حضرت عمر بن عبد العزیز کا فرمان ہے کہ ”جب کسی شخص پر ظلم کرنے کا سوچو تو یہ خیال رکھنا کہ اللہ کو تم پر کتنی قدرت حاصل ہے۔ یاد رکھو جو آفت تم لوگوں پر مسلط کرو گے وہ ان پر ایک نہ ایک دِن ٹل جائے گی لیکن جو آفت تمہارے نامہ اعمال میں لکھ دی جائے گی وہ نہیں ٹلے گی۔ یاد رکھو اللہ تعالیٰ ظالموں سے مظلوموں کا حق لے کر رہے گا”۔ ایسا ہی کچھ معاملہ اسرائیل کے سابق وزیراعظم ایریل شیرون کے ساتھ بھی پچھلے کئی سالوں سے درپیش ہے۔
اسرائیل کو عظیم تر بنانا ان کا مشن اور فلسطینیوں کا قتل عام ان کا ہمیشہ سے ہی شغل رہا ہے۔ وہ اسرائیل کے وزیر دفاع بھی رہ چکے ہیں اور فلسطینی عوام کے خلاف اپنی تباہ کُن پالیسیوں کی وجہ سے انہیں اسرائیل میں بلڈوزر کے نام سے جانا جاتا ہے۔ لبنان میں پناہ گزینوں کے کیمپوں پر حملے کرکے تباہی مچانے کے باعث عالمی سطح پر ان کی شہرت ہوئی اور ان کی شخصیت کھل کر سامنے آ گئی۔ عالمی برادری نے ان کی اس غیر انسانی کارروائی کی شدید مذمت کی تاہم اسرائیل میں وہ پہلے سے زیادہ پسند کیے جانے لگے۔ بعد ازاں ایریل شیرون نے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں غیر قانونی یہودی بستیوں کی وجہ سے شہرت پائی۔ انہی ”خدمات” کی بدولت 2001ء میں انہیں اسرائیل کا وزیراعظم منتخب کیا گیا۔
Israel
وزیراعظم بننے کے بعد ایریل شیرون نے پھر اپنے اسرائیلی عوام کو خوش کرنے اور اپنے جذبات کی تسکین کیلئے فلسطینی مزاحمت کے خلاف ایک خوفناک کریک ڈائون شروع کیا۔ اس کریک ڈائون کے دوران کم از کم تین ہزار فلسطینی شہید ہوئے لیکن 2005ء میں ان کی حکمت عملی میں ڈرامائی تبدیلی آئی اور انہوں نے غزہ کی پٹی میں پچھلے اڑتیس سال سے موجود اسرائیلی قابض فوج کو واپس بلا لیا اور اس علاقے میں قائم غیر قانونی یہودی بستیاں بھی ختم کر دیں۔
یہ فیصلہ اسرائیل کے مجموعی مزاج اور خود شیرون کے اپنے رحجان کے بھی برعکس تھا لہٰذا اس پر سخت ردِعمل ہوا اور خود ان کی اپنی جماعت لیکوڈ پارٹی میں ناراضگی کا باعث بنا۔ اسی ماحول میں انہیں کچھ عرصہ گزرنے کے بعد برین ہیمرج کے نتیجے میں کومے میں جانا پڑا۔ وہ گزشتہ آٹھ برسوں سے کومے کی حالت میں ہسپتال میں زیرِ علاج ہیں۔ صیہونی حکومت نے ایریل شیرون کی زندگی کو بچانے کے لیے ہر سال کئی ملین ڈالر خرچ کیے جس کا تخمینہ سالانہ چار سو چالیس ملین ڈالر بتایا جاتا ہے۔
ایریل شیرون کی حالت تقریباً دو ہفتے قبل اس وقت زیادہ خراب ہو گئی جب ان کے گردوں اور بعض دیگر اعضاء نے کام کرنا چھوڑ دیا۔ ڈاکٹروں نے بھی عملاً شیرون کی زندگی سے مایوسی کے اشارے دے دیئے ہیں اور اب دہشت کی علامت سمجھا جانے والا شیرون قریب المرگ ہے۔ موت زندگی کی سب سے بڑی حقیقت ہے مگر انسان اسے بھولے رہتا ہے۔ اس کی صحت، طاقت، دولت اسے اس غلط فہمی میں ڈال دیتی ہے کہ کبھی اس کی پکڑ نہیں ہوگی۔ وہ زندگی بھر شیرون اور فرعون بن کر جیتا ہے۔
وہ لوگوں پر ظلم کرتا ہے۔ رب کی نافرمانی کرتا ہے مگر ایک روز اللہ تعالیٰ اس کی مہلتِ عمر سلب کرتے ہیں اور وہ ایک حقیر چوہے کی طرح موت کے شکنجے میں جکڑا جاتا ہے۔ اس وقت وہ سراپا عجز بن جاتا ہے مگر اس وقت کا عجز بے معنی ہے۔ اس وقت کی توبہ بے معنی ہے۔ عقلمند انسان وہ ہے جو اس بات کو زندگی میں سمجھ لے وگرنہ موت کی بے کسی ہر کسی پر طاری ہونی ہے۔ موت ہر فرعون کا انجام ہے۔ موت ہر شیرون کا انجام ہے۔