شیخ مجیب کی بیٹی حسینہ واجد نے عبدالقدر ملا کو پھانسی پر لٹکا کر ایک ایسی خاموش غلطی کی ہے۔ جو قوم کو منقسم کرنے اور پاکستان و بنگلہ دیش کے درمیان نفرت کی ایک مستقل اور لکیر لگا دی ہے۔
جماعت اسلامی کے رہنما کو پوکستقان کی حمایت کے الزام میں 42 سال بعد سولی پر چڑھانے کا نتیجہ بنگلہ دیش میںبڑا بھیانک نکلا۔ ملک کے طو و عر ض میں جیلاؤ گھیرو اور احتجاجی مظاہروں کا سیلاب آ گیا۔
دیسی ساحت کے بمبوں سے بعض شہر گونج اٹھے۔ جھڑپوں کے دوران پانچ افراد جان کی بازی ہار گئے۔ حکمران جماعت عوامی لیگ کے سیاسی ) stant (کے بارے کا اظہار سامنے آنے میں دیر نہیں لگی تاہم یہاں ایک سوال علادہ بھی کیا ہے۔
پاکستان سے وفاداری کے صلے میں موت کی سزا سنائی جاچکی ہے۔ یہ معاملہ آگے تک جائے گا۔ ایک نام نہاد ٹریبونل جس کی حیثیت (credebility)پر انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں سوالیہ نشان ثبت کر چکی ہے۔
عبدالقادر مُلا پر الزام تھا کہ وہ جماعت اسلامی کی زیلی عسکری تنظیم البدر کے رُکن تھے اور 200 سے زیادہ بنگلہ دیشی دانشواروں کے اغوا اور قتل میں ملوث تھے۔ مُلا کو جنگی جرائم پر پہلے عمر قید کی سزا سنائی گئی تا ہم بعد میں عمر قید کو پھانسی میں تبدیل کر دیا گیا۔
عبدالقادر مُلا نے ماسٹرز کیا تھا۔ وہ صحافت سے وابسطہ رہے۔ اُنہوں نے امنے اُپر عائد الزامات کے ھمیشہ تردید کی تھی۔ اُن کی پھانسی کے بعد پاکستان میں نماز جنازہ اور مظاہرے ہوے۔ عوامی لیگ کی سربراہ شیخ حسینہ نے انتخابات میں وعدہ کیا تھا۔ کہ اقتدار میں آنے کی صورت میں وہ 71 کی جدوجہد میں جن لوگوں نے پاکستان آرمی کا ساتھ دیا تھا۔ اُن کو عبرت ناک سزائیں سُنائی جائیں گی۔
Sheikh Mujibur Rahman
بادی النظر میں دیکھا جائے تو 71 میں نیشلسٹ موومنٹ آف بنگلہ دیش کے رہنما شیخ مجیب الرحمن پاکستانی آرمی کے خلاف بھارت سے گٹھ جوڑ کیا اور پاکستان کے حمایتوں کو قتل وغارت کا نشانہ بنایا۔
اور انارکی کی فضا پیدا کی جبکہ موجودہ عوامی لیگ نے انڈین لابی کو خوش کرنے کیلئے جماعت اسلامی کے اہم رہنما کو 42 سال بعد پھانسی دیکر گھڑے مردے اُکھاڑنے کی کوشش کی۔ انتہائی سخت سکیورٹی کے باوجود مُلا کو پھانسی کے حق اور مخالفت میں احتجاجی مظاہروں کے باعث بنگالی عوام دو حصوں میں بٹ گئے ہیں۔
عبدالقادر مُلا کی پھانسی کو بنگلہ دیش کے سیاسی منظر نامے کے حوالے سے دیکھا جائے تو جماعت اسلامی خالدہ ضیا کی جماعت BNP کے اپوزیشن اتحاد کا حصہ ہے۔ بی این پی کو کسی حد تک پاکستان کے لیے نرم گوشہ رکحنے والی جماعت سمجھا جاتا ہے۔
عوامی لیگ اور بی این پی کی مخالفت اور بھارت کو خوش کرنے کے لیے جماعت اسلامی کو نزک پہنچائی۔ جماعت اسلامی بنگلہ دیش میں الیکٹورل پارٹی نہیں لیکن اسکی سٹریٹ پاور بہت جاندار ہے۔ جو آگے چل کر بنگالی حکومت اور سکیورٹی اداروں کے لیے مسائل کھڑے کر سکتی ہے۔
سبدالقادر کی پھانسی نے بنگلہ دیش میں پہلے سے کشیدہ حالات کو مزید پچیدہ بنا دیا ہے۔ بی این پی جماعت اسلامی دیگر اتحادی پارٹیاںاگلے ماہ ہونے والے قومی انتحابات کے بائیکاٹ کابہی اعلان کر دیا ہے۔
عبدالقادر مُلا کی پھانسی پر پاکستان فارن آفس نے محتاط ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کے پاکستان کسی بھی ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی پالیسی پر یقین نہیں رکھتا تاہم ہم بنگلہ دیش میں ہونے والے اُتار چڑھاو پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں اسکے برعکس وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی نے بنگلہ دیش کے اس اقدام کو انتہائی افسوس ناک اور المناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ مُلا کو پاکستان سے وفاداری پر پھانسے دی گئی۔ ماکستانی موقف کچھ بھی ہو حسینہ واجد کے اس فیصلے سے بنگلہ دیش چل رہا ہے۔ بنگلہ دیش نے پاکستان سے نفرت میں اپنا ہی گھر جلا ڈالا۔