حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ

Hazrat Ali (R.A)

Hazrat Ali (R.A)

حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ رجب کی تیرہ تاریخ کو شہر مکہ میں خانہ کعبہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد کا نام ابوطالب اور والدہ کا نام فاطمہ بنت اسد سلام اللہ علیہا ہے۔پیدائش کے وقت آپ کے والد ابوطالب مکہ سے باہر گئے ہوئے تھے، اس لیے ماں نے ان کا نام اپنے باپ کے نام پر اسد رکھا لیکن جب ابو طالب واپس گھر پہنچے تو انہوں نے آپ کا نام علی رکھا۔ایک جگہ یہ بھی لکھا ہے کہ والدہ نے آپ کا نام حیدر رکھا تھا جو آپ نے جنگ خیبر میں رجز پڑھتے ہوئے استعمال کیا تھا۔ حضرت علی علیہ السلام پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچا زاد بھائی ہیں بچپن میں پیغمبر کے گھر پرورش پائی۔

پیغمبر کی زیر نگرانی آپ کی تربیت ہوئی۔حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ پہلے مرد تھے جنہوں نے اسلام کا اظہار کیا۔ آپ کی عمر اس وقت تقریبا دس یا گیارہ سال تھی۔فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور علی علیہ السلام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زندگی گھریلو زندگی کا ایک بے مثال نمونہ تھی مرد اور عورت آپس میں کس طرح ایک دوسرے کے شریک ْ حیات ثابت ہوسکتے ہیں۔ آپس میں کس طرح تقسیم عمل ہونا چاہیے اور کیوں کر دونوں کی زندگی ایک دوسے کے لیے مددگار ہوسکتی ہے، وہ گھر دنیا کی ارائشوں سے دور , راحت طلبی اور تن آسانی سے بالکل علیحدہ تھا , محنت اور مشقت کے ساتھ ساتھ دلی اطمینان اور آپس کی محبت واعتماد کے لحاظ سے ایک جنت بناہوا تھا، جہاں سے علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ صبح کو مشکیزہ لے کر جاتے تھے اور یہودیوں کے باغ میں پانی دیتے تھے اورجو کچھ مزدوری ملتی تھی اسے لا کر گھر پر دیتے تھے۔

بازار سے جو خرید کر فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو دیتے تھے اور فاطمہ سلام اللہ علیھا چکی پیستی کھانا پکاتی اور گھر میں جھاڑو دیتی تھیں۔ فرصت کے اوقات میں چرخہ چلاتی تھیں اور خود اپنے اور اپنے گھر والوں کو لباس کے لیے اور کبھی مزدوری کے طور پر سوت کاتتی تھیں اور اس طرح گھر میں رہ کر زندگی کی مہم میں اپنے شوہر کاہاتھ بٹاتی تھیں۔مدینہ میں آکر پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو مخالف گروہ نے آرام سے بیٹھنے نہ دیا ۔ آپ کے وہ پیرو جو مکہ میں تھے انھیں طرح طرح کی تکلیفیں دی جانے لگیں بعض کو شہید کیا گیا۔ بعض کو قید اور بعض کو زد وکوب کیااور تکلیفیں پہنچائیں۔پہلے ابو جہل اور غزوہ بدر کے بعد ابوسفیان کی قیادت میں مشرکینِ مکہ نے جنگی تیاریاں کیں یہی نہیں بلکہ اسلحہ اور فوج جمع کر کے خود رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خلاف مدینہ پر چڑھائی کردی۔ اس موقع پر رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا اخلاقی فرض تھا کہ وہ مدینہ والوں کے گھروں کی حفاظت کرتے جنھوںنے کہ آپ کوانتہائی ناگوار حالات میں پناہ دی تھی اور آپ کی نصرت و امداد کاوعدہ کیا تھا ۔آپ نے یہ کسی طرح پسند نہ کیا۔

Islam

Islam

آپ شہر کے اندرر کر مقابلہ کریں اور دشمن کو یہ موقع دیں کہ وہ مدینہ کی پر امن ابادی اور عورتوں اور بچوں کو بھی پریشان کرسکے گو آپ کے ساتھ تعدا دبہت کم تھی لیکن صرف تین سو تیرہ آدمی تھے , ہتھیار بھی نہ تھے مگر آپ نے یہ طے کرلیا کہ آپ باہر نکل کر دشمن سے مقابلہ کریں گے چنانچہ پہلی لڑائی اسلام کی ہوئی جو غزوہ بدر کے نام سے مشہور ہے اس لڑائی میں آپ کے چچا زاد بھائی عبیدہ ابن حارث ابن عبدالمطلب اس جنگ میں شہید ہوئے. علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جنگ کا یہ پہلا تجربہ تھا . 25 برس کی عمر تھی مگر جنگ کی فتح کا سہرا حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سر رہا اس کے بعد غزوہ احد، غزوہ خندق، غزوہ خیبر اور غزوہ حنین یہ وہ بڑی لڑائیاں ہیں جن میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ رہ کر اپنی بے نظیر بہادری کے جوہر دکھلائے۔ تقریباًان تمام لڑائیوں میں حضرت علی علیہ السلام کو علمداری کا عہدہ بھی حاصل رہا۔

