تحریر : رانا نقاش ظفر حویلی لکھا ضلع اوکاڑہ کے بڑے شہروں میں شمار ہوتا ہے جو ضلع اوکاڑہ سے تقریبا ستر کلو میٹر مشرق کی جانب اور باڈر ایریا ہیڈ سلیمانکی سے سترہ کلو میٹر مغرب کی جانب واقع ہے اور ضلع اوکاڑہ کا آخری اور سرحدی شہر ہونے کے ساتھ ساتھ تاریخی اہمیت کا حامل ہے اٹھارہ وارد پر مشتمل خوبصورت شہر کو میونسپل کمیٹی کا درجہ حاصل ہے اور آباد ی کے لحاظ سے تعصیل دیپالپور کے برابر ہی بلدیاتی نمائندوں کے انتخابات سے قبل میونسپل کمیٹی حویلی لکھا میں کرپشن،لوٹ مار،کی گنگا بہتی تھی افسران اور انکے منظور نظر ،،ٹوکے،،اٹھائے ڈیوٹی پر آتے تھے اور تکبیر پڑھے بغیر ہی خزانہ سرکار کو دن بھر ذبح کرتے اور کھال اتارنے کوہی ڈیوٹی سمجھتے تھے اور معدے اس قدر مضبوط کر رکھے تھے کہ لکڑ پتھر سب ہضم کیے جا رہے تھے۔
کوٹیشن ورک، پودے، گملے، ڈیزل، پٹرول، ڈیلی ویجز ملازمین کی آڑ میں لاکھوں روپے ماہانہ میونسپل کمیٹی کو چونا لگائے جا رہے تھے۔یہاں تک کہ سب سے شریف سمجھا جانے والا ،ٹی ایم اے ملازم ،پندرہ سے بیس لاکھ کی کرپشن نہیں کرتا تو ٹی ایم اے ملازمین اسے اپنا کولیق ہی تصور نہیں کرتے تھے۔بلدیاتی انتخابات کے بعد پاکستان مسلم لیگ ن کے امیدوار میاں شعیب قادر وٹو،چیرمین،اور محمد حنیف رحمانی،وائس چیرمین منتخب ہوئے تو چیرمین میاں شعیب قادر وٹو نے میونسپل کمیٹی کے ملازمین کو ہدائت کی کہ کرپشن اور لوٹ مار،کرنے والے ملازمین اپنا قبلہ درست کرلیں میرٹ اور کام کرنے کی پالیسی کو اپنانا ہو گا اور جو اس میرٹ پر کھرا نہیں اترے گا اس کے خلاف سخت سے سخت ایکشن لیا جائیگا جسمیں معافی کی گنجائش نہیں ہو گی۔اور اگر کوئی کرپشن کے بغیر نہیں رہ سکتا تو تبادلہ کروا لے اسکے حق میں بہتر ہو گااور ہنگامی بنیادوں پر وسائل کی کمی کے باوجود شہر کو سنوارنے کے ساتھ کرپشن جیسے ناسور کے خلاف اعلان جنگ کرتے ہوئے چیرمین نے اپنی ٹیم،کے ہمراہ پہلے دو ماہ میں ہی حیران کر دیا۔
پہلے جو ڈیزل ،پٹرول کی مد میں چھ سے ساڑھے چھ لاکھ روپے خرچ ہو رہے تھے وہ ڈیڑھ لاکھ پر آ گئے،کوٹیشن ورک،گملے،پودے،خود ساختہ اور فیک پلیوں کی تعمیر کے حوالے سے اڑائی جانے والی لاکھوں روپے رقم کو ٹوٹل بند کر کے ،سیوریج واٹر کی نکاسی کا نہ صرف حل تلاش کیا بلکہ پہلے جو زمینداروں کو منت سماجت کر کے مفت دیا جا رہا تھا فی گھنٹہ فروخت ہونے لگا ہے جسکی آمدن لاکھوں میں ہو گی۔بچوں کی تفریح کے لیے کوئی جگہ نہ تھی جناح پارک کو معمولی رقم سے نئے سرے سے تعمیر کیا جا رہا ہے ناکارہ کر کے سٹور میں پھینکی گئی سٹرئٹ لائٹ کو مرمتی کروا کر واپڈا آفس سے حجرہ روڈ پر شہر کے اندھیروں کو دور کر دیا گیا ہے ہر وارڈ کی گلی میں جا کر عوام کے مسائل دریافت کرنے کی وجہ میاں شعیب قادر وٹو عوامی چیرمین کا خطاب حاصل کر چکے ہیں اور عوام میں خاصے مقبول ہو چکے ہیں۔
