تحریر : ڈاکٹر تصور حسین مرزا ایک دفعہ کا زکر ہے کہ دو شخص کھانا کھانے بیٹھے، ایک کے پاس پانچ روٹیاں جبکہ دوسرے کے پاس تین روٹیاں تھیں، دونوں نے اپنا اپنا کھانا سامنے ٹیبل پر رکھا اور کھانا کھانے ہی والے تھے کہ ایک تیسرے شخص کا ادھر سے گذرہوا، اور ان کو سلام کیا، دونوں نے اس کو بلایا، وہ بھی آ کر بیٹھ گیا، تینوں نے مل کر وہ سب آٹھ روٹیاں کھا ڈالیں، تیسرا شخص اٹھ کھڑا ہوا اور جاتے ہوئے آٹھ درہم دونوں کو دیتے ہوئے کہا:یہ کھانے کا عوض ہے، جو میں نے تمہارے ساتھ کھایا ہے، تیسرا شخص کھانا کھاے کے بعد چلا گیا مگر یہ پہلے والے دونوں آدمیوں کے درمیان آٹھ درہم کی تقسیم کا معاملہ ہوا! اس کے جانے کے بعد دونوں میں حجت و تکرار شروع ہوئی جس کی پانچ روٹیاں تھیں، اس نے کہا:میں پانچ درہم لوں گا اور تین روٹیاں والے کو بولا کہ تجھ کو تین درہم ملیں گے؛ کیونکہ تیری روٹیاں تین تھیں، تین روٹی والے نے کہا:میں تو نصف سے کم پر ہر گز راضی نہ ہوں گا، یعنی چار درہم لے کر چھوڑوں گا، یہ جھگڑا اتنا طول پکڑا کہ بالآخر حضرت امیر المومنین حضرت علی کے سامنے مقدمہ پیش ہوا اور انصاف طلب کیا گیا۔
آپ نے دونوں کے بیانات سن کر تین روٹی والے سے فرمایا تم کو تین درہم ملتے ہیں، یہ کم نہیں ہے؛ کیونکہ تمہاری تین ہی روٹیاں تھیں؛ لہٰذا تم کو جو ملتا ہے اس پر راضی ہوجاؤ، مدعی:میں اپنا پوار حق لوں گا، حضرت علی:اگر حق پر چلتے ہو تو تمہارا حق صرف ایک درہم ہے، تین درہم جو تم کو ملتا ہے تمہارے حق سے کہیں زیادہ ہے، مدعی:سبحان اللہ! آپ نے اچھا فیصلہ کیا، تین درہم یہ شخص خود دیتا رہا اور میں اس پر راضی نہ ہوا، اب آپ فرماتے ہیں کہ تیرا حق ایک ہی درہم ہے، حضرت علی:بے شک تمہارا حق صرف ایک درہم ہے، تمہارا فریق تین درہم پر صلح کرتا رہا، مگر تم نے نہ مانا اور بات بڑھا دی، اب تم مانتے نہیں تو سن لو کہ تمہارا حق کیا ہے، مدعی:فرمائیے اور وجہ معقول بیان کیجئے، حضرت علی:آٹھ آٹھ روٹیوں کے تین ٹکڑے برابر کے کرو تو چوبیس(24)ٹکڑے ہوئے، اب تم تین آدمی کھائے، یہ تو معلوم نہیں کہ کس نے زیادہ کھایا اور کس نے کم؛ لہٰذا فرض کرلو کہ سب نے برابر کھائے، مدعی:ہاں، بے شک، حضرت علی:تو اس صورت میں ہر ایک نے آٹھ آٹھ ٹکڑے کھائے، تیری روٹیوں سے صرف ایک ٹکڑا بچا جو تیسرے نے کھایا اور تمہارے فریق کی پانچ روٹیاں تھیں، جن کے پندرہ ٹکڑے ہوئے، آٹھ خود کھایا اور سات تیسرے کو کھلائے، اب تمہاری تین روٹیوں کے نو ٹکڑوں میں سے صرف ایک ٹکڑا تیسرے آدمی نے کھایا جس کا عوض ایک درہم ہے اور تمہارے فریق کے سات ٹکڑے کھائے جس کا عوض سات درہم ہے۔
