سمٹے ہوئے ہیں آنکھ میں حسرت کے سلسلے صدمات ِماہ سال کی شِدّت کے سلسلے انسانیت کا روگ ہیں غربت کے سلسلے بکھری ہوئی ہیں چارسُو خوابوں کی کرچیاں سمٹے ہوئے ہیں آنکھ میں حسرت کے سلسلے دیکھے کوئی تو جادہء حُزن و ملال پر رسوائے صبح و شام کی ہجرت کے سلسلے عُقدہ کشانِ حشر سے کہدو کہ دیکھ لیں فاقہ کشوں کے شہر میں ذِلت کے سلسلے دیوانگانِ عشق کا رختِ نصیب ہیں راہِ صلیب و دار کی حُرمت کے سلسلے اُن کو نمودِ سحر کی آواز کہ جنہیں! ڈستے رہے ہیں آج تک ظلمت کے سلسلے ساحل سناں کی نوک پہ بھی چپ نہیں رہے کیا کیا رہے ہیں حرف و حکایت کے سلسلے