عبداللہ شاہ غازی کا عرس ہر سال 20 سے 22 ذوا لحج کو سالوں سال سے منایا جاتا ہے۔ ان کا مقبرا کراچی کے ساحل سمندر کلفٹن میں واقع ہے۔ ان کے بھائی سید مصری شاہ کا مقبرا بھی تھوڑے فاصلے پر ساحل سمندر کے قریب میں واقع ہے۔ عبداللہ شاہ غازی کا مقبرا پورے پاکستان میں مشہور ہے۔ ان کا مقبرا بھی سندھ کے دوسرے بزرگوں کے مقبروں کی طرح بہت ہی خوبصورت ہے۔ ان کے عرس میں عقیدت مند مسلمان سارے سندھ اور ملک کے دوسرے علاقوں سے بڑی تعداد میں شرکت کے لیے حاضر ہوتے ہیں ۔اس عرس میں مسلمانوں کے علاوہ دوسرے مذاہب کے لوگ بھی بڑی تعداد میں حاضری دیتے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ اللہ کے نیک بندوں نے اپنے وطن سے دور اس وقت کے ہندوستان کے کفرستان میں اللہ کے دین کو پھیلانے کی غرض عرب کی سر زمین سے تشریف لائے اور دین اسلام کی تبلیغ کی اور لوگوں کو اس امن اور شانتی والے مذہب اسلام میں داخل کیا جو ایک تاریخی کام ہے۔
ہماری اللہ سے دعاء ہے کہ اللہ ان نیک سیرت بزرگوں کی قبروں کو اپنے نور سے بھر دے۔ ان کے درجات کو بلند کرے اور لوگ رہتی دنیا تک ان نیک سیرت بزرگوں کے کارناموں کو یاد رکھیں۔ ان نیک سیرت بزرگوں نے تو انتھک محنت کر کے غیر مسلموں کو کلمہ پڑھا کرمسلمان کر دیا۔ ان کو محبت اور پیار کا درس دیا جس وجہ سے 1400 سال گزر گئے مگر لوگ اب بھی ان کی محبت میں گرفتار ہیں اور ہر سال تین دن کے لیے حاضر ہو کر ان سے عقیدت اور محبت کا اظہار کرتے ہیں۔ اب اس وقت کے مسلمانوں کا کام ہے ان سیدھے سادے مسلمان لوگوں کو مذید دین اسلام کی تبلیغ کر کے بہتر مسلمان بنائیں تا کہ یہ سیدھے سادے مسلمان اللہ کے دین کو عملاً قائم کرنے کے انبیاء کے نیک مشن میں شامل ہو جائیں۔ دکھی دنیا کو راحت نصیب ہو۔ اللہ کی زمین پر اللہ کے کلمے کا بھول بھالا ہو۔ اللہ مسلمانوں سے راضی ہو۔ اللہ کی طرف سے آسمان سے رزق نازل ہو۔ زمین اپنے اندر کے خزانے باہر اگل دے۔ امن وامان ہو انسان اور انسانیت کی قدر ہو عدل قائم ہو حق دار کو حق ملے۔ مظلوم کی داد رسی ہو خوش حالی ہواور اللہ تعالیٰ سے دعاء کریں کہ اللہ آخرت میں ان کو جنت میں داخل کرے۔ آمین۔
سندھ کے مشہور تاریخ دانوں نے عبدللہ شاہ غازی کے سندھ میں تشریف لانے کے متعلق دو باتیں تاریخ میں نقل کی ہیں۔ ایک بات جناب سہیل ظہیر لاری صاحب نے بیان کی کہ عبداللہ شاہ غازی نفس ذکیہ کے فرزند ہیں یہ مدینے میں سن720 ء میں پیدا ہوئے اور یہ سندھ میں سن760 ء میں تشریف لائے۔ اُس وقت وہ گھوڑوں کا کاروبار کرتے تھے اور سندھ آتے وقت انہوں نے کوفہ دمشق سے عربی نسل کے کثیرے تعداد میں کھوڑے خریدے اور ان کے تجارت کے لیے سندھ تشریف لائے۔ مسلمان داعی الا للہ ہوتا ہے تجارت کے ساتھ اللہ کے دین کو پھیلانا اور اللہ کی مخلوق کو اللہ تعالیٰ کی واحدنیت کی تعلیم دینا ان بزرک ہستیوں کے مشن میں ہمیشہ سے شامل رہا ہے۔ اس لیے عبداللہ شاہ غازی نے سندھ میںلوگوں کودین اسلام کی تبلیغ کرنا بھی شروع کی اور لا تعداد لوگوں کو اسلام کے امن وشانتی والے مذہب میں شامل کیا۔سادات فیملی سے تعلق کی وجہ سے لوگ ان سے بہت ہی محبت اور عقیدت رکھتے تھے اور ان کی باتوں پر توجہ دیتے تھے۔