مدعی:آپ نے ٹھیک فیصلہ کیا، بے شک میرا حق ایک ہی درہم ہے اور میں راضی ہوں ۔جی ہاں یہ وہ ہی عظیم ہستی ہے جس کے متعلق تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کی شادی کا فیصلہ آسمانوں پر ہو چکا تھا۔ یہ شادی امر الٰہی سے سرانجام پائی اس لئے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ولایت مصطفیٰ کے سلسلے کو قائم ہونا تھا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کو تکمیل دعائے ابراہیم علیہ السلام کا ذریعہ بنانا تھا اسی مقصد کے لئے تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ان کی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کے ذریعہ ایک اور مضبوط اور پاکیزہ نسبت بھی قائم ہوئی۔ مولائے کائنات حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم اور خاتون جنت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا اور ان کی اولاد اطہار جمہور اہل اسلام کے ہاں محترم و مکرم اور قابل عزت و تکریم ہیں یہ نہ تو کسی خاص فرقے کا مشرب و مسلک ہے اور نہ کسی کی خاص علامت ہے یہ خانوادہ نبوت ہے اور جملہ مسلمانوں کے ہاں معیار حق اور مرکز و محور ایمان و عمل ہے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ (599 – 661) رجب کی تیرہ تاریخ کو شہر مکہ میں خانہ کعبہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کی پیدائش خانہ کعبہ کے اندر 13 رجب بروز جمعہ 30 عام الفیل کو ہوئی۔ حضرت علی علیہ السلام پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے چچا زاد بھائی ہیں بچپن میں پیغمبرصلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے گھر آئے اور وہیں پرورش پائی۔ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زیر نگرانی آپ کی تربیت ہوئی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ پہلے مرد تھے جنہوں نے اسلام کا اظہار کیا۔ آپ کی عمر اس وقت تقریبا دس یا گیارہ سال تھی۔آپ کی شادی مبارک حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی شہزادی حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا سے ہوئی اور آپ کی گھریلو زندگی طمانیت اورراحت کا ایک بے مثال نمونہ تھی۔
غزوہ بدر،غزوہ احد، غزوہ خندق، غزوہ خیبر اور غزوہ حنین وہ بڑی لڑائیاں ہیں جن میں حضرت علی رضی اللہ عنہنے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ رہ کر اپنی بے نظیر بہادری کے جوہر دکھلائے . تقریباًان تمام لڑائیوں میں حضرت علی علیہ السلام کو علمداری کا عہدہ بھی حاصل رہا۔حضرت علی علیہ السلام مسلمانوں کے پہلے امام اور چوتھے خلیفہ تھے۔ کچھ اقوال مبارک حضرت علی رضی اللہ عنہکے بارے میں احادیث نبوی ۖ کی روشنی میں ۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں۔۔
سبحان اللہ .. چند احادیث مبارک کی روشنی میں مولائے کائینات و متقیان حضرت علی رضی اللہ عنہکی شان مبارک دیکھئے … 1 حضرت علی رضی اللہ عنہ مجھ سے ہیں اور میں علی سے ہوں 2. میں علم کا شہر ہوں او حضرت علی رضی اللہ عنہ اس کا دروازہ ہے 3.تم سب میں بہترین فیصلہ کرنے والا حضرت علی رضی اللہ عنہ ہے 4 حضرت علی رضی اللہ عنہکو مجھ سے وہ نسبت ہے جو ہارون کوحضرت موسیٰ علیہ السّلام سے تھی 5.علی مجھ سے وہ تعلق رکھتے ہیں جو روح کو جسم سے یا سر کو بدن سے ہوتا ہے۔ 