تحریر : حمنا مناحل ھاشمی صدیاں بیت گئیں جب حوا کی بیٹی کی پیدائش کو باعثِ شرم و ندامت سمجھا جاتا تھا۔ اس پر اکتفانہ تھا ان کو زندگہ گاڑھنا عام سی بات تھی۔ ان کی موت پر نہ کوئی دل ملول ہوتا اور نہ کوئی آنکھ اشکبار ہوتی بلکہ بہادری اور عزت و ناموس کی علامت سمجھا جاتا۔ شاید انہی معصوم و معطر کلیوں کی آہ و بقا رب العالمین کے دربار میں منجاب ہوئی کہ اس رب زو لجلال نے رحمت العالمین کو مبعوث فرمایا وہ دین انقلاب لائے اور وہی منحوس باعثِ شرم و ندامت بیٹیاں رحمت بن گئیں کچھ عرصہ یہ رحمتیں یونہی سایہ فگن رہیں کیو نکہ اسلام نے ان کے حقوق و فرائض متعین کر دئیے۔ مگر دیکھتے ہی دیکھتے زمانے نے پھر روٹ لی۔ حوا زادیاں ایک دفعہ پھر زیرِ عتاب آگئیں اور آدم زاد میدان میں اتر آئے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: اور کیا ہے اوپر انکے (فرض) اگر ایمان لائیں اللہ پر اور آخرت پر اور خرچ کریں(بیویوں پر) اس چیز سے جو دیا انکو اللہ نے ار ہے اللہ خوب جاننے والا (سورۃ النسا آیت نمبر ۳۹)۔
لیکن آج کے مرد نے تو اس عورت کو بازار میں لاکر کھڑا کر دیا کہیں وہ فیکٹریوں میں کام کرتی ہے تو کہیں گھروں میں برتن دھوتی ہیں۔ کیونکہ اسے تو اپنے بچوں کیلئے کچھ نہ کچھ کرنا ہے۔ مرد تو آزاد ہوا بیوی بچوں سے۔ صبح کا نکلا شام کو گھر آیا۔ کبھی کسی دکان پر بیٹے کر وقت گزار ا یا نشہ کر کے یا آتی جاتی لڑکیوں کپر آواز یں کس کے۔ اسے خبر نہیں کہ بیوی اور بچے کس حال میں ہیں۔ جو جونہی گھر کی دہلیز پار کی تو وقت کا فرعون بن گیا۔ مجھے کھانے کا تقاضہ شروع کر دیا اور بچوں کو مار پیٹ شروع کر دی۔ اور ہو گیا۔کیونکہ وہ ت تھکا ہوا تھا۔ اور یوں بیوی نے ساری رات اور رو کر آنکھوں میں گزار دی کہ آخر وہ کس طرح بچوں کی پرورش کرے اس تو اپنی جان تک سنبھالی نہیں جاتی۔
روز کی یہی کھینچا تائی اتنی بڑھی کہ نوبت طلاق تک جا پہنچی لیکن یہ کہا اس نے تو طلاق میں ساتھ بچے بھی لکھ دئیے کیونکہ وہ مرد ہے اور معاشرے نے اسکو طاقت دی ہے وہ کچھ بھی کر سکتا ہے۔ یہ حوازادی اپنے بچوں کو لیکر اب کدھر جائے نہ اسکا زمین میں ٹھکانہ نہ آسمان میں طلاق مرد دیتا ہے اور داغ عورت کے ماتھے پر لگتا ہے چاہیے ۔اس میں مرد کا قصور ہو یا عورت کا مرد سے کوئی نہیں پوچھتا کہ تم نے اپنی بیوی ک طلاق کیوں دی بلکہ سب عورت کو ہی قدم قدم پر احساس دلاتے ہیں کہ تم ہی گھر بسانے کے قابل نہیں تھی۔
Violence on Women
حوا کی بیٹی تو جس کلاس میں بھی ہے سمجھوتے کرنا تیرا مقدرٹھہرا۔ تو تو پیدا ہی قربانیاں دینے کیلئے ہوئی ہے۔ آہ حوازادی تیرا باپ بیمار ہے تیرا بھائی آوارہ ہے تیری ماں اس دنیا کے دکھوں سے چھٹکارا پا چکی ہے ۔ تجھے اب کمر کس لینی ہے۔ کیونکہ زندہ رہنے اور رکھنے کیلئے تجھے ہی کچھ کرنا ہے بالآخر تو نے وہی کیا۔ گھر سے قدم نکالا ۔ تو نے وہ سب کیا جسکے کرنے کی رجھ میں سکت بھی نہ تھی۔ لیکن یہ کہا تیرا بھائی تو اب باغیرت بن گیا ہے۔ وہ تجھے باہر نکلنے سے منع کر رہا ہے ورنہ تجھے قتل کر کے عبرت کا نشان بنا دے گا۔بالآخر تیرے بھائی کی آوارگی پر غیرت کی مہر لگ ہی گئی اور اس نے تجھے نشانِ عبر بنا ڈالا۔وہ غیور ٹھہرا اور تیر ے معصوم بہن بھائی منزل پر پہنچ کر بھی منزل نہ پاسکے۔ یہ کہانی آج کی نہیں عرصہ دراز سے عورتوں پر ظلم ایک فیشن بن چکا ہے۔
میں پوچھتی ہوں۔ آخر کب تک مری کی ماریہ چلتی رہے گی؟ کب تک باغیرت بھائی معصوم بہن کو چھریوں کے وار سے تڑپا تا رہے گا؟ کب تک رشتہ کے تنازع پر معصوم کلیوں پر تیزات اچھالا جاتا رہے گا۔ کب تک عورت طلاق کا دا غ لگا کر گھر سے نکالی جاتی رہے گی؟ کب تک حوازادیوں کی عزت لٹتی رہے گی کب تک حوازادیاں درندوں کی حوس کا نشانہ بنتی رہیں گی؟ شرمین عبید کے ٹیلی فلم بنانے یا حقوقِ نسواں بل پاس کروانے سے کچھ نہیں ہو گا۔ آج اگر خواتین پر تشدد میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے تو اسکے ذمہ دار میں ‘آپ اور خود اسلامی نظریاتی کونسل ہیں۔
کیونکہ میں بھی ہنٹر نسرین جلیل کے الفاظ سے اتفاق کر تی ہوں کہ کونسل کے ارکان جدید قانون سے لاعلم ہیں، غیرت کے نام پر قتل میں قصاص اور دیت کے قانون کا اطلاق کرنا اور Rape Casesمیں DNA Reportکو تسلیم نہ کرنا بھی سرا سر قیانوسی ہے بیشک اب اسلامی نظریاتی کونسل کی معیاد اب پوری ہو چکی ہے۔ اب اسکو تحلیل کرنا چاہیے اور عورتوں کے تحفظ کا قانون پاس کروانے کے ساتھ ساتھ اسکو لاگو بھی کروانا چاہیے۔ خدا حوازادیوں پر اپنا رحم فرمائے۔آمین!