کراچی (اصل میڈیا ڈیسک) کراچی میں کورونا وائرس سے پریشان شہریوں کے لیے ہیٹ ویو کی پیشگوئی نے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ ملک کے کمزور نظام صحت میں اتنی سکت نہیں کہ کورونا وائرس کے ساتھ اور کسی بڑی ناگہانی آفت کا بوجھ اٹھا سکے۔
ملکی محکمہ موسمیات نے آج سے 8 مئی تک ہیٹ ویو الرٹ جاری کیا ہے۔ اس دوران 5 تاریخ کو کراچی کا درجہ حرارت 42 ڈگری اور 6 اور 7 مئی کو 43 ڈگری سینٹی گریڈ تک ہونے کا امکان ہے۔
محکمہ موسمیات کراچی کے ڈائریکٹر سردار سرفراز نے ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے بتایاکہ کراچی کا درجہ حرارت گزشتہ کئی ہفتوں سے 35 سے 36 ڈگری سینٹی گریڈ ہے اور ہوا میں نمی کا تناسب بھی زیادہ ہے، تاہم آئندہ تین سے چار روز درجہ حرارت 40 ڈگری سے بڑھتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔
کراچی سمیت سندھ کے دیگر شہروں میں بھی شدید گرمی کی لہر ہے۔ جیکب آباد، دادو اور لاڑکانہ میں پارہ چالیس ڈگری سے اوپر چلا گیا ہے۔ ساتھ ہی بلوچستان میں بھی گرمی کا راج ہے۔ تربت میں تینتالیس ڈگری سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا گیا۔ سبی، چھور اور لسبیلہ میں پارہ بیالیس تک پہنچ گیا جبکہ بالائی پنجاب، خیبر پختونخوا اور گلگت بلتستان میں بارش اور ژالہ باری کی پیش گوئی کی گئی ہے۔
ڈائریکٹر محکمہ موسمیات سردار سرفراز نے ڈی ڈبلیو سے باتیں کرتے ہوئے مزید کہا،” آئندہ چند روز موسم انتہائی گرم اور خشک ہوگا کیونکہ ہوا میں نمی زیادہ نہیں ہو گی۔ صبح کے وقت جنوب مشرق سے چلنے والی ہوائیں بند رہیں گی جبکہ بلوچستان کے شمال مغرب سے گرم ہوائیں چلیں گی البتہ شام میں ان ہواؤں کی جزوی بحالی کا امکان ہے۔‘‘
اس موسم میں شہریوں کو احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ جیسے صبح 11 سے شام 4 بجے کے درمیان بلاضرورت گھروں سے نہ نکلیں اور اگر گھر سے نکلنا انتہائی ضرورت ہو تو گیلے کپڑے سے سر ڈھانپ کے رکھیں۔
ماہرین کے مطابق کراچی کا شعبہ صحت اس قابل ہے ہی نہیں کہ وہ اس قسم کی کسی بھی ناگہانی آفت کا مقابلہ کر سکے۔ اس شہر میں وفاقی، سندھ اور بلدیاتی حکومتوں کے ہسپتال موجود تو ہیں لیکن یہ ہسپتال آبادی کے بے پناہ دباؤ کا شکار ہیں۔ اس کے علاوہ ان میں نہ صرف اندرون سندھ بلکہ بلوچستان تک سے لوگ علاج کی غرض سے آتے ہیں۔
2015 میں بھی ہیٹ ویو رمضان میں آئی تھی، جس میں صرف 3 روز کےدوران تقریباﹰ ڈیڑھ ہزار اموات ہوئیں تھیں۔ اس موقع پر ہسپتالوں اور سرد خانوں کے ساتھ مریضوں اور میتوں کو منتقل کرنےکے لیے ایمبولینسز بھی کم پڑ گئی تھیں اور لوگ اپنے پیاروں کی میتیں رکشے اور ٹیکسیوں میں لے جانے پر مجبور ہوگئے تھے۔
پانچ برس قبل آنے والی ہیٹ ویو میں اپنی والدہ کو کھونے والے محمد یونس بتاتے ہیں کہ والدہ دل کی مریضہ تھیں،”شدید گرمی میں بجلی کی فراہمی کئی گھنٹے سے معطل تھی لہذا والدہ کو کمرے میں گھٹن محسوس ہوئی تو وہ باہر صحن میں جا بیٹھیں اور پھر کچھ دیر میں ہم انہیں بے ہوشی کی حالت میں ہسپتال لے گئے، جہاں ڈاکٹروں نے ان کے انتقال کی تصدیق کردی۔‘‘
یونس کے مطابق والدہ کی میت سول ہسپتال سے سرد خانے لے جانےکے لیے انہیں جو مشکلات اٹھانا پڑیں وہ ناقابل بیان ہیں،”لاشوں سے بھرے ہسپتال سے والدہ کی میت وصول کرنا اور پھر اسے سرد خانے منتقل کرنے کے لیے ایمولینس کی تلاش کئی گھنٹوں پر محیط تھی۔ سردخانے پہنچنے پر علم ہوا کہ مزید میتیں رکھنے کی جگہ ہی نہیں ہے، وہاں سے دوسرے اور پھر تیسرے سرد خانے جانے اور چند گھنٹے میت رکھنےکے لیے منتیں کرنا پڑیں تھیں اور پھر قبرکے لیے سرکاری فیس سے کئی گناہ زیادہ پیسے دینا اتنا مشکل تھا کہ یاد کرتا ہوں تو آج بھی آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں۔‘‘
دوسری جانب سرکاری افسران اور ماہرین طب دعوے کررہے ہیں ممکنہ ہیٹ ویوکے لیے بھرپور انتظامات کر لیے گئے ہیں۔ جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر کے شعبہ ہنگامی حالت کی ڈائریکٹر ڈاکٹر سیمی جمالی نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ کورونا وائرس کی وجہ سے ہیٹ ویو سے متاثرہ مریضوں کے لیے علیحدہ وارڈ تو نہیں بناسکے ہیں لیکن علیحدہ جگہ مختص کردی گئی ہے، جہاں درجہ حرارت کم رکھا جائے گا تاہم انہوں نے شہریوں سے اپیل کی ہےکہ ہیٹ ویو کے دوران بلاضرورت گھروں سے نہ نکلیں اور اگر نکلنا ضروری ہو توسر ڈھانپ کر نکلیں۔
پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر قیصر سجاد نے ڈی ڈبلیوسے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ صحت کا محکمہ کورونا وائرس سے نہیں نمٹ پا رہا اگر ہیٹ ویو آئی تو معاملات اور پیچیدہ ہوجائیں گے۔ اب کے بقول،”حکومت کو چاہیے کہ وہ پانچ سال قبل آنے والی ہیٹ ویو سے ہونے والی اموات کو ضرور مدنظر رکھے کیونکہ کورونا وائرس کے بعد ہسپتال اور ڈاکٹروں کا فوکس صرف کرونا وائرس ہی ہے، جس کی وجہ سے دیگر مریض نظرانداز ہو رہے ہیں، صرف اور صرف احتیاط سے ہی ہیٹ ویو سے بچا جاسکتا ہے‘‘۔