حویلیاں شہر میں ڈینگی مچھر

Dengue

Dengue

تحریر : محمد جواد خان
آج کل ہمارے شہر حویلیاں میں ڈینگی کی وباء نے شدت اختیار کی ہوئی ہے، جس کا سبب اول تو جناب یہ مچھر صاحب کی ذات ہے اور دوسرا ان کا ساتھ دینے والے نام نہاد لیبارٹریز والے جو کہ آدھا ٹیسٹ اور ڈبل فیس وصول کر کے ڈینگی کی وباء کوپھیلانے اور پورا پروٹوگول دینے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ ہمارے شہر ِ خاص کی چند ایک مشہور لیبارٹریز یہ کام بڑی فراغ دلی کے ساتھ سر عام سرانجام دے رہی ہیں اور اوپر سے فیس بھی ڈبل لے کر بڑی شان اور بڑی دلیری سے بولتے ہیں کہ ہم کیا کر سکتے ہیں، ہر لیبارٹری کی ٹیسٹ فیس اپنی ہوتی ہے، جس کی مرضی ہے جتنی فیس لے۔ پچھلے دنوں کئی ٹیسٹوں کی رپورٹس سے یہ بات سامنے آئی کہ ان لیبارٹریز والوں نے کئی ٹائیفائیڈ کے مریضوں کو بھی ڈینگی کا مریض بنا دیا۔

میری بیٹی جس کو گلے خراب ہونے کے سبب بخار تھا اسی حویلیاں شہر کی ایک نامور لیبارٹری نے ڈینگی تشخیص کر دیا ، اور اس ادھوری رپورٹ کے سبب ڈاکٹر صاحب(جوکہ حویلیاں سول ہسپتال میں اپنی ڈیوٹی سرانجام دے رہے تھے) نے وہی ہسپتال ہذا کا پُرانہ رویہ اختیار(جو حویلیاں کی سول ہسپتال کا عرصہ دراز سے ہے) کرتے ہوئے ریفر سلپ ہاتھ میں دی اور حکم دیا کہ کمپلیکس پہنچائو۔ ڈینگی اور وہ بھی چھوٹی سی بچی کو ہو تو کیا یہ خبر اور ایسی خبر جس پر ڈاکٹر صاحب کے ادھوری رپورٹس پر ریمارکس کے جلدی پہنچائو نہیں تو کچھ بھی ہو سکتا ہے، کیایہ خبر گھر والوں کے لیے کسی دھماکے سے کم ہو سکتی ہے۔۔۔؟؟؟ یقینا نہیں جب بچی کا باپ پردیس میں ہو اور اس کو فون جائے کے جلد ی آئو کہ یہ مسلئہ ہے تو ایسے میں کوئی کرتا تو کیا کرتا۔۔۔؟؟؟اسی کشمکش میں جب ہم بچی کو ایو ب میڈیکل کمپلیکس کی طرف لے جارہے تھے،تو یہ بھی کوئی آسان کام نہیں ہے کمپلیکس تک مریض لے کر پہنچ جانا ۔۔ ۔ کیونکہ حویلیاں سے راولپنڈی تو انسان پہنچ جاتا ہے مگر حویلیاں سے ایبٹ آباد ایوب میڈیکل کمپلیس پہنچنا انتہائی مشکل ہی نہیں بلکہ بعض اوقات تو اس قدر ناممکن ہوتا ہے کہ ہر انسان کے منہ سے آہ و فریاد ہی نکل رہی ہوتی ہے کہ کسی بھی حکومت نے اس سڑک کی تعمیر کی طرف توجہ آج تک نہیں دی ، جبکہ ہر کوئی صرف ووٹ مانگنے کے لیے آ کھڑا ہوتا ہے۔

ابھی ہم ایوب میڈیکل کمپلیکس پہنچے ہی نہ تھے کہ راستے میں ایک سمجھدار شخص نے مشورہ دیا کہ بھائی آپ بیٹی کوایوب میڈیکل کمپلیکس لے جانے سے قبل ایک دفعہ فلاں پرائیوٹ ڈاکٹر کو چیک کروا دو جو کہ ایک اچھا اور بچوں کا اسپیشل ڈاکٹر ہے ۔۔۔ ہم مشورہ کے مطابق جب چیک اپ کروایا لیبارٹریز رپورٹس مرتب ہو کر جب سامنے آتی ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ڈینگی تو کیا ڈینگی کے مچھر کی بو تک نہیں ۔۔۔ جب رپورٹس کے بارے میں ڈاکٹر صاحب نے بتایا تو میں نے ان سے پوچھا کہ کیا آپ کی لیبارٹری والے نے ٹھیک ٹیسٹ کیا ہے تو معلوم چلا کہ واقعی میں میری بیٹی کو ڈینگی نہیں البتہ گلے خراب ہونے کے سبب بخار تھا۔