اس کے علاوہ بہت سی لڑائیاں ایسی تھیں جن میں رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تنہا بھیجا اورانھوںنے اکیلے ان تمام لڑائیوں میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بڑی بہادری اور ثابت قدمی دکھائی اور انتہائی استقلال، تحمّل اور شرافت ْ نفس سے کام لیاجس کا اقرار خود ان کے دشمن بھی کرتے تھے۔ غزوہ خندق میں دشمن کے سب سے بڑے سورما عمر وبن عبدود کو جب آپ نے مغلوب کر لیا اور اس کاسر کاٹنے کے لیے اس کے سینے پر بیٹھے تو اس نے آپ کے چہرے پر لعب دہن پھینک دیاآپ کو غصہ ا گیا اور آپ اس کے سینے پر سے اتر ائے صرف اس خیال سے کہ اگر غصّے میں اس کو قتل کیا تو یہ عمل محض خدا کی راہ میں نہ ہوگا بلکہ خواہش نفس کے مطابق ہوگا۔ کچھ دیر کے بعد آپ نے اس کو قتل کیا اس زمانے میں دشمن کو ذلیل کرنے کے لیے اس کی لاش برہنہ کردیتے تھے مگر حضرت علی علیہ السلام نے اس کی زرہ نہیں اْتاری اگرچہ وہ بہت قیمتی تھی۔ آپ نے کبھی دشمن کی عورتوں یا بچّوں پر ہاتھ نہیں اٹھا یا اور کبھی مالِ غنیمت کی طرف رخ نہیں کیا۔حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی امتیازی صفات اور خدمات کی بنا پر رسول کریم ان کی بہت عزت کرتے تھے او اپنے قول اور فعل سے ان کی خوبیوں کو ظاہر کرتے رہتے تھے۔

Hazrat Muhammad PBUH

Hazrat Muhammad PBUH

جتنے مناقب حضرت علی علیہ السّلام کے بارے میں احادیث نبوی میں موجود ہیں، کسی اور صحابی رسول کے بارے میں نہیں ملتے۔ مثلا آنحضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے یہ الفاظ علی مجھ سے ہیں اور میں علی سے ہوں،کبھی یہ کہا کہ میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے ،آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ عشرہ مبشرہ میں شامل تھے۔ جب ابوبکررضی اللہ تعالیٰ عنہ امیر حج بنا کر بھیجے گئے تو اسی اثنا میں سورة براء ت نازل ہوئی تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ ذمے داری دی کہ لوگوں کے اجتماع میں جا کر یہ سورت سنائیں۔ حجة الوداع سے کچھ عرصہ قبل حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے آپ کو یمن میں داعی اسلام بنا کر بھیجا، آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی دعوت پر لوگ بلا تامل حلقہ بگوش اسلام ہوگئے۔حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو 19 رمضان40ھ کو صبح کے وقت مسجد میں عین حالتِ نماز میں ایک زہر میں بجھی ہوئی تلوار سے زخمی کیا گیا۔ جب آپ کے قاتل کو گرفتار کرکے آپ کے سامنے لائے اور آپ نے دیکھا کہ اس کا چہرہ زرد ہے اور آنکھوں سے آنسو جاری ہیں تو آپ کو اس پر بھی رحم آ گیا اور اپنے دونوں فرزندوں حضرت حسن علیہ السلام اور حضرت حسین علیہ السلام کو ہدایت فرمائی کہ یہ تمہارا قیدی ہے اس کے ساتھ کوئی سختی نہ کرنا جو کچھ خود کھانا وہ اسے کھلانا۔

اگر میں اچھا ہو گیا تو مجھے اختیار ہے میں چاہوں گا تو سزا دوں گا اور چاہوں گا تو معاف کردوں گا اور اگر میں دنیا میں نہ رہا اور تم نے اس سے انتقام لینا چاہا تو اسے ایک ہی ضرب لگانا، کیونکہ اس نے مجھے ایک ہی ضرب لگائی ہے اور ہر گز اس کے ہاتھ پاؤں وغیرہ قطع نہ کیے جائیں، اس لیے کہ یہ تعلیم اسلام کے خلاف ہے، دو روز تک حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بستر بیماری پر انتہائی کرب اور تکلیف کے ساتھ رہے اخر کار زہر کا اثر جسم میں پھیل گیا اور 21 رمضان کو نمازِ صبح کے وقت آپ کی شہادت ہوئی۔ حضرت حسن علیہ السلام و حضرت حسین علیہ السلام نے تجہیزو تکفین کی اور پشتِ کوفہ پر نجف کی سرزمین میں دفن کیے گئے۔

Mumtaz Awan

Mumtaz Awan

تحریر: ممتاز اعوان
برائے رابطہ:03215473472