس کر یں گے اور ان کو بھی ختم کریں گے جو فوجی طاقت پیدا کر رہے ہیں اور امریکہ و اسرائیل کی بھرپور تائید کرتے ہیں اور اسلام اور نبیۖ کے باغی ہیں۔
آپ لوگ کیونکر ان سے جنگ کریں گے؟ وجہ؟ جواب: میں نے کہا نا کہ امام مہدی (سلام اللہ علیہ) قریب الظہور ہیں، عنقریب آئیں گے۔ ہم ان کی معیت میں سعودیہ کا رخ کریں گے اور سعودیہ کو آزاد کرائیں گے۔ یہ ہے وہ انٹرویو جو حزب اللہ کی طرف سے آیا ہے جس سے کئی ایک سوال پیدا ہوتے ہیں، کئی ایک اشکالات جنم لیتے ہیں، متعدد سازشیں بے نقاب ہوتی ہیں۔ انہوں نے جو لشکر تیار کر لیا ہے ظاہر ہے وہ نماز کی ادائیگی کیلئے تو نہیں، یہ لشکر نمازیوں کا نہیں فسادیوں کا ہے جنہوں نے حرمین شریفین کے امن و امان کو بدامنی میں تبدیل کرنا ہے۔ (نعوذباللہ) سعودیہ پر کھلے الفاظ میں حملے کی بات کی گئی ہے۔ اس لئے کہ ان کی نظر میں سعودی حکام کافر اور ان کا حکومتی نظام کافرانہ ہے۔ سعودیہ، آل سعود کا خاتمہ یہ لوگ ضروری سمجھتے ہیں اس خاندان سے عداوت کے سبب ان کا ہر قدم نفرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے لہٰذا! اس نظام کے خاتمے کی بات کرتے ہیں خواہ اس کا تعلق قرآن و سنت ہی سے کیوں نہ ہو؟ انہوں نے اس کو تہس نہس کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ پاکستان اور عالم اسلام کو دھمکی دے دی ہے کہ ہم ان کو بھی ختم کریں گے جو فوجی طاقت پیدا کر رہے ہیں۔ یہ فوجی طاقت پیدا کرنے والے، صلاحیتوں کو جلا بخشنے والے کون ہیں؟ ساری دنیا اس بات کو اچھی طرح جانتی ہے۔
Saudi Arab
سعودی عرب پر مزید تین الزامات یہ لگائے گئے ہیں کہ وہ امریکہ و اسرائیل کی بھرپور تائید کرتے ہیں، اسلام کے باغی ہیں، رسول اللہۖ کے باغی ہیں۔ سعودی عرب امریکہ و اسرائیل کا حامی اور تائیدی ہوتا تو اس موقع پر وہ مدد اور تعاون کیلئے پاکستان کے بجائے امریکہ و اسرائیل کو بلاتا اور ان سے فوجی مدد لیتا… اسلام کا باغی ہوتا تو حدود اللہ کو نافذ نہ کرتا، زانی رجم نہ ہوتا، چور کے ہاتھ نہ کٹتے، شرعی نظام عدالت نہ ہوتا بلکہ اور ہی سلسلے اور نظام چل رہے ہوتے۔
رسول اللہۖ کے باغی ہوتے تو مسجد نبوی کی توسیع نہ ہوتی، اس کے ہر ستون کے ساتھ قرآن و سنت کی تعلیم و تعلّم کے سلسلے نظر نہ آتے، ابلاغ دین، نشر حدیث کا سلسلہ نظر نہ آتا، لیکن! سعودی جامعات میں تو الگ سے کلیة الحدیث موجود ہے، سیرت النبیۖ کا موضوع بطور خاص الگ پڑھایا جاتا ہے، تمسک بالحدیث کا اہتمام کروایا جاتا ہے۔ حدیث و سنت اور سیرت النبیۖ کے موضوع پر عالمی مقابلہ جات کا اعزاز بھی اسی حکومت کو حاصل ہے۔ لیکن! یہ تمام چیزیں، امور اور کارناموں کی حزب اللہ کی نظر میں کوئی حیثیت نہیں ہے۔ ان کی نظر میں یہ سب کچھ بے حیثیت ہے انہوں نے صرف اور صرف جنگ لڑنی ہے اور سعودیہ کو آزاد کروانا ہے۔ یہ آزادی مشن کب شروع ہوگا؟ یہ امام مہدی کی آمد پر ہو گا۔ ان کے بقول ان کی آمد بالکل قریب ہے، تو ان کی معیت میں یہ ساری جنگ ہو گی جس کی تیاری مکمل ہے۔