Laboratory

Laboratory

رات کو جب حویلیاں میں متعلقہ لیبارٹری کے مالک کے پاس گیا تو وہ مکر گیا کہ اور ہٹ دھرمی سے کہنے لگا جائو جو کرنا ہے کر لو جب ہماری غلطی نہیں تو ہم غلطی تسلیم کیوں کریں، اول تو دوسری لیبارٹری کی رپورٹس غلط ہیںاور دوسرا اگر رپورٹس ٹھیک بھی ہیں تو ڈاکٹر کی غلطی ہے اس نے پورے ٹیسٹ کیونکر ہمیں لکھ کر نہیں دیئے۔۔۔ ہمارے لڑکے تو غلطی کا ارتکاب کر ہی نہیں سکتے ۔۔۔ خیر میں ڈاکٹر صاحب کے پاس چلا گیا اول تو ان کے متعلقہ سٹاف نے ڈاکٹر کے ہسپتال میں موجود ہونے کے باوجود یہ کہہ کر ہمارے واپس لوٹانے لگا کہ ڈاکٹر صاحب تو نہیں ہیں وہ تو روزانہ مغرب سے قبل ایبٹ آباد چلے جاتے ہیں، ہمارے اسرار پر اس نے ہم کو ڈاکٹر صاحب سے ملنے کی اجازت دی۔

جب ہم نے ڈاکٹر کو بولا کہ یہ آپ کی غلطی ہے کیا تو وہ بولا نہیں میں نے تو تینوں ٹیسٹ لکھے ہیں یہ دیکھیں لکھے ہوئے ٹیسٹ ۔۔۔!!! پھر لیبارٹری والے کو بلوایا گیا تو اس نے آتے ہی بغیر کسی حیلے بہانے کے اپنی غلطی ڈاکٹر کے سامنے قبول کر لی۔۔۔ وہی لیبارٹری والا جو سب کچھ دیکھ کر بھی بدمعاشی کر رہا تھا ڈاکٹر کے سامنے آکر خود کی غلطی تسلیم کرنے لگا۔۔۔ اتنا سارا واقع سنانے کا مقصد یہ نہیں کہ میں آپ کا صرف وقت ضائع کروں بلکہ مقصد یت یہ ہیکہ ہر خاص و عام کو معلوم ہو کہ ہم حویلیاں والوں کے ساتھ ایک تو سب سے بڑی ناانصافی آج تک یہ ہے کہ ہمارے شہر کو دی گئی سرکاری ہسپتال میں ابھی تک صرف مرُدوں کے پوسٹ مارٹم کی ہسپتال ہے کیونکہ زندوں کے علاج تودور چیک اپ کے لیے بھی پاوا(سفارش) کی ضرورت ہے نہیںتو باہر پرچی لینے والا لڑکا یا کوئی بھی سٹاف ورکر آپ کے ساتھ اس طرح بدتمیزی کرے گا کہ گویا آپ ایسا محسوس کریں گئے کہ کہیں آپ کسی اجنبی ملک میں زکوة کی لائن میں کھڑے ہیں جہاں آپ کو نیچ ذات سمجھ کر برتائو کیا جارہا ہوگا۔۔۔ چھوڑ واس کو بھی اگر خوش قسمتی سے ڈاکٹر بھی مل گیا، نمبر بھی آگیا، سرکاری ہسپتال میں سے ٹیسٹ بھی ہو گیا تو پھر بھی آپ کی دوڑیں ایوب میڈیکل کمپلیکس تک ضرور لگائی جائیں گئی۔

Havelian

Havelian

باہر بیٹھے ڈاکٹرز کے پاس جائو گئے تو وہ اول تو بھاری فیس وصول کرنے کے بعد آپ کو ہائی ڈوز دیں گئے وہ بھی بغیر کسی ٹیسٹ کے کیونکہ ٹیسٹ کروانے میں ٹائم لگتا ہے اور کوشش ہوتی ہیکہ جلد از جلد زیادہ سے زیادہ مریضوں کا معائنہ کیا جا سکے اور اگر آپ کونالوں پر ، جگہ جگہ بنی لیبارٹریزمیں ٹیسٹ کروانا پڑا تو ایسے شاگردوں سے پالا پڑے گا جن کو بلڈ سیمپل تک لینا نہیں آتا اور وہ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ ہم ڈپلومہ ہولڈرز ہیں۔ سب سے زیادہ ظلم تو ان عورتوں کے ساتھ کیا جاتا ہے جو کسی نئی زندگی کی نوید سنانے والی ہوتی ہیں ان کے نارمل سے نارمل کیس کو بھی سنجیدہ نوعیت کا بنا کر پیش کیا جاتا ہے اور ایسے ایسے بہانوں سے لوٹا جاتا ہے کہ مرغا جیسے آج ہی جال میں پھنسا ہو۔۔۔ یہ لو ۔۔۔ وہ دو۔۔۔یہ نہیں۔۔۔وہ نہیں۔۔۔جلدی کرو۔۔۔

واقعی تندرستی ہزار نعمت ہے ۔۔۔اور حویلیاں والو ں کو ضرورت بھی اس امر کی ہے کہ وہ دوا سے زیادہ دعا سے کام لیا کریں اور ہمیشہ اپنی صحت کے لیے دعا گو رہنا چاہیے نہیں تو جب ان نیم حکیموں کے ہاتھ لگے گا تو بعد میں پتا چلے گا کہ “ہم دعا لکھے رہے اور وہ دغا پڑھتے رہے” ۔ اسلئے حویلیاں شہر کے باسیوں دوا سے زیادہ دعا سے کام لو کیونکہ کچھ معلوم نہیںکہ کون سا ڈاکٹر نہ جانے کس مرض کی دوا دیتا رہے اور مرض آپ کو نہ جانے کو ن سی ہو۔۔۔ اورپھر آپ کہتے پھریں مرض بڑھتا گیا جوں جوں ۔۔۔

Mohammad Jawad Khan

Mohammad Jawad Khan

تحریر : محمد جواد خان
aoaezindgi@gmail.com