دوسری بات مشہور تاریخ دان جناب ڈاکٹر عمر بن دائود پوتا کے حوالے سے مشہور ہے کہ عبداللہ شاہ غازی کا اصل نام عبداللہ بن نبحان ہے اوریہ اسلام فوج کے جرنل تھے اور وہ حجاج بن یوسف والی بصرہ کے حکم سے راجہ داہر والی سندھ سے باز پرس کے لیے اپنے کمانڈر بادل بن طوحافہ کے ساتھ سندھ تشریف لائے تھے ۔مشہور واقعہ ہے کہ لنکا سے مسلمان تاجر خواتین کے ساتھ بحری جہاز میں عرب کی طرف جا رہے تھے کہ دیبل کی بندرگاہ کے قریب بحری ڈاکووں نے انہیں لوٹ لیا اور مسافروں کو قید کر دیا اس پر ایک مسلمان عورت نے بصرہ کے حاکم حجاج بن یوسف کو اپنی رہائی کے لیے خط لکھا تھا۔
حجاج بن یوسف نے سندھ کے حکم راجہ داہر کر ایک خط لکھا کہ عرب مسافروں کو رہا کرو اور ان کو بحفاظت روانہ کر دو مگر راجہ دہر نے واپس خط لکھا کہ بحری ڈاکو میرے کنٹرول میں نہیں ہیں میں مسافروں کو بحفاظت روانہ نہیں کر سکتا۔ حجاج بن یوسف نے اسی سلسلے میںعبداللہ شاہ غازی کو سندھ بھیجا تھا۔بعد میں حجاج بن یوسف نے محمد بن قاسم کو راجہ داہر کے خلاف جنگ اور مسلمان قیدیوں کی رہائی کے لیے روانہ کیا تھا اور محمد بن قاسم نے راجہ داہر کو سندھ میں شکست دی اور مسلمان قیدیوں کو رہا کروایا اور سند ھ کو باب الاسلام ہونے کا شرف حاصل ہوا۔ اس کے بعد عبداللہ شاہ غازی سندھ میں مستقل آباد ہو گئے اوردین اسلام کی تبلیغ کرنی شروع کر دی ۔عبداللہ شاہ غازی کو شکار کا بھی بڑا شوق تھا وہ شکار کے لیے اپنے مرکز سے دور دراز علاقوں میں تشریف لے جاتے تھے۔ ایک دفعہ ان کی دشمنوں سے مٹھ بیڑ ہو گئی۔ دشمن زیادہ تعداد میں تھے عبداللہ شاہ غازی نے صلح کی بجائے ان سے جنگ کی اور ان کو شکست دی۔ اس بہادری کی وجہ سے سندھ کے عوام نے انہیں غازی کا خطاب دیا یعنی جنگ جیتنے والا۔
عبداللہ شاہ غازی کی وفات773 ء میں کراچی کے قریب ہوئی اور ان کو موجودہ جگہ کلفٹن میں موجودہ پہاڑی پر دفن کیا۔ یاد رہے کہ اس پہاڑی کے نیچے میٹھے پانی کا چشمہ موجود ہے ۔ راقم نے خود اس چشمہ کا مشاہدہ ١٩٦٤ء میں کیا تھا۔ شاہد لوگوں کے زیادہ رش کی وجہ سے اب مزار کی انتظامیہ نے چشمہ کو سامنے سے بند کر دیا گیا ہے۔
عبداللہ شاہ غازی کا سندھ میں آنے کا سبب کچھ بھی ہو مگر ایک بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ مسلمان چائے جنرل ہو ، کمانڈر ہویا تاجر ہو،بادشاہ ہو، کسی علاقعے کاحاکم ہو، استاد ہو کچھ بھی ہو داعی الااللہ ہوتا ہے۔ اس کا کام اللہ کے دین کو اللہ کی زمین پرقائم کرنا ہو تا ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں فرمایا کہ میں نے انسان کو زمین میں اپنا خلیفہ مقرر کیا ہے اور خلیفہ کے ذمے یہ کام لگایا ہے کہ اللہ کی کبریائی بیان کرے۔ اللہ کے بندوں کو اللہ کا بندہ بنائے۔ ان کو واحدت کی لڑی میں پروئے۔ اس ذمہ داری کو عبد اللہ شاہ غازی نے خوش اسلوبی سے پورا کیا ۔ لا تعداد لوگوں کو اسلام کی دعوت دی۔ لوگ اسلام لائے ۔اللہ نے ان کاذکر اس دنیا میں بھی بلند کیا آخرت میں اپنے نیک بندوں سے جنت کا وعدہ تو ہے ہی۔