اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) کچھ کی رائے میں حریم کے ذریعے سیاست دانوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے جب کہ کچھ کی رائے میں یہ صرف شہرت پانے کا ایک حربہ ہے۔ لیکن اس تمام بحث کو کیا میڈیا درست انداز میں رپورٹ کر رہا ہے؟
پاکستان میں سوشل میڈیا ویب سائٹ ٹک ٹاک پر اپنی ویڈیوز شائع کرنے والی حریم شاہ آج کل خبروں میں ہیں۔ ان کی جانب سے مبینہ طور پر لیک کی گئی چند سیاست دانوں کی ویڈیوز نے انہیں پاکستانی میڈیا کی شہ سرخیوں میں شامل کیا ہوا ہے۔
حال ہی میں انتہائی معتبر اخبار، دی انڈیپینڈنٹ کی اردو ویب سائٹ پر حریم شاہ کا اصل نام، ان کی تاریخ پیدائش اور یہاں تک کے ان کے علاقہ مکینوں کے ان کے بارے میں تاثرات کو بھی شائع کر دیا گیا۔ اسی طرح سیاست ڈاٹ پی کے میں حریم شاہ کے شناختی کارڈ کی کاپی شائع کر دی گئی۔
ڈیجیٹل رائٹس کی ماہر نگہت داد نے اس موضوع پر ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا،”حریم شاہ کے معاملے میں دو الگ الگ پہلو ہیں۔ وہ مبینہ طور پر سیاست دانوں کی ویڈیوز کو ریلیز یا لیک کر رہی ہیں۔ اس بارے میں حتمی طور پر کہنا مشکل ہے کہ درحقیقیت ویڈیوز لیک کرنے والی حریم شاہ ہی ہیں کیوں کہ سوشل میڈیا پر ان کے کئی اکاؤنٹس ہیں۔ لیکن یہ عمل غیر قانونی ہے، پاکستانی قانون کے مطابق آپ کسی کی مرضی کے بغیر اس کی ویڈیو کو شائع نہیں کر سکتے۔‘‘
دوسری جانب نگہت کا یہ بھی کہنا ہے کہ حریم کی ذاتی معلومات کو لیک کرنا بھی بالکل غیر قانونی ہے۔ اس عمل سے لوگوں کو تشدد کی طرف اکسایا جا سکتا ہے اور شائع ہونے والی معلومات سے حریم کی زندگی کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ نگہت کہتی ہیں کہ حریم کو اس معاملے کی رپورٹ کرنے کا قانونی حق حاصل ہے۔
اسی موضوع پر ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے سینیئر خاتون صحافی غریدہ فاروقی کا کہنا تھا،”اس معاملے کو انتہائی حساسیت اور پیشہ ورانہ انداز میں رپورٹ کرنا چاہیے۔ حریم کے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ کی کاپی سوشل میڈیا پر شائع کی گئیں۔ یہ غیر ذمہ دارانہ عمل ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ صحافیوں پر بریکنگ نیوز دینے کا دباؤ ہے۔‘‘ غریدہ فاروقی کہتی ہیں کہ انہیں بہت افسوس ہوتا ہے جب لوگ کہتے ہیں کہ حریم شاہ یا ان کے ساتھ ویڈیوز بنانے والی صندل خٹک کا انجام قندیل بلوچ جیسا ہوگا۔ غریدہ نے کہا،” خدا نہ کرے کہ ایسا ہو۔ قندیل بلوچ میڈیا کا شکار بنیں۔ غیر اخلاقی رپورٹنگ نے ان کی زندگی کو خطرے میں ڈالا۔‘‘ غریدہ نے کہا کہ ان لڑکیوں کی سرگرمیوں کو رپورٹ کرنے سے تو کسی کو روکا نہیں جا سکتا لیکن ان لڑکیوں کے گھروں تک پہنچ جانا، ان کی شناخت ظاہر کرنا اور ان کے اہل محلہ سے گفتگو کرنا، ایک ایسا غیر ذمہ دارانہ رویہ ہے، جس سے ان لڑکیوں کی زندگیوں کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔
کیا حریم شاہ کا موازنہ قندیل بلوچ سے کرنا چاہیے ؟ انڈپینڈنٹ اردو سے منسلک صحافی ثاقب تنویر نے اس موضوع کی عمومی کوریج پر اپنی ذاتی رائے دیتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا ، ’’کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ پاکستان کا ماحول الگ ہے اور وہ قندیل بلوچ کی مثال دیتے ہیں مگر قندیل بلوچ کا معاملہ اس سے الگ تھا۔ کچھ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ قندیل کے قتل کا ذمہ دار میڈیا ہے مگر اس بات میں سچائی نہیں۔ قندیل میڈیا پر آنے سے پہلے سوشل میڈیا پر بھی مشہور تھیں۔ ‘‘ ثاقب کا کہنا ہے کہ حریم شاہ کا معاملہ قندیل بلوچ سے بالکل مختلف ہے۔ اس میں سیاست اور مبینہ طور پر بلیک میلنگ کا عنصر شامل ہے، اس معاملے میں وزیر اعظم کی مبینہ ویڈیو کا بھی ذکر آیا لہٰذا ابھی بھی اس معاملے میں کافی سوالات ہیں جن کے جواب آنا باقی ہیں۔
میڈیا میٹرز فار ڈیموکریسی کے شریک بانی اسد بیگ نے اس موضوع پر اپنی رائے دیتے ہوئے کہا،” کیا اگر کسی صحافی کی ذاتی معلومات کو شائع کر دیا جائے تو وہ درست ہو گا ؟ اگر نہیں تو پھر ایک پاکستانی شہری کی ذاتی معلومات کو کیوں شائع کیا گیا ہے؟ اسد بیگ کا کہنا ہے کہ جس انداز میں حریم شاہ کی ذاتی معلومات سے متعلق مضامین کو شائع کیا گیا ہے وہ غیر اخلاقی ہے خاص طور پر ماضی میں اس نوعیت کی رپورٹنگ سے لوگ اپنی زندگیاں گنوا بیٹھے ہیں۔
تاہم ثاقب کہتے ہیں، ”میری ذاتی رائے میں دنیا بھر کے معروف صحافتی ادارے مشہور شخصیات کی پروفائل کوریج کرتے ہیں اور لوگوں کو ان کے بارے میں تاثرات سے آگاہ کرتے ہیں۔ میا خلیفہ ہو یا ساشا گرے، معروف بین الاقوامی اخباروں نے ان کے بارے میں بتایا ہے کہ ان کا بیک گراؤنڈ کیا تھا اور مقامی لوگ ان کے بارے میں کیا خیال رکھتے ہیں۔ آپ ابھی گوگل پر جائیں تو آپ کو میا خلیفہ کے حوالے سے نیوز ویک اور دیگر اخباروں میں ان کی پروفائل کوریج ملے گی۔‘‘