تحریر : انجینئر افتخار چودھری اس لحاظ سے تو فاٹا کا کے پی کے میں ضم ہونا ہمارے لئے بہتر ہے کہ پشتون اکثریت میں ہزارہ کے لوگوں کے ساتھ جو سوتیلی ماں کا سلوک ہو رہا ہے اس کے ازالے کے لئے تحریک صوبہ ہزارہ کو تقویت ملے گی۔اور وہ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ اگر پیار اور محبت سے اپنا حق لے کیا جائے تو اس سے بہتر کوئی چیز نہیں ۔لیکن میں اس بڑھ کر ایک سوچ لے کر آیا ہوں کہ کہ ناران سے جھاری کس تک کے صوبے مناسب نہیں ہمارے ارد گرد جو علاقے ہیں ان سے ملا کر ایک نیا صوبہ تشکیل دیا جا سکتا ہے میری مراد خطہ ء پوٹھوہار جو ہم سے جڑا ہوا اس کے ساتھ مل کر ہزارہ صوبہ بنایا جا سکتا ہے اور اس کا نام بھی تجویز کئے دیتا ہوں آج میں باسٹھ کا ہو رہا ہوں یہ دن ویسے بھی میرے لئے اس لحاظ سے یاد گا رہے گا کہ میری آواز میں اس خطے کے ایک معروف اخبار نویس ایڈیٹر جناب اشتیاق عباسی سے میری دعوت کو قبول فرمایا ہے اور وہ ایک سرپرست کی حیثیت سے اس تحریک کے معاون و ممدو ثابت ہوں گے۔جس صوبے کا خواب میں دیکھ رہا ہوں وہ صوبہ پوٹھو ہزارہ ہے۔
سچ پوچھیں پشتون بھائیوں سے کوئی شکوہ نہیں کوئی شکائت نہیں کہ دلوں میں میل اترے لیکن سچ یہ بھی ہے کہ ہماری روایات ہمارا کلچر ہمیں پاکستان کے اندر رہتے ہوئے ان بھائیوں سے ملنے پر مجبور کر رہا ہے جو ہم جیسا سوچتے ہیں بولتے ہیں جس صوبے کی میں بات کر رہا ہوں یہاں ہندکو گوجری بولی جاتی ہے پوٹھوہاری بولتے ہیں اور یہ سب ایک دوسرے سے جڑی ہوئی زبانیں ہیں گوجری تو اردو کی ماں زبان ہے ۔یہ سارا انتظامی طور پر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے سید علی گیلانی نے سری نگر کی منڈی راولپنڈی قرار دی تھی ہمیں بھی پنڈی ہی سوٹ کرتی ہے معی ایبٹ آباد ہری پور سے کا تعلق پنڈی سے ہے اور پنڈی کے ساتھ کوٹلی ستیاں مری کہوٹہ گجر خان کلر سیداں ادھر چکوال کے بارڈر پر چک بیلی چکری یہ سب لوگ پنڈی کے ساتھ دل اور دھڑکن کی جڑے ہوئے ہیں۔
اسی لئے پوٹھوہزارہ صوبے کا دارلمقام پنڈی ہو۔یہ ایک تجویز بھی ہے اور ایسی تجویز جو قابل عمل بھی ہے۔گرچہ ہزارہ صوبہ کی تحریک بہت آگے بڑھ چکی ہے لیکن اس میں جو طاقت تھی وہ با با حیدر زمان کی خرابی ء صحت کے ساتھ بھی بیمار ہو گئی ہے۔ہزارہ کے لوگ کبھی تخت پشور سے نجات نہیں پائیں گے ۔سرائیکی وسیب کے نواب مظفر کو جب سکھ گرفتار کر کے لاہور لائے تو اس وقت سے لاہور اور وسیب میں دوری پیدا ہو چکی ہے وہاں جو کچھ بھی کر لیں اس علاقے کی پریشانی اس وقت دور نہیں ہو گی جب تک ملتان صوبائی دارلحکومت نہیں بنتا۔لاہور کی سڑکیں اس کے پل انڈر پاسز باغات بہت کچھ ہوں گے لیکن اس پسماندہ علاقے کے لوگ جب چینچی اور اونٹ گاڑی اور ٹریکٹر ٹرالیوں کے پیچھے بیٹھتے ہیں تو انہیں یہ خیال ضرور آتا ہے کہ مظفر خان کو تو سکھوں نے قتل کیا تھا ہمیں کیوں اپنے ہم مذہب مار رہے ہیں۔ویسے بھی صوبے چھوٹے ہونے چاہئیں ہمارے آقاۖ کا بھی فرمان ہے کہ شہر چھوٹے بنائیں۔اس کے پیچھے یہی مقصد تھا کہ انتظام کرنا آسان ہوتا ہے۔اس روز ایک ٹاک شو میں بڑی خوبصورت بحث چھڑی کہ پورے بلوچستان کی اسمبلی کی نشستیں صرف سترہ ہیں اس کے مقابلے میں پنجاب کی ١٤٧ سیٹیں ہیں۔
