دبئی (اصل میڈیا ڈیسک) دس سال پہلے ویسٹ انڈیز کے جزیرے سینٹ لوشیا میں آسٹریلوی مائیکل ہسی نے سعید اجمل کو چھکے مار کر پاکستان کے خلاف آسٹریلیا کو سیمی فائنل میں حیران کن فتح دلائی تھی۔
میچ ختم ہونے کے چند گھنٹے بعد میں نے سینٹ لوشیا کے ساحل پر کپتان شاہد آفریدی اور عبدالرزاق کو غم میں بے سدھ اور غم سے نڈھال لیٹے ہوئے دیکھا اور ان سے بات نہیں ہور پارہی تھی۔
دس سال بعد دبئی کے صحرا میں میتھیو ویڈ، مائیکل ہسی کے روپ میں نظر آئے۔ میچ کا غالباً سب سے اہم لمحہ 19ویں اوور میں آیا جب شاہین آفریدی، جنھوں نے اس وقت تک تین اوور میں صرف 13 رنز دیے تھے ان کے اوور کی تیسری گیند پر میتھیو ویڈ نے اونچا شاٹ کھیلا جو مڈ وکٹ پر حسن علی کی طرف گیا۔
پاکستان نے اس وقت تک ورلڈکپ میں صرف ایک کیچ چھوڑا تھا اور پورے ٹورنامنٹ میں ان کی فیلڈنگ کا معیار بہت عمدہ رہا ہے لیکن اس کڑے وقت میں حسن علی اپنے اعصاب پر قابو نہ رکھ سکے اور پریشانی میں ہاتھوں میں آئی ہوئی گیند ان کے ہاتھ سے نکل گئی، یہی میچ کا لمحہ تھا جس نے پاکستان کو ٹرافی سے محروم کردیا۔
اس کے بعد اگلی تین گیندوں پر میتھیو ویڈ نے پاکستان کے بہترین بولر شاہین آفریدی کے ساتھ وہ کیا جو 2010 کے ورلڈ کپ کے دوسرے سیمی فائنل میں مائیک ہسی نے پاکستان کے اس وقت کے بہترین بولر سعید اجمل کے ساتھ کیا تھا، یعنی کہ تین چھکے۔
ویڈ نے17گیندوں پر 41 نا قابل شکست رنز بنائے جس میں چار چھکے اور دو چوکے شامل تھے۔ان کی ناقابل یقین اننگز اور ساتھی مارکس اسٹوئنس کی 31 گیندوں پر 40 رنز کی اننگز کی بدولت آسٹریلیا اب فائنل میں پہنچ گیا ہے جہاں اتوار کو وہ نیوزی لینڈ کے خلاف میچ کھیلے گا۔
آسٹریلیا نے ثابت کیا کہ اس کے سامنے کسی بھی قسم کی صورتحال ہو اور کوئی بھی ٹیم ہو اور دنیا کو کوئی بھی میدان ہوا سے ہرانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔
مضبوط اعصاب والی آسٹریلوی ٹیم نے مشکل دکھائی دینے والی جیت کو آسان کرکے فائنل میں کھیلنے کا اعزاز حاصل کر لیا۔ پاکستانی کھلاڑیوں نے میچ بنایا لیکن حسن علی نے پلیئر آف دی میچ میتھیو ویڈ کا کیچ ڈراپ کرکے بولروں کی محنت پر پانی پھیر دیا۔
ورلڈ کپ میں حسن علی کی کارکردگی خراب رہی ہے۔سیمی فائنل میں ان کے چار اوورز میں 44رنز بنے۔ وہ اپنی بولنگ کے غم میں تھے کہ باونڈری پر انہوں نے آسان کیچ چھوڑ دیا اور پاکستان کو ورلڈکپ سے دور کردیا۔
ایسی صورتحال میں شاہین شاہ آفریدی نے ہوش کے بجائے جوش سے بولنگ کی اور میتھیو دیڈ نے شاہین کی تین گیندوں پر تین چھکے مارکر مشکل دکھائی دینی والی فتح کو آسان کردیا۔
