قریش مکہ کے مظالم سے تنگ آکر رحمتِ دو جہاں ۖ مکہ سے ہجرت فرما کر مدینہ تشریف لے گئے۔ اہلِ مکہ مہاجرین مدینہ منورہ میں پر دیسی تھے اِس لیے رسول دوجہاں ۖ نے ایک دن مہاجرین اور انصار کو ایک جگہ کیا ۔ اور ان کے درمیان رشتہ مواخا کا عظیم سلسلہ قائم فرمایا اِ س لیے پہلے مہاجرین ِ مدینہ منورہ میں بطور مہمان تھے لیکن اب ان سے رشتہ اخوت و یگانگت میں بندھ گئے ۔ اِس رشتہ کے بعد اِن کے دلوں میں ایسی بے مثال اور حقیقی محبت اور خیر خواہی پیدا ہو گئی کہ حقیقی بھائیوں میں بھی نہیں ہو سکتی تھی ۔ اِس عظیم موقع پر ایک نوجوان جاں نثار کو شافع دو عالم ۖ نے ویسے ہی چھوڑ دیا اِن کا رشتہ کسی سے قائم نہ فرمایا۔
یہ جاں نثار نوجوان تھوڑا سا آزردہ ہو گیا آگے بڑھ کر بارگاہِ رسالت ۖ میں عرض گزار ہوئے یا رسول اللہ ۖ آپ ۖ نے تمام اصحاب کے درمیان مواخو قائم کر ائی ہے لیکن میری مواخا کسی سے بھی نہیں کرائی سر تاج الانبیا ۖ شفقت سے مسکرائے اور اس جانثار نوجوان کا ہاتھ محبت سے پکڑ لیا اور شفقت بھری نظروں سے اسے دیکھتے ہو ئے فرمایا تم میرے بھائی ہو اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی ۔ رسول اللہ ۖ کی زبان مبارک سے یہ سن کر نوجوان فرطِ مسرت سے بے قابو ہو گیا ہجرت کی شب مکہ سے روانگی کے وقت رحمتِ دو عالم ۖ نے اِسی نوجوان کو اپنے بستر مبارک پر استر احت کا حکم دیا اور خود حضرت ابو بکر صدیق کے ساتھ سوئے مدینہ چل پڑے کفار مکہ نے نبی کریم ۖ کے کاشانہ اطہر کا گھیرا کر رکھا تھا کہ آپ ۖ کو قتل کر دیں گے(نعوذباللہ ) اِس ہولناک رات میں اِس نوجوان کا موت کے خوف سے بے نیاز ہو کر محو استراحت ہو نا اِس بات کاعملی ثبوت ہے کہ یہ نوجوان آقائے دو جہاں ۖ سے بے پناہ محبت کر تا تھا اور پوری زندگی ہر لمحہ سائے کی طرح رحمت دو جہاں ۖ کے ساتھ لگا رہا کہ کوئی آپ ۖ کو نقصان نہ پہنچا دے۔
اِس عظیم جا نثار خوش بخت نوجوان جن کو محبوب خدا ۖ نے دنیا اور آکرت میں اپنا بھائی قرار دیا اور جن کی نسبت کو اِس نسبت سے تشبیہ دی جو حضرت موسی کو حضرت ہارون سے تھی سیدنا حضرت علی کرم اللہ وجہہ بن ابی طالب تھے ۔ سیدنا علی کی ولادت رجب عام الفیل بعثت نبوی ۖ سے دس سال پہلے جمع المبارک کے دن مکہ مکرمہ خانہ کعبہ کے اندر ہو ئی یہ سعادت صرف اور صرف آپ کے حصے میں آئی ۔ حضرت ابو طالب کی تنگدستی دیکھ کر حضور ۖ نے ان کا بوجھ ہلکا کر نے کی تجویز سوچی کہ جب حضرت علی تھوڑے بڑے ہو ئے تو ان کو اپنی کفالت میں لے لیا گویا وہ 5سال سے محبوب خدا ۖ کے دامن اقدس سے وابستہ ہو گئے اور آغوش ِ نبوت میں پر ورش اور تربیت پائی ۔ نبوت کے بعد جن چار نفوس قدسی کو سب سے پہلے اسلام کا شرف حاصل ہوا اِن میں سے ایک حضرت علی تھے۔
آپ کا اسم گرامی علی ہے مشہور القاب حیدر۔ مرتضی اور اسد اللہ ہیں کنیت ابو الحسن اور ابو تراب تھی ابو تراب کیونکہ محبوب خدا نے کہا تھا آپ اِس لیے اس کو بہت عزیز جانتے تھے کیونکہ یہ عطیہ رسول ۖ تھی ۔ حسب نسب کے لیے اتنا کافی ہے کہ سرور کائنات ۖ کے حقیقی چچا حضرت ابو طالب بن عبدالمطلب کے فرزند تھے والدہ کا نام فاطمہ بنتِ اسد بن ہاشم تھا اِس طرح حضرت علی ماں باپ دونوں طرف سے ہاشمی تھے ۔ حضرت ابو طالب نے قریش کے مقابلے میں شہنشاہِ دو عالم ۖ کی جس طرح پرورش کی سرپرستی اور حمایت میں تن من کی بازی لگا دی وہ تاریخ اسلام کا ایک روشن و عظیم باب ہے اِسی طرح حضرت علی کی والدہ نے بھی حضور پر نور ۖ کی نہایت محبت اور خلوص سے سر پرستی اور پر ورش کی جب انہوں نے وفات پائی تو نبی کریم ۖ نے اپنی قمیض مبارک کا کفن پہنایا اور میت کے سرہانے کھڑے ہو کر ارشاد فرمایا اے میری ماں اللہ آپ پر رحم کرے آپ میری ماں کے بعد ماں تھیں آپ خود بھوکی رہتی تھیں مگر مجھے کھلاتی تھیں آپ کو خود لباس کی ضرورت ہوتی تھی لیکن آپ مجھے پہناتی تھی گویا حضرت علی کے والد اور والدہ ماجدہ دونوں سرور کائنات ۖ کے مربی اور محسن تھے حضرت علی صرف ابن عم مصطفے ہی نہیں تھے بلکہ آپ ۖ کے مواخاتی بھائی بھی تھے اور آپ ۖ کی لخت جگر سید النسا حضرت فاطمہ الزھرہ کے شوہر بھی۔
