قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ” اللہ کے ولیوں کو کوئی حزن و ملال نہیں ہے ” تو اس آیت سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اللہ کے ولی ظاہراََ تو اس دنیا سے پردہ پوشی اختیار کر کے ابدی نیند سو گئے ہیں مگر ان کے درگاہوں سے فیوض و برکات کے چشمے آج بھی جاری ہیں اور ہمیشہ جاری رہیں گے اور دوسرے لفظوں میں اس کی تقسیم یہ ہے کہ ولایت نے قیامت تک برقرار رہنا ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ خالق اکبر جل شانہ نے دین کی تبلیغ کی خاطر کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبرزمین پر بھیجے جنہوں نے اسلام کی تعلیمات دیں اور دین کے لیئے کفار سے جنگیں کیںاور بے شمار لوگوں کو حلقہ بگوش اسلام کیا، ہمارے بنی آخر الزماں کے بعد ان کی آل اطہار اور صحابہ اکرم نے بھی دین اسلام اور شریعت ِ محمدی ۖ کے چراغ روشن فرمائے جن سے حق کا بول بالا ہوا اور باطل کو شکست فاش ہوئی، اولیائے کرام اور بزرگانِ دین نے بھی اس روش کو جاری رکھتے ہوئے اسلام کی اشاعت میں اپنا اپنا بھرپور کردار ادا کیا ہے۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ شروع سے برصغیر ولیوں کا مسکن رہا ہے اور برصغیر کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ ولیوں نے اس کی سرزمین کو پسند فرماتے ہوئے یہاں مستقل قیام فرمایا اور گوشہ بھی ان کے وجودکی برکت سے محروم نہیں رہا، ان شہروں میں اجمیر شریف، مدینةُ الاولیاء ملتان ، اُوچ شریف، منصورہ، ریاست بہاولپور،پاکپتن شریف، قائم پور،سخی سرور، قصور، بلوٹ شریف اور لاہور سرِ فہرست ہیں، اور برصغیر کے مختلف شہروں میں ان کی درگاہیں اس بات کا ایک جیتا جاگتا اور منہ بولتا ثبوت ہیں،
میں جس ولی کامل کا تذکرہ کرنے لگاہوں تاریخ کی مختلف کتب میں ان کا خاندانی نام علی درج ہے کنیت ابوالحسن اور مشہور لقب گنج بخش ہے وہ غزنی کے شہر ہجویر میں بااختلاف رائے 375 ہجری یا 400 ہجری میں پیدا ہوئے (یعنی آپ کی ولادت 375 ہجری سے 400 ہجری کے درمیان ہوئی ہے)اور آپ کے والد گرامی کا نام عثمان الجلابی ہے آپ نے غزنی کی دو بستیوں ہجویر اور جلاب میں اپنی زندگی کے ابتدائی ایام بسر کیئے جسکی وجہ ہے آپ ہجویری اور جلابی بھی کہلائے اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ آپ کو شروع ہی سے دنیا کی طرف رغبت نہیں تھی اور دین اور مذہب سے دلی لگائو تھا اور یہی لگن آپ کو حصول علم کے لیئے بیشمار ملکوں اور شہروں میں لے گئی جن میں خراسان، نیشاپور، آزربائیجان، طوبی، سرخس، سمرقند، سامراوبسطام، فرخانہ، ماورالنہر، ترکستان، خوزستان، بخاراکرمان، اہنواز، دمشق، فارس، بغداد، جبل الکام، وادی بیت الجن، کوفہ، بصرہ اور شمالی ہند وغیرہ سرفہرست ہیں دوران سفر ان خطوں کے اولیاء ومشائخ سے ملاقاتوں کے ساتھ ساتھ آپ نے اپنے ہم عصراور ممتاز اہل علم و ادب سے استفادہ بھی حاصل کیا، یوں تو تاریخ کے مطابق آپ نے بہت سے ممالک دیکھے اگر میں یہ کہوں کہ آپ نے چپے چپے کا پانی پیا اور دین اسلام کی تبلیغ کی ہے تو ہرگز بے جانہ ہو گا۔
