تحریر : محمد اشفاق راجا پاکستان کو دو ملکوں میں تقسیم کرنے کے ایک مرکزی کردار شیخ مجیب الرحمن کی صاحبزادی بنگلہ دیش کی وزیراعظم حسینہ واجد نے کہا ہے کہ ان پر بہت دباؤ ہے کہ پاکستان سے سفارتی تعلقات ختم کردیئے جائیں اس کے ساتھ ہی انہوں نے بھارت کا شکریہ ادا کیا کہ بھارتی کوشش اور تعاون سے بنگلہ دیش بن سکا، اس سے پہلے بھارتی وزیر اعظم مودی بھی اقرار کر چکے ہیں، ہر دو وزرائے اعظم کے بیانات سے بالکل واضح ہوتا ہے کہ بھارت نے 1971ء اور اس سے پہلے کیا کردار ادا کیا تھا، نہ صرف مکتی باہنی کو بھارت میں بنایا اور تربیت بلکہ خود اپنی افواج سے بھی مشرقی پاکستان کی بین الاقوامی سرحدپر حملہ بھی کیا، جہاں تک حسینہ واجد کے حالیہ بیان کا تعلق ہے تو جس دباؤ کا انہوں نے ذکر کیا یقیناًیہ بھی بھارت کی طرف سے ہے کہ نریندر مودی کی حکومت حالیہ کشیدگی کے ماحول میں ہر وہ حرکت کررہی ہے جس سے پاکستان متاثر ہو اور دنیا کی توجہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم سے ہٹی رہے جہاں ابھی تک کرفیو ہے، کشمیری اپنی جدوجہد کررہے ہیں اور ان کو پیلٹ گنوں کا شکار ہونا پڑتا ہے۔
بھارتیہ جنتا پارٹی نے جو ماحول بنایا اس کی وجہ سے بھارت کے عام شہریوں کی حد تک بھی پاکستان دشمنی پہنچ گئی اور اب تو انتہا پسندوں ہی کا عمل دخل ہے جنہوں نے بھارت کی فلمی دنیا میں کام کرنے والے پاکستانی فن کاروں کو دھمکیاں دیں اور ان کو بھارت سے نکل جانے پر مجبور کیا، اب نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ جن فلموں میں پاکستانی فن کاروں نے کام کیا، سینما مالکان نے وہ فلمیں سینماؤں میں لگانے سے انکار کردیا ہے، ایک فلم جس کی نمائش جاری تھی ، چار ریاستوں میں بند کر دی گئی ہے۔
اس پر طرہ یہ کہ بھارتی وزارت داخلہ نے کہا بھارت نے کسی پر ویزا کی پابندی نہیں لگائی، جو بھی پاکستانی فنکار شرائط پر پورا اْترے گا اس کو ویزا جاری کردیا جائے گا یہ چانکیہ سیاست ہے کہ کشیدگی اور تعصب کا ماحول پیدا کر کے انتہا پسندوں کو کھلی چھٹی دے دی گئی اور یوں عوام سے عوام کے رابطے بھی ختم کردیئے گئے اس پر دنیا کو دکھاوے کے لئے ایسے بیان جاری کئے جاتے ہیں جس انتہا پسندی کے مظاہرے بھارت میں ہو رہے ہیں ، ایسا ہوتے ہوئے کون ویزا لے کر کام کرنے جائے گا؟۔
Jamaat e Islami
اب رہ گئی حسینہ واجد کی بات تو وہ خود بھارت کے تعاون اور امداد کا ذکر اور شکریہ ادا کر چکی ہیں، پاکستان سے ان کو تکلیف یہ ہے کہ وہ جماعت اسلامی کے زعماء کے خلاف جنگی جرائم کے تحت مقدمات چلا کر پھانسیاں دلا رہی ہیں، پاکستان کی طرف سے بجا طور پر ان کو یاد دلایا گیا کہ پاکستان ،بھارت اور نوزائیدہ بنگلہ دیس کے درمیان یہ سہ فریقی معاہدہ ہوا تھا کہ کسی کے خلاف مقدمات نہیں چلائے جائیں گے اور بھارت کی سرزمین پر جنگی قیدیوں کے طور پر زیر حراست قیدی بھی کسی مقدمے کے بغیر ہی واپس آئے تھے لیکن حسینہ واجد بضد ہیں اور اپنا کام کئے جارہی ہیں، پاکستان کا احتجاج بنتا ہے اور یہ کیا گیا جس کا جواب سفارتی تعلقات ختم کرنے کی دھمکی سے دیا گیا ہے، یہ لمحہ فکر یہ ہے ان پاکستانی تاجروں اور صنعتکاروں کے لئے جنہوں نے اپنے ملک سے پیسہ نکال کر بنگلہ دیش میں صنعتیں لگا رکھی ہیں اور ترقی میں معاون ثابت ہو رہے ہیں۔
پاکستان کو اپنی سطح پر دنیا کے سامنے یہ سب حالات رکھنا چاہئیں، بھارت اور بنگلہ دیش کی وزیر اعظم کی پاکستان دشمنی اجاگر کرنا چاہیے تاکہ دنیا کو معلوم ہو کر بھارت کا اصل چہرہ کیا ہے اور بنگلہ دیش کی وزیر اعظم حسینہ واجد کس حد تک بھارت نواز ہیں۔ یہ حالات ہیں جن کے دوران چین پاکستان کے ساتھ تعاون کے لئے کافی دور تک آچکا اور اس کی طرف سے بھارت کی راہ میں رکاوٹیں بھی پیدا کی گئی ہیں اب بظاہر جنگی جنون میں کمی نظر آرہی ہے لیکن نیت اور ارادے ابھی بھی درست نہیں ہیں، مودی ہر سمت سے پاکستان کو نقصان پہنچانے پر تلا ہوا ہے، اور ہم ہیں کہ کالا باغ ڈیم کو متنازعہ بنا کر اب سی۔پیک کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں، تحریک انصاف کے وزیر اعلیٰ برائے خیبر پختونخوا مغربی روٹ کا نام لے کر مخالفت کر اور دھمکیاں دے رہے ہیں، اور تو اور محترمی اسفند یار ولی خان بھی کالا باغ ڈیم کی مخالفت جیسا رویہ اپناتے چلے جارہے ہیں، ایسے میں حکمرانوں کو اندازہ کیوں نہیں ہو رہا۔
سی۔پیک کی حمائت تو کی جارہی ہے لیکن معترض حضرات کو سمجھایا نہیں جارہا وزیر اعلیٰ کے پی کے مسلسل اعتراض اور مخالفت کررہے ہیں، حکومت کو بریفننگ کا اہتمام کرنا چاہیے اور معترض حضرات کے اعتراض سن کر ان کو حل کرنا یا ان حضرات کی تسلی کرانا ضروری ہے، سی۔ پیک کی رکاوٹیں دور کرنے کے ذہین کام کرنے والے اور ماہرین کی ضرورت ہے، عجلت پسندی کا مظاہرہ کر کے کالا باغ ڈیم جیسا ماحول نہ پیدا کریں کہ اب تو بھارت کی آبی جارحیت کے پیش نظر کالا باغ بھی بنانا ہوگا۔