حالیہ بجٹ میں انہوں نے تعصیل بھر سے زیادہ ڈویلپمنٹ کے لیے ایک کروڑ بیس لاکھ روپے رکھے کھیلوں کے فروگ کے لیے خطیر رقم مختص کی گئی ہے ۔حویلی لکھا میں کچھ عرصہ قبل تقریبا تیس کروڑ روپے کی گرانٹ سے تین ڈسپوزل ورکس،تین پانی والی ٹینکیاں،واٹر سپلائی پائپ اور سیوریج لائین بچھانے کا کام ،محکمہ پبلک ہیلتھ اوکاڑہ کی زیر نگرانی شروع ہوا جسمیں محکمہ ہذا کے ایکسین،ایس ڈی او اور سب انجنئیر قمر نے کرپشن اور لوٹ مار کرنے کے لیے کمر کس لی اور ٹھیکداروں سے ملی بھگت کر کے قومی خزانے کو کروڑوں روپے کا چونا لگا دیا۔ڈسپوزل ورکس کے کنوئوں،کمروں اور رہائشی کواٹروں میں انتہائی ناقص مٹریل،سمینٹ،سریا اور اینٹ کا استعمال کیا گیا اور تھرڈ کلاس مشینری فٹ کر کے قومی خزانے پر ڈاکہ ڈالا گیا ۔عمران جاوید چوہان،علی رضا،اور محمد اقبال نے کہا کہ مذکورہ ڈسپوزل ورکس کے کنوئیں چیکنگ کے دوران ہی جگہ جگہ سے لیک اور مشینری ناکارہ ہو چکی تھی،کنوئوں کی سیڑھیاں نہ بنائی گئیں،ٹرانسفارمر سلور وائینڈنگ رکھے گئے۔
Water Supply
پانی کی ٹینکیاں بھی دوران چیکنگ جگہ جگہ سے لیک ہو کر محکمہ کی کرپشن کے بارے داستان سناتیں رہیں ،واٹر سپلائی پائپ ڈالنے کے لیے اسٹیمیٹ اور سروے کو یکسر نظر انداز کیا گیا اسی طرح سیوریج پائپ لائین کو بھی ڈالتے وقت اسٹیمیٹ کو نظر انداز کرتے ہوئے من مرضی کا روٹ اختیار کرنے کے علاوہ اسکی حفاظت کے لیے نہ بیڈ باندھا گیا اور نہ ہی اسٹیمیٹ کے مطابق بجر ڈالا گیا ہے۔انہوں نے بتایا کہ ایکسین اور سب انجنئیر قمر نے ٹھیکدار سے ملی بھگت کر کے ڈسپوزل ورکس شکور آباد کی سیوریج پائپ لائین الکرامت کالونی سے گزاری گئی جسمیں عوامی نقصان کرتے ہوئے قمر سب انجنئیر نے اپنی زیر نگرانی انتہائی ناقص مٹریل سے چند مین ہول بنائے اور باقی نظر انداز کرتے ہوئے مین ہول نہ بنائے گئے ،ناقص ترین سیوریج پائپ لائین بچھائی گئی جو کہ نہ صرف لیک ہو چکے ہیں بلکہ مین ہول ٹوٹنے سے سیوریج کا پانی تباہی پھلاتے ہوئے پوری کالونی کی سڑکات کو زمین بوس کر چکا ہے محلہ شکور آباد کا سیوریج پانی کالونی کے کئی ایکڑ میں دندناتا پھرتا ہے جس سے متعدد مکان زمین بوس ہونے کو ہیں جبکہ پانی والی ٹینکی اور فلو کے بغیر جگہ جگہ سے لیک ہونے کی وجہ سے قومی نقصان کی نشاندہی کر رہی ہے۔
