کسی بھی قوم کی ترقی میں مزدور کا کردار انتہائی اہم ہوتا ہے۔ مزدور وہ طبقہ ہوتا ہے جو دن رات محنت کرکے ملک کے صنعتوں، ذراعت کو چلاتا ہے بلکہ ہر شعبے میں مزدور کا کردار ناقابل تسخیر ہے مگر بدقسمتی سے آج تک مزدور کو اس کے کردار کے عین مطابق حقوق نہیں مل سکے ہیں۔
مزدوروں کے حقوق کیلئے 1886 میں ایک تحریک چلی تھی جس میں کئی مزدوروں اور مزدور رہنمائوں نے اپنے جانوں کا نذرانہ پیش کیا اور تاریخ میں امر ہو گئے جن کی یاد میں ہر سال یکم مئی کو عالمی یوم مزدور منایا جاتا ہے۔ اس دن مختلف اخبارات میں صدر، وزیراعظم اور وزرائے اعلی کے عالمی یوم مزدور کے مناسبت سے پیغامات چھپتے ہیںجن میںشگاگو کے جان نثاروں کو سلامی پیش کی جاتی ہیں، مزدوروں کے حقوق کے تحفظ کے وعدے کئے جاتے ہیں۔ اس دن مختلف شہروں میں پر رونق تقاریب منعقد کئے جاتے ہیں جن سے مہنگے گاڑیوں میں سوار، مہنگے ملبوسات زیب تن کئے ہوئے مزدور رہنماء بھی خطاب کرتے ہیں۔ َ
جہاں خون کے آخری قطرے تک مزدوروں کے حقوق کیلئے لڑنے کے وعدے کئے جاتے ہیںان تقریبات میں شریک تمام مزدور سرکاری ملازمین یا پرائیویٹ کمپنیوں کے مستقل ملازمیں ہوتے ہیں جن کی اس دن کی دیہاڑی بھی لگ رہی ہوتی ہے اور قیادت جن مارکسسٹ، سوشلسٹ، کمیونسٹ مزدور رہنمائوں پر مشتمل ہوتی ہے انہیں بھی نامعلوم سمت سے مراعات پہنچ رہی ہوتی ہے۔
اسے بدقسمتی کہیں یا پھر کچھ اور مگر اس دن حقیقی مزدور کسی بھی تقریب میں نظر نہیں آتاکیونکہ اسے یکم مئی اور دو مئی کے درمیانی شب اپنے گھر کا چولھا بھی جلانا ہوتا ہے۔ اس مزدور کیلئے اس کا دن تو وہی ہوتا ہے جس دن اسے مزدوری پر کام مل جائے اور کچھ کماکراس شب وہ اپنے گھر کا چولھا جلا سکے چاہے اس کیلئے وہ دن یکم مئی کی ہو یا 20 جون کی گرم ترین دن یا پھر وہ 20 دسمبر کی سردی سے ٹھٹراتی دن اس بات سے اسے کوئی سروکار نہیں ہے۔
Happy Labor Day
یکم مئی ہر سال آتی ہے اور چلی بھی جاتی ہے اس سال بھی آگئی اور چلی بھی گئی ہر سال دھوم دھام سے مزدوروں کا عالمی دن منایا جاتا ہے اس سال بھی دھوم دھام سے مزدوروں کا عالمی دن منایا گیا مگراس دن کو منانے کے بعد پہلے مزدور کیلئے کیا تبدیلی آئی تھی اوراب مزدورکی جانب سے کن تبدیلیوں کی توقع کی جاسکتی ہیں۔ کیا کراچی، کوئٹہ، لاہور، پشاور، فیصل آباداور دیگر شہروں میں فٹ پاتھ پر دیہاڑی کے انتظار میں بیٹھے مزدور کو اب دیہاڑی کیلئے فٹ پاٹھ پر بیٹھنا نہیں پڑے گا؟؟؟ کیا چند برس قبل پیش آنے والے سانحہ شیرشاہ کے ذمہ داران کا تعین ہو سکے گاَ۔
کیا ان ذمہ داروں کو قانون کے کٹھرے میں کھڑا کیا جا سکے گا؟؟؟ یکم مئی کو جن سڑکوں سے مزدوروں کے حقوق کی ریلیاں گزر رہی تھیںکیا وہ اس دن اسی سڑک کے کنارے کھدائی کرنے والے مزدور کو بھی اپنے ساتھ ملا سکیں گے یا پھر کیا وہ اس کی حقوق کی بھی بات کریں گے؟؟؟ کیا ورکرز، لیبر، ایمپلائز، ٹریڈ یونین وغیرہ کے اداروں اور کمپنیوں کو بلیک میل کرنے والے یونین لیڈر دور دراز کے اس مزدور کے حقوق کیلئے بھی تحریک چلائیں گے جوکہ غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندگی گذار رہا ہے؟؟؟
یہاں ایک بات واضح ہو کہ محنت کش چاہے سرکاری اداروں میں ملازم ہوں یا کسی پرائیویٹ کمپنی میںیا پھر کسی سڑک کنارے کھدائی کر رہا ہو یقینا وہ قابل احترام ہیں اور ان کا کردار ناقابل فراموش ہے اگر کوئی لیڈر مزدوروں کے حقوق کیلئے مخلصانہ آواز اٹھاتا ہے تو اس کا عمل بھی قابل تحسین ہے یہاں ہدف تنقید صرف وہی موسمی یونین لیڈر ہیں جو یکم مئی کو کسی تقریب سے خطاب کرنے کے بعد اگلے یکم مئی تک اداروں اور کمپنیوں کو مزدوروں کے نام پر بلیک میل کرکے اپنے مفادات حاصل کرتے ہیں پھر اگلے یکم مئی کو نمودار ہوتے ہیںاور مزدوروں کے نام پر چلنے والی وہ ناکام تحریکیں جن کے ثمرات اب تک حقیقی مزدور تک نہیں پہنچ سکے ہیں) اگر میں غلط ہوں تو ذرا یہ بھی سوچئے کہ پھر کیا وجوہات ہیں کہ کئی دہائیوں پر محیط مزدوروں کے لئے چلنے والی تحریکیں کیوں حقیقی مزدور کو اس کے حقوق کی جدوجہد کا شعور دینے میں ناکام رہے ہیں؟؟ کیا وجوہات ہیں کہ کئی دہائیوں پر محیط تحریکیں مزدور کی حالت بدلنے میں ناکام رہے ہیں۔ اقبال تو اس کھیت کو ہی جلانے کی بات کرتا ہے جس سے دہقان کو روزی میسر نہ ہو سکے تو کیا ان تحریکوں پر فکر اقبال صادر نہیں ہوتی جو چلتی تو مزدور کے نام پر ہیں مگر ان کے ثمرات مزدوروں تک نہیں پہنچ سکے ہیں؟؟؟