دبئی میں ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ سیمی فائنل میں177رنز کے ہدف کے تعاقب میں جب پاکستان نےگیارہویں اوور کی پہلی گیند پر پانچویں وکٹ حاصل کی اس وقت آسٹریلیا کا اسکور 96 رنز تھا اور اسے 59گیندوں پر مزید81رنز کی ضرورت تھی۔
آسٹریلیا کے مین اور خطرناک بیٹسمین آوٹ ہوچکے تھے۔ 33سالہ وکٹ کیپر میتھیو ویڈ نے پر سکون انداز میں بیٹنگ کی اور اپنی ٹیم کو جیت دلوا دی۔
ویڈ کہتے ہیں کہ دنیا میں سب سے مضبوط کرکٹ سسٹم آسٹریلیا ہے، آسٹریلیا نے ثابت کر دکھایا کہ بڑے میچوں میں اسے ہرانا آسان کام نہیں ہے، ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں دبئی کے میدان میں آسٹریلیا نے پاکستان کو انتہائی سنسنی خیز مقابلے کے بعد پانچ وکٹوں سے شکست دے دی اور اتوار کو نیوزی لینڈ کے خلاف فائنل میں جگہ بنالی۔
اس جیت کے ساتھ آسٹریلیا نے ورلڈکپ کے ناک آؤٹ مرحلوں میں پاکستان کے خلاف جیت کا ریکارڈ برقرار رکھا، پاکستان کی اس ٹورنامنٹ میں فیلڈنگ بہت اچھی رہی ہے، سیمی فائنل میں حارث روف کا کیچ شاندار تھا، شاداب خان کا اسپیل بھی مدتوں یاد رہے گا لیکن پاکستانی ٹیم کی جیت کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا۔
ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں بابر اعظم کی کپتانی میں پاکستانی ٹیم نے گروپ میچوں میں غیر معمولی کارکردگی دکھائی، بھارت جیسی ٹیم کو دس وکٹوں سے شکست دے کر بڑا اپ سیٹ کردیا، بھارت کے خلاف شاہین شاہ کا بولنگ اسپیل مدتوں یاد رہے گا پھر بابر اعظم اور محمد رضوان کی بیٹنگ نے بھارتی غرور کو خاک میں ملادیا۔
نیوزی لینڈ کے خلاف حارث روف کا بولنگ اسپیل،افغانستان کے خلاف آصف علی کے چھکے بھی شائقین نہیں بھول سکیں گے، اسکاٹ لینڈ کی کمزور ٹیم کے خلاف شعیب ملک نے 18گیندوں پر تیز ترین نصف سنچری بنائی۔
مجموعی طور پر پاکستانی ٹیم نے اچھی کارکردگی دکھائی اور تمام چھ میچوں میں گیارہ کھلاڑی ہی کھلائے، ٹورنامنٹ سے قبل ہیڈ کوچ مصباح الحق اور وقار یونس کے استعفی کے باوجود عبوری مدت کے لئے آنے والے ثقلین مشتاق نے ٹیم کا ماحول بہت اچھا رکھا جس کی آسٹریلوی بیٹنگ کنسلٹنٹ میتھیو ہیڈن بھی تعریف کئے بغیر نہ رہ سکے۔
ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کا سفر ختم ہوا، پندرہ دن تک پاکستانیوں کو خوشیاں دینے والی ٹیم فائنل میں جگہ بنانے میں ناکام رہی۔ نئے چیئرمین رمیز راجا کو اب ٹیم کو مزید مضبوط بنانے کے لئے کچھ سخت فیصلے کرنا ہوں گے۔
ٹیم نے اپنی قابل فخر کارکردگی سے ثابت کردیا کہ اس میں بہتری کی گنجائش ہے لیکن اسے پروفیشنل انداز میں چلانے کی ضرورت ہے، تم جیتو یا ہارو ہمیں تم سے پیار ہے!شاباش ٹیم پاکستان۔