قبول اسلام کے بعد حضرت علی نے بھی حضور اقدس ۖ کے ساتھ نماز پڑھنی شروع کر دی ایک دن حضرت ابو طالب نے انہیں نماز پڑھتے دیکھا تو پوچھا بیٹا یہ کیا دین ہے جس پر تو چل رہا ہے تو انہوں نے کہا اباجان میں اللہ اور اس کے رسول ۖ پر ایمان لا یا ہوں اور ان کی تصدیق کی ہے اور ان کے ساتھ نماز پڑھی ہے ابو طالب نے کہا محمد تمھیں بھلائی کے سوا کسی چیز کی طرف نہیں بلائیں گے تم ان کے ساتھ لگے رہو ۔ نبوت کے بعد رسول اقدس ۖ نے بنو ہاشم کو کھانے پر بلایا تو چالیس آدمی مدعو تھے کھانے کے بعد سرور دو عالم ۖ نے جب دین کی دعوت دی تو سب خا مو ش رہے لیکن حضرت علی نے اٹھ کر عرض کی اگرچہ میری عمر کم ہے تاہم میں آپ ۖ کا ساتھ دوں گا اس وقت آپ کی عمر تیرہ برس تھی فتح مکہ کے موقع پر حضرت علی ان دس ہزار سرفروشوں میں شامل تھے جن کو سرور دو عالم ۖ کی ہمر کابی کا شرف حاصل ہوا اور جن کے بارے میں سینکڑوں سال پہلے یوں پیش گوئی کی گئی تھی۔
خداوند سینا سے آیا اور شعر سے ان پر طلوع ہوا کوہِ فاران سے وہ جلوہ گر ہوا دس ہزار قدوسوں کے ساتھ آیا اور اس کے ہا تھ ایک آتشیں شریعت تھی ، حضور اقدس ۖ نے فتح مکہ کے بعد کعبہ میں داخل ہو کر بتوں کو توڑا تو تانبے سے بنا ہوا سب سے بڑا بت رہ گیا کیونکہ یہ لو ہے کی ایک سلاخ کے ساتھ زمین میں پیوست تھا پیارے آقا ۖ نے حضرت علی کے کندھوں پر چڑھ کر تو ڑنا چاہا لیکن وہ نہایت مضبوط ہونے کے باوجود حضور پر نور ۖ کے جسم اطہر کا بار نہ سہہ سکے اِس پر محبوب خدا ۖ نے حضرت علی کو اپنے شانہ اقدس پر چڑھا کر اس بت کو گرانے کا حکم دیا انہوں نے سلاخ اکھاڑ کر اس بت کو گرا دیا ۔ اسلامی تاریخ کے نامور سپوت حضرت علی کو خدا نے بہت سارے امتیازات اور اعزازات سے نوازا ہے ان میں سے کوئی ایک اعزاز دنیا بھر کی ناموری اور آخرت کی سر خروئی کے لیے کافی ہے۔
شیرِ خدا جنہیں برس ہا برس تک محبوب خدا ۖ کی آغوش نصیب ہوئی نو عمر لوگوں میں سب سے پہلے ایمان لانے کا شرف حاصل ہوا جن کی پیشانی پر دور جہالت میں بھی بت پرستی کا داغ نہ لگا جو خدا کے آخری نبی کے چچا زاد بھائی ہیں ۔ آپ کی شادی اس جگر گو شہ رسول ۖ کی صاحبزادی سے ہوئی جن کے احترام میں سردار الانبیا ۖ کھڑے ہو جایا کرتے تھے ۔ فتح خیبر کا عظیم اعزاز بھی آپ کا مقدر بنا ۔ جن صاحبزادوں میں ایک امام حسن ہیں جو اسلام اور امت کے وسیع تر مفاد اور اتحاد کے مسند اقتدار سے دستبردار ہو نے کا حوصلہ رکھتے ہیں اور دوسرے شید الشہدا امام حسین ہیں جو آبروئے اسلام کی حفاظت اور ملتِ اسلامیہ کی وحدت برقرار رکھنے کے لیے حکمران وقت کے مد مقابل آنے کا جذبہ رکھتے ہیں علی جو ہر غزوہ میں رسول خدا ۖ کے دوش بدوش رہے جن کا شمار عشرہ مبشرہ اصحاب بدر احد شرکائے خندوق اور عظیم خلفائے راشدین میں ہو تا ہے علی جن کو ایک سے زائد بار زبان پیغمبر سے مومن اور جنتی ہو نے کی بشارت ملی آپ کے ہی کے بارے میں رسول خدا ۖ نے کہا علی تمھاری ہڈیوں کے گودے تک ایمان بھرا ہے آپ کے ہی بارے میں رسول ۖ کا فرمان علی حق کے ساتھ ہے اور حق علی کے ساتھ ہے اور میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے اور میں علی سے ہوں اور علی مجھ سے ہیں۔