تحریر : شیخ توصیف حسین گزشتہ روز میں ملک بھر میں ہو نے والے خودکش حملوں کی زد میں آ کر بے موت مرنے والے بے گناہ شہریوں کی اموات جبکہ دوسری جانب ہمارے ملک کے حاکمین کے مخالف ملکوں جس میں ہندوستان جو ہمارے کشمیری بہن بھائیوں کے قتل عام میں ملوث ہیں کے ساتھ دوستانہ تعلقات کو دیکھ کر پریشانی کے عالم میں ایک ہوٹل میں پہنچا چائے پینے کیلئے کہ اسی دوران ایک قابل احترام بزرگ نے میری پریشان حال چہرے کو دیکھتے ہوئے کہا کہ میں آج آپ کو ایک صدی پرانا واقعہ سناتا ہوں 20ستمبر 1916کو لاہور کے ایک نواحی گائوں میں ایک بچہ پیدا ہوا چار بہن بھائیوں میں یہ سب سے چھوٹا تھا پورا گائوں ان پڑھ تھا مگر اس بچے کو پڑھنے کا بہت شوق تھا لیکن اس کے گائوں میں سکول نہ ہو نے کے سبب ڈیڑھ میل دور دوسرے گائوں کے سکول میں پڑھنے جاتا تھا پانچ جماعتیں پاس کر نے کے بعد وہ میٹرک تک تعلیم حاصل کر نے کیلئے وہ اپنے گائوں سے تقریبا نو میل دور ہائی سکول میں جا نے لگا جہاں پر اُس نے میٹرک کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کر کے وظیفہ حاصل کیا مزید تعلیم حاصل کر نے کیلئے وہ لاہور آ گیا لیکن غربت کے باعث اُسے اعلی تعلیم حاصل کر نے میں کافی دشواری کا سامنا تھا لیکن اُس نے اس مشکل حالات کے سامنے ہتھیار نہ پھینکے بلکہ اُن برے حالات سے مقابلہ کر نے کی ٹھان لی جس کیلئے اُس نے تہیہ کر لیا کہ وہ ہر صورت میں اعلی تعلیم حاصل کر کے ملک و قوم کے ساتھ ساتھ اپنے غریب والدین کا نام روشن کرے گا چنا نچہ وہ اسی کے ساتھ نماز فجر سے قبل اُٹھتا نماز فجر ادا کر نے کے بعد وہ مختلف دیہی علاقوں سے دودھ اکھٹا کر نے کے بعد ریڑھے پر لاد کر شہر پہنچتا جہاںپر وہ کچھ دودھ نواب مظفر قزلباش کی حویلی میں اور مختلف دوکانداروں کو فروخت کر نے کے بعد مسجد میں کپڑے بدلتا اور کالج چلا جاتا جس سے اُس کی کالج کی تعلیم کے اخراجات پورے ہو جاتے جہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ اُس نے غربت کے باوجود کبھی بھی دودھ میں پانی نہ ملایا حالانکہ اُس کے پاس نہ تو اچھے کپڑے تھے اور نہ ہی جوتے یہاں مجھے ایک اور واقعہ یاد آ گیا کہ جب وہ نوجوان اسلامیہ کالج ریلوے روڈ لاہور میں داخل ہوا تو اس کے پاس فرسٹ ایئر میں اُس کے پاس کوٹ نہیں تھا جو کہ مذکورہ کالج کے قانون کے مطا بق کوٹ زیب تن کرنا ضروری تھا۔
ایک دفعہ کوٹ زیب تن نہ کر نے کے پاداش میں اس کے پروفیسر نے کلاس سے اُسے نکال دیا تھا لیکن بعد ازاں معلوم ہو نے پر پروفیسر نے اپنی جیب سے خرید کر اُس نوجوان کے حوالے کر دیا جو وہ آئے روز کلاس کے دوران زیب تن کر کے آ تا رہا بالآ خر اُس نے 1939میں بی اے آ نر کر کے اپنے علاقے کا واحد گریجویٹ بن گیا قصہ مختصر اس نوجوان نے بی اے کر نے کے بعد باٹا پور کمپنی میں کلرک کی نوکری پر تعنیات ہو کر قانون کی ڈگری حاصل کر نے کیلئے لاء کرنے لگا جو 1946میں ایل ایل بی کا امتحان پاس کر کے 1950میں باقاعدہ پریکٹس کر نے لگا اس نوجوان میں خدمت خلق اور آگے بڑھنے کا بھوت سوار تھا جس کے لئے اس نوجوان نے علاقے کی عوام کی بہتری اور بھلائی کیلئے کئی تعلیمی ادارے قائم کیئے 1965میں مغربی پاکستان اسمبلی کا الیکشن لڑا اور کامیاب ہو گیا 1970میں پاکستان پیپلز پارٹی کے قائد ذوالفقار علی بھٹو کے نعرے روٹی کپڑا اور مکان سے متاثر ہو کر پاکستان پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر ایم این اے منتخب ہوا اور 1971میں پاکستان پیپلز پارٹی کے قائد ذوالفقار علی بھٹو کی کابینہ میں وزیر خوراک اور علاقہ جات بنا بعد ازاں پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کا وزیر اعلی بنا موصوف وزارت اعلی کے دوران اپنا پرائیویٹ سفر اکثر رکشے پر کرتا تھا موصوف کا اسی دوران تعلقات اپنے گورنر مصطفی کھر سے کشیدہ ہو گئے جس کی بناء پر موصوف نے استعفی دیکر ایک مثال قائم کر دی۔