ادھر حسن نصر اللہ نے اپنے جنگجوئوں کو ساتھ لے کر بڑا مظاہرہ بھی کیا ہے، اور یمنی عوام کی ذہن سازی کر کے ان کو سعودیہ کے خلاف کیا جا رہا ہے۔ چھوٹے چھوٹے ویڈیو کلپ کے ذریعے سے یہ دکھایا جا رہا ہے کہ سعودیہ نے ظلم و زیادتی کی ہے۔ ایک آدمی کیمرے کے سامنے کھڑا چیختا، چلاتا، روتا، گڑگڑاتا کہہ رہا ہے، ہم اسے نہیں چھوڑیں گے۔ نئے سعودی بادشاہ کو کہا: سلمان ہم تمہیں نہیں چھوڑیں گے۔ ان حالات میں سعودی عرب کو چاہیے کہ وہ یمن میں بالخصوص اور پوری دنیا میں بالعموم اپنی سفارت کاری بہتر اور تیز تر کرے۔ پاکستان نے تو سعودی سفیر کے بغیر بھی سعودی عرب کی کمال سفارت کاری کی ہے اور سعودی عرب کے حق میں کھل کر مظاہرے اور پروگرامات کئے ہیں۔
ابھی ڈاکٹر عبدالعزیز العمار نائب وزیر مذہبی امور سعودی عرب اور ڈاکٹر صالح آل شیخ وزیر مذہبی امور سعودی عرب اور امام حرم المکی ڈاکٹر خالد الغامدی حفظہم اللہ ابھی تشریف بھی نہیں لائے تھے کہ جماعة الدعوة پاکستان نے حرمین کے تحفظ اور سعودی عرب کے دفاع کیلئے عملی میدان میں قدم رکھا۔ تمام قائدین سے پہلے قائد جماعة الدعوة، امیر جماعة الدعوة پروفیسر حافظ محمد سعید حفظہ اللہ یہ کہہ کر میدان میں اترے کہ ہم نے صرف اور صرف اللہ تعالیٰ سے اجر لینا ہے۔ حرمین کا تحفظ ہمارے ایمان و عقیدے کا مسئلہ ہے، کوئی سیاسی چکر وکر نہیں، تو پوری جماعت اس کام پر لگ گئی کیونکہ امیر جماعت کا حکم تھا کہ اس آواز کو قریہ قریہ، نگر نگر اور گلی گلی پہنچا دو، لوگوں کی ذہن سازی کرو، ان میں تڑپ پیدا کرو، حرمین پر جان قربان کرنے کا جذبہ پیدا کرو۔یہ کام اخلاص کی بنیاد پر جاری ہے اور رہے گا، ان شاء اللہ، کیونکہ اس میں شہرت، دولت، مفادات وریالات کا کوئی عمل دخل نہیں، مومنوں کے عہد و پیمان اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہیں، وہ اسی اللہ کیلئے جیتے اور مرتے ہیں، اسی کے ساتھ کئے ہوئے وعدوں کو پورا کرنے کی تڑپ رکھتے ہیں، ان کے قول و فعل میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ یہی وعدہ تحفظ حرمین کیلئے اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہے۔
Khana Kaba
اسی طرح تحفظ حرمین اور سرزمین سعودیہ کے دفاع کے سلسلہ میں حکومت پاکستان کی موجودہ پالیسی سے سعودی عرب کو یقینا حوصلہ ملا ہے اور وزیراعظم پاکستان کے دورئہ سعودی عرب سے امت مسلمہ کو یقین ہو گیا ہے کہ پاکستان سعودی عرب کے ساتھ ہے۔ اور میں سمجھتا ہوں عرب ممالک کا شکوہ جو اماراتی وزیر خارجہ کی زبانی پہنچا تھا اس کا ازالہ بھی ہو گیا ہے۔ اور پاکستان میں جو جماعتیں سعودی عرب کی حمایت کے حوالے سے لیٹ تھیں انہوں نے بھی لیٹ نکال لی ہے اور کچھ کی کوششیں جاری ہیں۔ مرکزی جمعیت اہلحدیث پاکستان نے نائب وزیر مذہبی امور اور امام کعبہ کے اعزاز میں الگ الگ اسلام آباد اور لاہور کے ہوٹلوں میں پروگرامات رکھے۔ اول الذکر پروگرام میں امیر جماعة الدعوة کے ہمراہ مجھے جانے کا موقع ملا اس پروگرام میں تمام سنی جماعتوں کے قائدین شریک تھے، اتحاد کا مظاہرہ تھا۔ اس اتحاد کو وسعت دیتے ہوئے لاہور کے پروگرام میں شیعہ عالم دین اور رہنما ڈاکٹر غلام حسین اکبر کو بھی دعوت دی گئی جو پہلی صف میں اسٹیج پر موجود تھے۔ امام کعبہ کے ایمان افروز خطاب کے بعد جب امیر مرکزیہ علامہ پروفیسر حافظ ساجد میر نے ہاتھوں کی زنجیر بنائی تو چاروں کڑیاں اہل حدیث، دیوبندی، بریلوی اور شیعہ ایک ساتھ کھڑے نظر آئے۔یہ سارا منظر میں، مولانا امیر حمزہ اور رانا نصر اللہ اسٹیج کی دوسری لائن میں دو کرسیوں پر بیٹھے دیکھ رہے تھے۔ علماء کی کثیر تعداد نے اس پروگرام کو چار چاند لگا دیئے۔ سب کی ایک ہی آواز تھی: ”لبیک حرمین شریفین لبیک”۔