سیروسیاحت کی وجہ سے آپ میں لکھنے کا تحرک پیدا ہوا اور آپ نے بارہ سال کی چھوٹی عمر میں اپنی پہلی تصنیف کامیابی سے مکمل کی آپ کی تصنیفات میں کشف المجوب، کشف الاسرار، مہناج الدین، دیوان ہجویری،ا لرعیة المخلوق اللہ، کتاب الفناو بقا، اسرار الخرق المونات، نحوالقلوب، کتاب البیان لاہل العیان اور شرح کلام منصور شامل ہیں مگر آجکل کشف المجوب اور کشف الاسرار کے سوا آپ کی کوئی بھی تصنیف محفوظ نہیں ہے اور یہ دونوں کتب بھی ایک روسی مفکر کے ذریعے ہم تک پہنچی ہیں جو فارسی میںلکھی ہوئی ہیں، کشف الاسرار میں آپ یوں رقمطراز ہوتے ہیں کہ ” اے علی اخلقت تجھے گنج بخش(خزانے بخشنے والا) کہتی ہے حالانکہ تیرے پاس تو ایک دھیلا بھی نہیں ہے، گنج بخش تو اس کو سزوار ہے جو مالک الملک ہے اوردونوں جہانوں کا مالک ہے اور ہماری شہہ رگ سے بھی زیادہ ہمارے قریب رہتا ہے آپ کشف المجوب کی ابتداء میں رسول ۖ کی ذات مبارکہ پر درودسلام بھیجتے ہیں اور آپ کا اسم گرامی بڑی تعظیم اور بڑے القابات کے ساتھ لیتے ہیں یہ انداز بیاں نبی آخر الزمان ۖ کی ذات باصفات کے ساتھ آپ کی والہانہ محبت اور آپ کے تعلق حبی اور تعلق احترام و اکرام کا منہ بولتا ثبوت ہے آپ دعائیہ انداز میں فرماتے ہیں ” اللہ تعالیٰ کے رسول محمد مصطفی ۖ اور ان کی آل اطہار و اصحاب اور ازواج مطہرات ہمیشہ ہمیشہ درود سلام نازل فرما ” ۔
کشف المجوب میں آپ تحریر فرماتے ہیں کہ قیام عراق کے زمانے میں میں نے کشادہ دستی کو اپنا لیا تھا جس کے نتیجہ میں میں قرض کے بوجھ تلے دب گیا دریں اثناء عراق کے ایک سردار نے جو میرے اس حال سے واقف تھا نے مجھے خط لکھا کہ جو طریق تم نے اختیار کر رکھا ہے اس سے پیدا شدہ پریشانیاں عبادت و ذکر الہٰی میں مانع نہ ہو جائیں یوں پیسہ خرچ کرنا اچھا نہیں ہے بندوں کی ضرورت کے لیئے خدا کافی ہے اس کے سوا دوسرے کسی میں اتنی ہمت نہیں کہ کسی کی کفالت کر سکے یوں میں نے اس نیک دل سردار کی اس پر حکمت بات کو نہ صرف مانا بلکہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیئے پلے باندھ لیا اور پھر اس تنگی سے چھٹکارا حاصل کیا،