موصوف بعد ازاں اقوام متحدہ میں پاکستانی وفد کی قیادت کی 1973سے لیکر 1976تک وفاقی وزیر قانون و پارلیمانی امور وزیر بلدیات کے علاوہ سپیکر قومی اسمبلی کے عہدے پر فائز رہا اور بالآ خر پاکستان کا وزیر اعظم بن گیا یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ موصوف اتنے بڑے عہدوں پر فائز رہنے کے باوجود لاہور میں لکشمی منیشن میں کرائے کے مکان میں رہائش پذیر رہا جس کے مکان کے دروازے پر نہ کوئی دربان تھا اور نہ ہی کوئی وی آئی پی سہولت یہاں تک کہ موصوف کی بیوی بھی وزارت عظبی کے دوران رکشوں اور ویگنوں میں سفر کرتی رہی بالآ خر اس عظیم ترین ہستی جیسے اکثر افراد معراج خالد کے نام سے جانتے ہیں 23مارچ 2003میں اس دنیا فانی سے اسی کرائے کے مکان سے رخصت ہو گئی جیسے تاریخ ہمیشہ یاد رکھے گی افسوس صد افسوس کہ آج اُسی ملک کے حاکمین جو ہیلی کوپٹر سے اتر کر اپنی گاڑی تک کا سفر قالینوں پر کرتے ہیں جو اپنے اپنے دور اقتدار میں ملک و قوم کی بہتری اور بھلائی کے اقدامات کر نے کے بجائے عوام کو ایک دوسرے کی لوٹ مار ظلم و ستم اور ناانصافیوں کے قصے سناتے ہیں اور تو اور ملک و قوم سے غداری کر نے میں مصروف عمل ہیں درحقیقت تو یہ وہ حاکمین ہیں جو لوٹی ہوئی دولت کے بل بوتے پر دوبئی جیسے ملکوں میں اپنے عیش و آ رام کیلئے اربوں روپے خرچ کر دیتے ہیں جبکہ اس کے بر عکس یہاں کی غریب عوام بھوک اور افلاس سے تنگ آ کر اپنی بچیوں کو فروخت کر نے کے ساتھ ساتھ جھونپڑیوں میں اذیت ناک زندگی کا سفر جاری رکھے ہوئے ہیں یہی کافی نہیں اگر ان حاکمین کو یا پھر ان کے اہلخانہ کو ذرا بھر بھی کوئی جسمانی تکلیف ہو تو یہ اپنا علاج معالجہ غیر ملکوں کے مہنگے ترین ہسپتالوں میں کرواتے ہیں۔
جبکہ اس کے بر عکس یہاں کی غریب عوام سرکاری ہسپتالوں میں بر وقت طبی امداد نہ ملنے کے سبب ایڑیاں رگڑ رگڑ کر بے بسی کی موت مر جاتی ہیں یقینا یہ وہ حاکمین ہیں جو اپنے غیر ملکی آ قائوں کی خوشنودگی کی خا طر ریمنڈ ڈیوس خون خوار درندوں کے ساتھ ساتھ گستاخ رسول جنہیں ہماری معزز عدالت سزائے موت کا حکم دے دیتی ہے کے تحفظ کے اقدامات کرنے سے بھی ذرا بھر دریغ نہیں کرتے جبکہ اس کے برعکس اس ملک کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو رہائی دلوانے میں آج تک قاصر ہیں در حقیقت تو یہ ہے کہ یہ وہ حاکمین ہیں کہ ان کی لوٹی ہوئی ملکی دو لت ستانوے ارب ڈالر سوئس بینکوں میں پڑی ہیں جبکہ اس کے بر عکس ہمارا ملک بھکاری ملکوں کی صف میں کھڑا ہے جبکہ یہاں کی عوام کا بچہ بچہ غیر ملکیوں کا مقروض بن کر رہ گیا ہے آپ یقین کریں یا نہ کریں لیکن یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ آج اس ملک کا ہر ادارہ خواہ وہ صوبائی ہے یا پھر وفاقی انہی حاکمین کے کالے کرتوتوں کی وجہ سے راشی افسران کی آ ماجگاہ بن کر رہ گیا ہے جہاں پر کسی غریب مظلوم کو عدل و انصاف ملنا بس ایک دیوانے کا خواب ہے اس کے بر عکس اس ملک کا پر آ شوب معاشرہ جو نفسا نفسی کا شکار ہو کر حرام و حلال کی تمیز کھو بیٹھا ہے ان حاکمین کی کامیابی پر بھنگڑا ڈالنے میں مصروف عمل ہے آ خر میں بس یہی کہوں گاکہ خداوندکریم نے ظالموں کا ساتھ دینے والوں کو بھی ظالم قرار دیا ہے۔