تحریر : وقار احمد اعوان کیا جی ۔اکثر اخباروں میں دیکھنے کوملتا ہے کہ فلاں سیاسی رہنما اپنے علاقے کے لوگوںکو پارٹی میں شمولیت پر ٹوپیاں پہنا رہاہے ۔یہاں ٹوپیاں صرف پارٹی میںشمولیت کی نشانی بھی تصورکی جاسکتی ہیں مگر ٹوپی پہنانا ذ ر ا تہذیب کے دائرے میں آتا دکھائی نہیں دیتا ،جیسے فلاں فلاں شخص نے فلاں کو ٹوپی پہنا دی یعنی فلاں نے فلاں کو بے وقوف بنادی یا پھر اُلو بنا دیا وغیرہ وغیرہ۔۔خیر یہ تو سوچ پر منحصر ہے کہ کون کیا سوچتا ہے ا ورکیسے سوچتا ہے؟کیونکہ ہمیں پہلے کمبل اوڑھ کر لوٹ لیا جاتاتھا جبکہ آج کل بغیر کمبل ہی لوٹنے کا سلسلہ رواں دواں ہے۔جیسے خیبرپختونخوا میںایک روایت مشہور ہے کہ ایک کسان بیل لینے کیلئے شہرکی مال منڈی روانہ ہوا،ان دنوں چونکہ تانگے یا بیل گاڑیاںسفر کے لئے مستعمل تھیں اس لئے کسان بے چارہ نے بھی ایک بیل گاڑی میں اپنا سفر شروع کیا۔سردیوں کا موسم تھا ،اللہ کا کرنا کچھ یوں ہواکہ کسان کی راستے میں ایک با اخلاق نوجوان سے ملاقات ہوئی ،نوجوان نے بوڑھے کسان پر ترس کھا کر کمبل بزرگ کے سامنے کردیا ،کسان نوجوان کے اس اقدام سے بہت خوش ہوا اور خوشی خوشی کمبل اوڑھ لیا۔
باتوںباتوںمیں سفر اپنے اختتام کو پہنچا ،کسان بیل گاڑی سے اُترااور شہر کے وسط میں واقع مال منڈی جاپہنچا ،وہاں پہنچ کر کیا دیکھتا ہے کہ اس کی جیب کسی نے کاٹ لی ہے تب اسے خیال آیا کہ راستے میں خوش اخلاق نوجوان نے اپنے کمبل کی آڑ میںایسا کرڈالا ہے،مرتا کیا نہ کرتا کسان بے چارہ واپس گھر کی اورلوٹا۔۔چند مہینوں بعد کسان نے پھر سے کچھ پیسے جمع کئے اوربیل خریدنے منڈی کا رخ کیا،اب کی بار کسان ٹھان چکا تھا کہ کسی بھی کمبل والے سے دور رہنا ہے۔ لیکن یہ کیا ،کسان اب کی بار جو منڈی پہنچا تو کیا دیکھتا ہے کہ اس کی جیب پھر سے کٹ چکی ہے،تب اسے خیال آیا کہ اس کا ہمسفر بغیر کمبل والا نوجوان تھا جس نے بڑ ے ماہرانہ اندازسے اس کی جیب کاٹ لی تھی۔
ابھی اس واقعہ کو کچھ ہی دن گزرے تھے کہ کسان کے گائوںمیں ایک سیاسی جلسہ چل رہاتھا ،کسان کو بھی د عوت ملی ،چنانچہ وہ جلسہ گاہ پہنچ گیا،وہاں پہنچ کر اس نے دیکھا کہ جلسہ سے خطاب کرنے والا پچھلے سیاستدانوںکو کوس رہاہے تب کسان نے کھڑے ہوکر اس نے پوچھا کہ جناب انہوںنے کمبل میں لوٹا آپ بغیر کمبل کے ہمیں لوٹ لیںحساب برابر ہوجائے گا۔جلسہ گاہ میںموجود ہر شخص کسان کی بات پر حیران تھاتب اس نے سارے مجمعے کو اپنی روداد سنائی ۔اورساتھ یہ بھی سبق دیا کہ کبھی ہمیں کمبل والے لوٹ جاتے ہیں تو کبھی بغیر کمبل والے۔اب مذکورہ وا قعے کو اپنے سامنے رکھتے ہوئے ملک خداداد کے حالات پر بھی ایک نظردوڑالی جائے کہ اس میں ہر آنے والا اپنے اپنے طریقے سے عوام کو لوٹنے اور خاص طورسے بے وقوف بنانے کی حتی الوسعٰی کوشش کرتا نظرآتاہے۔