اب ان ١٧ سیٹوں کے لئے کون سا لیڈر کوئٹہ جائے گا کون سی پارٹی وہاں دفاتر قائم کرے گی اور کون سے چینیل وہاں سینٹر قائم کریں گے؟یہ ایسے سوالات ہیں جس کا جواب ہمیں دینے کے لئے تیار رہنا چاہئے ۔ہوتا یوں ہے کہ وہاں کے لیڈران کوڑ سچ کر کے اسلام آباد پہنتے ہیں اور جو سوزوکی گاڑی پر آتا ہے لینڈ کروزروں کے جلوس میں واپس جاتا ہے۔پنجاب کی طاقت توڑنے کا مقصد پاکستان کی طاقت کو مضبوط کرنا ہے لاہور اب ایک ملک کی آبادی بن چکا ہے اس سے پیار اور محبت کی لمبی داستان ہے لیکن سچ پوچھیں صادق آباد کا سرائکی اٹک کے اس پار حضرو کا رہائیشی مری کا باشندہ وہاں پہنچ کر اپنے آپ کو اجنبی محسوس کرتا ہے۔پشاور اور ناران کاغان مانسہرہ حتی کے ہریپور کے زمینی فاصلے اگر کم بھی ہوں تو زبان اور کلچر کے فرق نے دوریاں پیدا کر رکھی ہیں۔ہمارے ساتھ سب سے بڑا ظلم زرداری اور نواز شریف نے کیا ۔نواز شریف نے اپنی تیسری مرتبہ کی وزارت عظمی کے لئے اے این پی کا ناجائز مطالبہ مانا اور آج حالت یہ ہے کہ جسے پشتو کا ایک لفظ نہیں آتا اسے بھی پشتونخواہ کا شہری بنا دیا گیا ہے۔
ہزارے والے فاٹا کے انضمام کے بعد اور دب جائیں گے ہمارے بچے اٹک پار میں اجنبی ہوتے ہیں اور اٹک پار والے ہمارے علاقوں کے وسائل پر قابض ہیں سرکاری دفاتر میں میں ہمارے بچوں کو ملازمتیں نہیں ملتی سارے فنڈز صوابی مردان پشاور مین خرچ ہو رہے ہیں ہماری سڑکیں دئکھ لیں ہمارے راستے کھڈے بن چکے ہیں کیا آپ کو علم ہے کہ ہرو کے اس پار کے اگر کوئی مر جائے تو اس جنازہ امنتا اسھر ہی دفن کرتے ہیں اس لئے کہ نلہ جبری پل سے خانپور کے بیس کلو میٹر طویل راستے پر کوئی پل نہیں۔ہمارے نمائیندے گونگے اور بہرے ہیں۔
وہ عوامی فلاح و بہبود کے کام نہیں کرتے ۔جو کرتے ہیں اپنی ذات کی تشیر کے لئے کرتے ہیں اس لئے کہ اپنا جنبہ دھڑا بنا رہے پارٹیوں کی اہم سیٹوں پر قبضہ کر لیا جاتا ہے اور اس کے بعد عوام کو لوٹا جاتا ہے پرانی بوتلوں کے یہ نئے ڈھکن لوگ ہزارہ کی پسماندگی کا باعث بنتے چلے آئے ہیں۔اور یہی لوگ پشاور پہنچ کر دست بستہ پشتون طاقت کے غلام نظر آتے ہیں۔جس کو کسی نے پشتو سیکھی بھی ہے تو ایسے ہی ہے جیسے کالے ہندوستانیوں نے انگریزی سیکھی تھی۔ایسے میں ہزارہ کا پشتونخواہ میں گزارا نہیں۔ اور خطہ ء پوٹھوہار بھی اپنی شناخت چاہتا ہے ۔نیا صوبہ اشد ضروری ہے۔ہم نے اس تحریک کا اعلان کر دیا ہے اور آج یکم نومبر ٢٠١٧ کو اس کالم کے ذریعے آپ کی تجاویز کا منتظر ہوں۔