حضرت علی ہجویری نے جس سرزمین کو اپنا مسکن بنایا وہ لاہور کی خوش نصیب دھرتی تھی اور یہاں آکر آپ نے جو علم و ادب، افہام و تفہیم، امن و آتشی اور رحمتوں کے جو دیے جلائے وہ آپ کی محنت سعی ِکامل اور اسلام سے گہرے لگائو کا منہ بولتا ثبوت ہیں ۔ مؤرخین کی اکثریت اس بات سے متفق ہے کہ آپ نے431 ہجری میں سلطان مسعود غزنوی کے دورِ حکومت میں اپنے پیرومرشد حضرت ابوالفضل کے حکم پر لاہور کو اپنا مستقل وطن بنایا۔ آمد لاہور کے بارے میں یہ روایت مشہور ہے کہ جس وقت آپ کے مرشد نے آپ کو لاہور ہجرت کرنے کا حکم دیا تو آپ حیران ہوئے اور آپ نے دست بستہ استدعا کی کہ حضور لاہور میں تو پہلے سے ہمارے پیر بھائی اور مرید خاص حضرت شاہ حسین زنجانی موجود ہیں؟ تو حضرت ابوالفضل نے فرمایا اے علی! تمہارے حق میں یہی بہتر ہے کہ تم تبلیغ اسلام کا فریضہ سرانجام دینے کے لیئے لاہور کا رخ کر وتو یہ حکم نامہ سنتے ہی آپ نے شیخ احمد حماد سرخی اور شیخ ابوسعید ہجویری کے ہمراہ رخصت سفر باندھا اور غزنی سے براستہ دریا لاہور آپہنچے جب لاہور پہنچے تو رات کا وقت تھا۔
صبح ہوئی تو آپ نے دیکھا کہ بہت سارے لوگ ایک جنازہ اٹھا کر جا رہے تھے دریافت کرنے پر پتہ چلا کہ یہ شاہ حسین زنجانی کا جنازہ ہے تو یہ سن کر آپ مرشد کے فرمان کی حکمت اور تہہ تک پہنچے، ان دنوں غزنی پر سلطان محمود غزنی کے فرزند سلطان مسعود غزنوی کی حکومت تھی، سلجوقیوں نے جن کا حکمران سلطان الپ ارسلان سلجوقی تھانے حملہ کردیا اور مسعود غزنوی کوشکست دی، مسعود غزنوی لاہور آتے ہوئے جہلم کے کنارے مارا گیا تھا اس وقت بہت سے علماء فضلا اور مقامی لوگ بھی دیگر علاقوں کی طرف ہجرت کر گئے اس وقت دریائے راوی کا بہائو بھاٹی دروازہ کے قریب تھا اب جس جگہ اقبال پارک (مینار پاکستان) ہے اور راوی نالہ کی شکل میں بہتا ہے اس وقت یہ دریائے راوی کی گزر گاہ تھی آپ نے دریائے راوی کے کنارے بھاٹی دروازے کے قریب ایک بلند ٹیلے پر قیام فرمایا اور عبادت و ریاضت اور درس تدریس میں مشغول ہو گئے جہاں آپ کا مزار ہے وہاں آپ نے ایک مسجد بھی تعمیر کروائی اور رشدد ہدایت اور دین کی تبلغ کے احکامات سرانجام دینے لگے۔ مسجد کی تعمیر کے تمام اخراجات آپ نے خوداٹھائے اور خانہ خدا کی تعمیر کے لیئے ایک مزدور کی طرح خود کام کیا یہ مسجد ایک بڑے دلان پر مشتمل تھی اور اس کی چھت لکڑی کی تھی۔ آپ نے اپنی زندگی کے تقریباََ 34 سال زندہ دِلان کے شہر لاہور میں گزارے، آپ کی کتاب کشف المجوب کی شہرت چار دانگ عالم پھیل گئی ہے اور تصوف و عرفان کے حوالے سے آپ کی اس کتاب کا ملکہ بہت بلند ہے اس لافانی کتاب میں انہوں نے اپنے جدے امجد حضرت مولا علی کی جان نثاری اور فداکاری پر قلم اٹھایا اور ان سے اپنی گہری عقیدت و مود ت کا اظہار فرمایا آپ رقم طراز ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے شب ہجرت حضرت جبرائیل ومیکائیل کو ایک دوسرے کا بھائی بنا دیا اور ان کی عمر کے درمیان عمر وں میں تفاوت رکھ دی پھر اللہ تعالیٰ نے دونوں کو کہاکہ تم میں سے کون ایسا ہے جو اپنی عمر اپنے دوسرے بھائی کو حبہ کر دے تو دونوں نے انکار کر دیا اور اپنی اپنی عمر کو ہی اپنے لیئے پسند کیا اس