نیز سیوریج پانی کے لیے بنایا گیا سرکاری کھال بھی جگہ جگہ سے ٹوٹ چکا ہے جبکہ متعدد جگہوں سے بیڈ ہی بہہ جانے سے لاکھوں روپے کا قبل از وقت نقصان ہو چکا ہے اور متعدد گلیوں میں سروے کے باوجود سیوریج پائپ نہ ڈالا گیا ہے اور صرف وعدے عید کیے جا رہے ہیں۔۔انہوں نے بتایا کرپشن اور لوٹ مار کی لت میں مبتلا ٹی ایم او دیپالپور نے مقامی ملازمین میونسپل کمیٹی سے مل کر بلدیاتی نمائندوں کے چارج سنبھالنے سے چند دن قبل ہی لاکھوں روپے رشوت وصول کر کے ناکارہ،ٹوٹی پھوٹی، جگہ جگہ سے لیک، ڈسپوزل ورکس،ناکارہ مشینری،اور بے کار پانی والی ٹینکیوں میں سے ڈسپوزل ورکس ہینڈ اوور کر کے ،،بھاگتے چور کی لنگوٹی سمجھ کر،،ہینڈ اوور کر کیبے ضمیر ہونے کا ثبوت دے دیا۔میاں محمد معین خان وٹو ،ایم این اے نے ان تھک محنت کے بعد واپڈا آفس سے ریلوے پھاٹک تک کارپٹ روڈ منظور کروانے کے علاوہ سڑک کے دونوں اطراف کھال بنوانے کے لیے کروڑوں روپے کی گرنٹ منظور کروائی جس سے مذکورہ کارپٹ روڈ بن گیا اور کروڑوں کی خطیر گرانٹ سے کھال پر کام جاری ہے مگر کھال کی تعمیر میں ،محکمہ ہائی وے اور ٹھیکدار ملی بھگت کر کے نہ صرف لوٹ مار کرنے میں مصروف ہیں بلکہ عوام کا نقصان کر کے اپنے معاملات سیدھے کیے جا رہے ہیں۔
مذکورہ کھال کی تعمیر میں،لیول اور روٹ کا خیال نہیں رکھا جا رہا ہے تھرڈ کلاس اینٹ،انتہائی گھٹیا اور ناقص مٹریل،استعمال کیا جا رہا ہے جس سے مذکورہ کھال چند ماہ بعد ہی ناکارہ ہو جائے گا ۔ مذکورہ کھال کے روٹ میں آنے والے ،بجلی کے پول اور درختوں کو بھی نہ ہٹایا گیا ہے جس سے نہ صرف کھال کی صفائی نہ ہو سکے گی بلکہ سیوریج کے پانی کی روانی بھی ممکن نہ رہے گی اور پانی میں بجلی کے پول ہونے سے ،ہزاروں مکینوں کی زندگیاں بھی دائو پر لگ جائیں گی۔علاوہ ازیں محکمہ ہائی وے کا کرپٹ عملہ عوام کی جیبوں پر ڈاکے ڈالنے میں مصروف ہے اور لوگوں کو بلیک میل کر کے بھاری رقمیں وصول کر کے گھر میں داخل ہونے کے لیے راستہ چھوڑ رہا ہے انکار واے مکین کے دروازے پر کھال کی آڑ میں دیوار کھڑی کر دی جاتی ہے۔اور متعدد جگہوں پر تیرہ انچ کی بجائے چار انچ دیوار بنا کر فوری پلستر کر کے چھپائی جا رہی ہے مذکورہ کھال کی تعمیر میں صرف کروڑوں روپیہ ضائع ہی ہو رہا ہے ۔محکمہ سوئی گیس نے امبر نامی لڑکے پر آفس داخلے پر جہاں بین کر رکھا ہے وہاں متعدد مفاد پرست اور لٹیرے ملازمین سوئی گیس نے اپنے ٹائوٹ امبر کو عوام کی جیبوں پر ڈاکے ڈالنے کی بھی کھلی چھٹی دے رکھی ہے جو کبھی تعصیل افسر بن کر سروے کرتا ہے تو کبھی میٹر لگانے کی مد میں ہزاروں روپے لوٹ کر رفوچکر ہو جاتا ہے یہی نہیں کئی افسران سوئی گیس نے اسکی کرپشن اور لوٹ مار سے خوش ہو کر سوئی گیس میں کھڈے مارنے کا کام بھی اسے سونپ رکھا ہے تا کہ جو کمائو پتر لوٹ کر آئے اسے آپس میں تقسیم کیا جا سکے۔