رخت سفر

چھوڑ کر مدینہ شبیر چل پڑا ہے کربلا کی طرف
اشکبار تھا مدینہ روانہ جب ہواہے کربلا کی طرف

مقتل کی نشانی لیے ہوئے برستے موتیوں کے ساتھ
فرمایا محبوب خدانے یہ ابتداء ہے کربلا کی طرف

سناجب پیغام یہ یزیدکا بیعت میری کرلو
کرکے انکارصاف صاف کہا یہ بلاواہے کربلاکی طرف

آخری ملاقات کرتے ہوئے یوں عرض کی ناناسے
نواسہ تیرااب دین بچانے کوچلاہے کربلا کی طرف

مستردکرکے گزارشیں اہل حرم کی حسین نے
کہنے لگے ہم نے رخت سفرباندھ لیاہے کربلا کی طرف

پڑھ رہے ہیں اہلبیت بہترختم قرآن کے ہررات
عظیم سے عظیم تر دیکھوقافلہ جارہاہے کربلا کی طرف

غمگین کرتی ہیں آج بھی ہمیں کربلاکی یادیں
کچھ کم نہیں فاصلہ صدیوں کاہے کربلاکی طرف

بخش دے گاضروراس کوخداگارنٹی ہے صدیق
حسین کے غم میں آنسو جس کا گرا ہے کربلا کی طرف

 Karbala

Karbala

کلام: محمد صدیق پرہار