Election
پہلے پہل عوام کو سبز باغ دکھائے جاتے تھے،عوام بے چارے جیسے ملک میں ایمانداروںاورمخلص قیادت کی قحط سالی چل رہی ہو ”بلی کو اپنے سامنے دیکھ کر کبوتر کی طرح آنکھیں بندکرلیتے ہیں”اورپھر سے وہی چورسپاہی کا قصہ شروع ہوجاتاہے ۔اسی چھپا چھپی میں پانچ سال گزر جاتے ہیں ،سیاستدان موسمی کھمبی کی طرح نظرآنا شروع ہوجاتے ہیں،اِدھر انتخابات ختم ہوئے اُدھر فصلی بٹیرے ٹھنڈی چھائوں میں بیٹھے لمبی تان کر سوجاتے ہیں۔اورایک بار پھرسے ٹوپیاں پہنانے کا موسم دیکھنے کوملتا ہے۔کیا جی ۔۔آخر ہم کب اتنے سمجھدار کہلائیں گے؟کب ہم ہوش کے ناخن لیں گے ؟مگر جناب ایک بات تو ضرور کہنے والی کہ اگرکوئی وزیر یا ایم این اے ، ایم پی اے ہمیں آکر ٹوپی پہنا جائے تو ہم تو مارے خوشی کے پاگل ہوجائیں،بس ان کے ساتھ ایک پیاری سی فوٹو ہوجائے اورپھر سوشل یا پرنٹ میڈیاکی زینت بن گئی۔کئی کئی ہفتوںتک لوگوںکو دکھاتے پھریںگے کہ فلاں منسٹر ،ایم این اے یا ایم پی اے ہمیں فلاں دن فلاں جگہ ٹوپی پہنا گیا ہے۔حالانکہ ہم یہ بخوبی جانتے ہونگے کہ ٹوپی پہنانے والے کون کونسے دعوے کرکے گئے تھے ،انہیں کیا کرنا چاہیے تھا اور وہ کیا کرکے پانچ سال ضائع کرگئے۔
جیسے پاکستان تحریک انصاف صوبہ خیبرپختونخوا میں خیالی تبدیلی لاکر آئندہ انتخابات کے لئے لوگوںکوٹوپیاں پہنارہی ہے ،اسی طرح دیگر سیاسی جماعتیں اللہ جانے کس منہ سے لوگوں کو ٹوپیاں پہنا رہی ہیں۔ شاید انہوںنے ماضی میں پاکستان یا صوبہ بدل ڈالا ہو،یاپھر آئندہ ملک کی تقدیر بدلنے کا عزم رکھتے ہوں،اللہ ہی بہتر جانتاہے کہ ان کا مقصد کیا ہے؟ہم نے صرف تو ٹوپیاں پہننی ہیں چاہے وہ کسی بھی سیاسی جماعت کی ہو۔نیلی ہو یا سفید،کالی ہو سرخ،سبزیا جامنی بس نام اس کا ٹوپی ہونا چاہیے۔ہمیں باقی کسی سے کیا غرض یا مطلب ۔اوراسی لئے شاید ہم آج تک اپنے لئے ایماندار قیادت کا انتخاب کرنے سے قا صررہے ہیں،ورنہ تو ملک خداداد میںجہاں وسائل کی بھرمار ہے وہاں ایماندا رقیادت کا فقدان بھی نہیں لیکن انہیں ڈھونڈنے کون ؟سامنے کون لائے انہیں اسمبلیز تک کون پہنچائے ؟کون انہیں بتائے کہ آپ نے اس ملک کی تقدیربدلنی ہے ؟آپ نے اس ملک وقو م کا بیڑا پا ر لگانا ہے۔
آپ ہی سب کچھ کرسکتے ہو اور آ پ ہی کی بدولت پاکستان اور اس کا باسی روشن اورتابناک مستقبل دیکھ سکتا ہے۔اس لئے جناب صرف ٹوپیاں پہننے پر انحصارچھوڑدیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ٹوپی پہنانے والے کو بھی اچھی طرح جان اورپہچان لیں کہ آیا ٹوپی پہنانے والا اہل اور ایماندار ہے بھی یا صرف آپ کو ٹوپیاںہی پہنا رہاہے۔ا س لئے وقت سے پہلے جاگ جائیں اور اپنی قیادت کا انتخاب خود کریں تاکہ آپ کی آئندہ نسلیں آپ پر فخر کرسکیں۔