تحریر: کرن ناز 21 رمضان یوم شہادتِ مولائے کائنات، شیر خدا، امیر المومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ ابن ابی طالب ہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ ابن ابی طالب کی ولادت ہجرت نبوی سے 23 سال قبل یعنی 30 عام الفیل مطابق 600 عیسوی تیرہ رجب یوم جمعہ خانہء کعبہ مےں ہوئی۔ آپ کے والد حضرت ابوطالب بن عبدالمطلب اور والدہ فاطمہ بنت اسد تھے۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ ابن ابی طالب نے آگے بڑھ کر عرض کےا’ےا رسول اللہ مےں آپ کے دشمنوں کو نےزہ ماروں گا،ان کی آنکھےں پھوڑوں گا اور آپ کا وزےر ہوں گا۔ آنحضرت نے اس وقت حضرت علی ؓ کی گردن پرہاتھ رکھ کر ارشاد فرماےا ’ےہ مےرا بھائی ہے، مےرا وصی ہے اور مےرا خلےفہ ہے تمہارے درمےان،اس کی سنو اور اطاعت کرو‘۔ نبوت کے ساتوےں سال جب کفار مکہ نے بنو ہاشم کا سوشل بائےکاٹ کےا تو آپ ؓ بھی قبےلے کے دےگر افراد کے ہمراہ تےن سال تک شعب ابی طالب مےں محصور رہے۔ اس دوران بنو ہاشم کےلئے غلے کی فراہمی آپ ؓ کے ذمے تھی۔(سےر ت النبی جلد اول ص۹۰۱)بعثت کے تےرہوےں سال شب ہجرت چالیس تلواروں کے سائے میں سو کر محسن رسالت نے نبیﷺ کا حقیقی مددگار ہونے کا ثبوت دیا ۔ جب رسول اللہ نے انصار و مہاجرین میں رشتہءاخوت قائم کیا تو حضرت علیؓ کو اپنا بھائی قرار دےا۔ ہجرت کے دوسرے سال پےغمبر خدا نے اپنی لخت جگر سیدہ النساءالعالمین حضرت فاطمہ زہرا ؓکا عقد مولائے کائنات سے کیا۔ ماہ شعبان ۲ ہجری مےںتحوےل کعبہ ہوئی ےعنی بےت القدس کی طرف سے قبلہ کا رخ کعبے کی طرف موڑدےاگےا۔قبلہ چونکہ عالم نماز مےں بدلاگےا اسلئے آنحضرت کاساتھ حضرت علی ؓ کے سوا اورکسی نے نہےں دےا۔ آپ ؓ مقام فخر مےں فرماےا کرتے تھے’انامصلی القبلتےن‘ ’ مےں ہی ہوں جس نے اےک نماز بےک وقت دو قبلوں کی طرف پڑھی۔‘ہجرت کے بعد غزوات کا اےک طوےل سلسلہ شروع ہوااور تمام غزوات کی کامےابی مےں مولائے کائنات کی شجاعت و بہادری کا اہم کردار رہا۔
بدر ہوےااحد ،خندق ہو ےا خےبر ،حنےن ہو ےا کوئی اور معرکہ ،ہر جنگ میںمولائے کائنات ؓ نے اپنی بہادری کے جوہر دکھائے اور مسلمانوں کو فتح و کامرانی سے ہمکنار کےا۔ ہر جنگ کے علمبردار حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ تھے۔ جنگ احد کے موقع پر تحفظ رسالت کرتے ہوئے حضرت علیؓ کی تلوار ٹوٹی تھی اور ذوالفقار دستیاب ہوئی تھی۔(تاریخ طبری جلد ۴ص ۶۰۴ و تاریخ کامل جلد ۲ص۸۵)۔ ذےقعد ۶ہجری کو حدیبیہ کا صلح نامہ لکھنے کا اعزاز بھی حضرت علی ؓ کے حصے میں آیا۔ آپؓ کوانحضرت کے فرامین لکھنے کا شرف بھی حاصل ہے۔
Allah
8 ہجری کو فتح مکہ کے موقع پر داخل حرم ہونے کے بعد پیغمبر خدا نے ان تمام بتوں کو اپنے ہاتھوں سے توڑا جو نےچے تھے اور بلندی پر موجود بتوں کو توڑنے کےلئے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو اپنے کاندھوں پر سوار کیا۔(تاریخ اسلام امتیاز پراچہ ص۱۷۱)۔ 9 ہجری میں تبوک کا معرکہ پیش آیا۔ آنحضرت حفظ ماتقدم کے طور پر مدینہ کا نظام حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے سپرد کرکے30ہزار کے لشکر کے ساتھ شام کی جانب روانہ ہوئے ۔ روانگی کے وقت آپ نے فرمایا ’ کیا تم اس پر راضی نہیں ہوکہ میں تمہیںاسی طرح اپنا جانشین بناکر جاﺅں جس طرح جناب موسی ؑ اپنے بھائی ہارون ؑ کو بناکر جایاکرتے تھے۔(صحےح بخاری ، کتاب المغازی ) ۔9ہجری کو ہی تبلیغ سورئہ برات کی ذمے داری بھی آپ ؓ کے سپرد کی گئی۔(صحیح بخاری،کنزالعمال ،درمنشور،تاریخ خمیس، خصائص نسائی، طبری، ریاض النضرہ وغیرہم) حضرت محمد مصطفی،خاتم النبیین ﷺ کے انتقال کے بعد کا عرصہ آپ نے سکوت اور گوشہ نشینی میں میں بسر کیا۔گوشہ نشینی کے اس دور میں بھی حضرت علیؓ نے اپنے مفید مشوروںاور جانی امداد سے دیگر خلافتوں کی مدد کی۔
آنحضرت ﷺ نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے بارے میں ارشاد فرمایا” انا مدینة العلم و علی بابھا ” ےعنی میں شہر علم ہوں اور علیؓ اس کا دروازہ۔ محب طبری فرماتے ہیں کہ سرور عالم کا ارشاد ہے :جو شخص علم آدم ،فہم نوح ،حلم ابراہیم ،زہد یحیٰ،صولت موسیٰ کو ان حضرات سمیت دیکھنا چاہے اسے چاہیے کہ وہ علی ابن ابی طالب ؓ کے چہرئہ انور کو دیکھے۔( ملاحظہ ہو نو رالابصار،شرح مواقف،مطالب السﺅل، صواعق محرقہ،شواہد النبوة، ابو الفدا، کشف الغمہ، نیابیع المودت، مناقب ابن شہر آشوب، ریاض النضرہ ، ارحج المطالب،انوار اللغة) ۔ علمائے اسلام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اسلام میں سب سے پہلے مصنف حضرت علی ؓ ہیں۔ آپ کی کتابوں میں سے کچھ کے نام ” کتاب علی، کتاب جامعہ، صحیفہ علویہ ، کتاب الجفر ، زکوٰة النعم ، ابواب فقہ ،کتاب فی الفقہ ”ہیں۔آپ ؓ کے اشعار کا مجموعہ ”دیوان علی ” کے نام سے حضرت علی ؓ کی طرف منسوب ہے۔ ےہ بھی مسلم ہے کہ سب سے پہلے جامع قرآن مجید بھی حضرت علی کرم اللہ وجہہ ہی ہیںجنہوں نے قرآن پاک کو تنزیل کے مطابق جمع کیا ۔ملاحظہ ہو نو رالابصار امام شبلخجیص۳۷طبع مصر ، اعیان الشیعہ ) نہج البلاغہ امیر المومنین حضرت علی مراتضیٰ کرم اللہ وجہہ کے فصیح و بلیغ خطبات و ارشادات کا مجموعہ ہے جسے جناب سید رضی ؒ نے چوتھی صدی ہجری کے آخر میں جمع کیا۔
Muhammad S.A.W
مولائے کائنات کا زمانہءخلافت 35 ہجری تا 40 ہجری ہے۔تخت خلافت پر متمکن ہوتے ہی مخالفین نے آپ ؓ کے خلاف سازشوں اور شورشوں کا بازار گرم کردیا ۔چنانچہ جنگ جمل، صفین، خوارج و نہروان پیش آئیں۔ صفین کے سازشی فیصلہءحکمین کے بعد حضرت علی کرم اللہ وجہہ اس نتےجہ پر پہنچے کہ اب ایک فیصلہ کن حملہ کرنا چاہےے ۔چنانچہ صفین و نہروان کے بعد ہی سے آپ ؓ اس طرف متوجہ ہوگئے۔چالیس ہزار کا لشکر تیار تھا لیکن کوچ کا دن آنے سے قبل ہی ایک خارجی ابن ملجم بن عبدالرحمن نے 19 رمضان کو مسجد کوفہ میں نماز فجر کے دوران آپ ؓ کے سر پر زہر آلود تلوار سے ایسا کاری وار کیا۔جس سے آپ جانبر نہ ہوسکے۔دو دن شدید زخمی حالت میں رہنے کے بعد 21 رمضان المبارک کو 63 برس کی عمر میں شہید ہوگئے۔ تاریخ ابوالفداءمیں ہے کہ آپ ؓ نجف اشرف میں سپرد خاک کئے گئے۔جو اب بھی زیارت گاہِ عالم ہے۔ کتاب انوار الحسینیہ ج ۲ ص ۶۳ اور مسٹر گبن کی تاریخ ڈیگائن اینڈ ہال آف دی رومن ایمپائر میں ہے کہ ظالم بنو امیہ کی وجہ سے حضرت علی ؓ کی قبر مخفی رکھی گئی تھی۔