پر ذات باری تعالیٰ نے ارشاد فرمایاکہ تم علی جیسے کیوں نہیں ہو جاتے وہ دیکھو کیسے وہ اپنی عمر اپنے بھائی پر قربان کر رہا ہے جائو اور تمام رات اس کی حفاظت کرو تو اس رات سرہانے حضرت جبرائیل اور پائینی پر حضرت میکائیل حاضر رہے اور وہ یہی کہتے جاتے تھے کہ بخ بخ من مثلک علی ابن ابی طالب ان اللہ یباہی بک علی ملئکتہ ” اے علی ابن ابی طالب تم کتنے خوش قسمت ہو کون ہے جو تمہاری مثل ہو بلا شبہ اللہ تعالیٰ آج تمہارے لیئے فرشتوں میں فخرو مباہات کررہا ہے اور تم اپنی نیند میں مگن ہو” ان کے اس اثیار پر قرآن مجید کی یہ آیت نازل ہوئی جس کا ترجمہ یہ ہے کہ ” کچھ لوگ ایسے ہیں جو اپنی جان کو اللہ کی خاطر بیچ دیتے ہیںاور اللہ رب العزت بندوں پر مہربان ہے” اس واقعہ کو اقبال نے یوں نظم کیا ہے کہ
خودکو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
آپ کے فرامین ہمارے لیئے مشعل راہ ہیں محبت کے حوالے سے مجھے ان کا ایک فرمان یاد آرہا ہے وہ آپ کو ہدیتہ پیش کرتا ہوں آپ کہتے ہیں کہ” محبت کو محبت اس لیئے کہتے ہیں وہ دل سے محبوب کے سوا ہر چیز کو مٹا دیتی ہے ایک اور جگہ اسی کتاب میںبیان فرماتے ہیں کہ شوق محبت کی تاثیر ہے اور نفرت بشریت کے اوصاف میں سے ہے اور بشریت کے حجاب کا کھلنا محبت کے سوا اور کسی طرح ممکن نہیں ”
بالآخر 465ہجری کو آپ اس دنیا فانی کو چھوڑ کر اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔یعنی رشدو ہدایت ، علم و آگہی،فہم و ادراک، آفتاب ولائت، نور خداکا مظہر، محبت و اخوت کا سفیر، توحید کاداعی، امن کا پیامبر اور حیا کا پیکر اس دنیا فانی کے نقشہ سے پردہ پوشی کر گیا مگر اپنی عظمت کے نشانات اور اپنی کرامات پیچھے چھوڑ گیا جو آج بھی ان کے ہونے کا پتہ دیتی ہیں واضح رہے کہ حضرت علی ہجویری کے ولی ہونے میں کوئی شک نہیں آپ ولایت کے اونچے درجے پر فائز تھے آپ کا شجرہ نصب امام حسن سے جا ملتا ہے آپ حسبی نسبی سید ہیں آپ کے روضہ پر حاجی نور محمد نے 1287 ہجری میں سبز گنبد تیار کروایا جو اس سے پہلے نہیں تھا 1968 ھ میں اس گنبد میں دراڑ آگئی جسے میجر ابراہیم نے مرمت کروایا ، 1354ہجری میں مولوی فیروزدین نے سنگ مرمر نصب کروایا جبکہ 24دسمبر 1974 ء میں وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے دربار کے صدر دروازے کی ڈیوڑی میں لگے سونے کے دروازے کا افتتاح کیا۔ اب یہ دربار محکمہ اوقاف کے زیر انتظام ہے۔اور صدیاں بیت جانے کے بعد بھی آپ کا روضہ مرجع الخلائق ہے اور ہزاروں لوگ اس درگاہ رحمت سے استفادہ حاصل کر رہے ہیں اور لاکھوں معتقدین فیض یاب ہو رہے ہیں۔ ہرسال 19 صفرالمظفر کو آپ کا عرس مبارک بڑے مذہبی جوش وخروش اور عقیدت و احترام سے منایا جاتا ہے۔
گنج بخش فیض عالم مظہر نورِ خدا ناقصاں را پیرکامل کاملاں را راہنما