محکمہ سوئی گیس کے ملازمین کی بے حسی اور امبر نامی لڑکے کے ذریعے لوٹ مار کروائے جانے پر عوام نکو نک آ چکی ہے۔مگر نوٹس لینے کی بجائے افسران اپنی چھتر چھائوں دیے جا رہے ہیں۔تعصیل ڈرگ انسپکٹر عرفان نے عوام کو بے موت مارنے کے لیے منتھلی سکیم شروع کر رکھی ہے حویلی لکھا و گردونواح میں ہزاروں عطائی ڈاکٹر عوام کی جان و مال سے کھیل رہے ہیں ،ان پڑھ دائیاں،ایل ایچ ویز پرائیوئٹ میٹرنٹی ہومز میں عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے کے علاوہ ہر پنسار سٹور میں لاکھوں روپے مالیت کی سیکسی گولیاں اور کیپسول کھلونوں کی طرح پڑے ہیں مگر کاروائی کی بجائے صرف بھاری نذرانے کو ترجیح دی جاتی ہے جسکی وجہ سے لوگوں کے گردے فیل ہو رہے یں اور عوام متعددی بیماریوں میں مبتلا ہو رہی ہے۔
گذشتہ دنوں ڈرگ انسپکٹر عرفان نے ایک پنسار سٹور سے لاکھوں روپے کی سیکسی گولیاں اور کیپسول اٹھائے اور بعد میں نا معلوم مصلحت کے تحت خاموشی اختیار کر لی جسکی وجہ صرف ،مبینہ طور پربھاری رشوت ہی بتائی جا رہی ہے۔اگر منتھلی سسٹم کی یونہی بحالی رہی اور سیکس گولیاں ،کیپسول چھابڑوں میں فروخت ہوتے رہے تو ڈرگ انسکٹر تو ارب پتی ہو سکتا ہے مگر عوام بے موت کبھی عطائیوں کے ہاتھوں اور کبھی نادانی میں گولیاں کیپسول کھانے سے مرتی رہے گی۔محکمہ فارسٹ نے ات مچا رکھی ہے کروڑوں روپے کی گرانٹوں کو بندر بانٹ کر کے سڑکات کے دونوں اطراف درختوں کا قتل عام بھی دھڑلے سے کروا رہے ڈسٹرکٹ فارسٹ آفیسر اوکاڑہ نے کبھی ہیڈ سلیمانکی سے بونگہ حیات روڈ پر چوری ہونے والے کروڑوں روپے کے درختوں کا سرغ نہ لگایا ہے اور نہ ہی فارسٹ پارک سلیمانکی میں ہونے والی کرپشن اور لوٹ مار کے سامنے بند باندھنے کی کوشش کی ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ گارڈ سے لیکر ڈسٹرکٹ آفیسر تک سب قومی خزانے پر ڈاکے ڈالے جا رہے ہیں۔حویلی میونسپل سٹیڈیم کا رقبہ آٹھ ایکٹر پر محیظ ہے مگر ایک ہی سٹیڈیم میں کرکٹ گرائونڈ،ہاکی گرائونڈ،فٹ بال گرائونڈ ،والی بال گرائونڈ ہے جگہ کم ہونے کی وجہ سے نوجوان انتہائی ذہینی پریشانیوں میں مبتلا ہیں کیونکہ ایک گیم بھی اچھے انداز میں نہیں ہو رہی ہے۔مقامی سنئیر کرکٹر،چوہدری مقبول احمد اعجاز،خان راشد خان،رائو محمد اقبال سمیت نوجوان کھلاڑیوں نے بتایا کہ اس سے ملحقہ کئی ایکٹر رقبہ بھی حکومت کا پڑا ہے اگر سٹیڈیم کو اور جگہ دے جائے اور فٹ بال،کرکٹ،والی بال،ہاکی کے گرائونڈ بن جائیں تو بہت ٹیلنٹ ابھر کر سامنے آ سکتا ہے۔ان معاملات کے علاوہ تمام سرکاری محکموں میں میرٹ کو دھول چٹائی جا رہی ہے جس پر حکومت وقت کو توجہ دینا چاہیے اور اداروں کو مضطوط کر کے ہی کرپشن کا خاتمہ کیا جا سکے گا۔