6حضرت علی رضی اللہ عنہ اللہ اور رسولۖ کے سب سے زیادہ محبوب ہیں 7. مباہلہ کے واقعہ میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو نفسِ رسول کا خطاب ملا. 8.عملی اعزاز یہ تھا کہ مسجد میں سب کے لئے دروازے بند ہوئے تو حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے لئے دروازہ کھلا رکھا گیا. 9.جب مہاجرین و انصار میں بھائی چارہ کیا گیا تو حضرت علی علیہ السلام کو پیغمبر نے اپنا دنیا واخرت میں بھائی قرار دیا 10. سارے جہانوں کے سردار خاتم الانبیاء جناب رسالت ۖ نے ہزاروں مسلمانوں کے مجمع میں حضرت علی کو اپنے ہاتھوں پر بلند کر کے یہ اعلان فرما دیا کہ جس کا میں مولا (مددگار، سرپرست) ہوں اس کا حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی مولا ہیں۔
تاریخ اسلام میں شیر خدا ، دمادِ مصطفےٰ ۖ کی اعلیٰ بصیرت ، بہادری ، جرت، دلیری اور افہام و تفہیم کے لا تعداد واقعات روز روشن کی طرح پوری آب و تاب سے چمک رہے ہیں ، حضرت علی علم کا دروازہ ہے، فرمان رسول ۖ کی روشنی میں ایک واقعہ قلم کر کے آپ سے اجازت لوں گا، تین آدمیوں نے ” اونٹوں کا کاروبار ” شروع کیا، ایک وقت آیا ان میں اختلافات پیدا ہو گئے، انہوں نے اپنے اپنے حصے کے اونٹ تقسیم کرنے چاہے مگر مسئلہ پیچیدہ سے پچیدہ ہوتا گیا، کیونکہ تینوں آدمی کے پاس کل اونٹ17 تھے جبکہ پہلے آدمی کا حصہ آدھا تھا ، دوسرے آدمی کا حصہ تیسرا حصہ جبکہ تیسرے آدمی کا حصہ اونٹوں میں نواں تھا، جھگڑا شدت اختیار کرتا گیا کیوںکہ تینوں آدمی اپنا اپنا حصہ تو الگ الگ کرنا چاہتے تھے مگر اونٹ کو زبح کر کے حصے نہیں کرنا چاہتے تھے، ہر طرف سے نا کامی ہوئی تومعاملہ امیر المومنین حیدر کرار جناب حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آیا اور عرض کیا ہم اپنا اپنا حصہ الگ کرنا چاہتے ہیں مگر کسی اونٹ کے ” حصے نہیں کرنا چاہتے ” سبحان اللہ ! سیرت مصطفےٰ ۖ کے گھرانے میں پرورش پانے والے ، جنتی نوجوانوں کے سردار حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے باپ ، خاتون جنت ، لخت جگر جناب رسول خدا حضرت فاطمہ بتول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے شریک حیات جناب حضرت علی شیر خدا سے کیسا حکمت ، ایمان فروز اور دانائی سے معاملہ حل کیا ہے کہ ہر ایک کو اس کا حصہ بھی مل گیا اور اونٹ کو ٹکروں میں تقسیم ہونے سے بچا لیا۔
جناب حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک اونٹ اپنی طرف سے جمع کیا اس طرح 17 اونٹوں کی جگہ 18 اونٹ ہو گئے ، آپ نے پہلے آدمی جس کا آدھا حصہ تھا اس کو 9 اونٹ دے دئے ، پھر دوسرے آدمی کو جس کا تیسرا حصہ تھا اس کو 18 اونٹوں سے 6 اونٹ مل گئے جبکہ تیسرے آدمی جس کا نواں حصہ تھا 18 اونٹوں سے اس کو نواں حصہ یعنی 2 اونٹ دے دئے گئے اس طرح 9+6+2 =17 اونٹ تینوں آدمیوں میں حصوں کے مطابق برابر تقسیم بھی ہو گئے اور جو اونٹ اپنی طرف سے شامل کیا تھا وہ بھی واپس کر لیا۔
ایک آدمی کی ایک بیوی اور ایک لونڈی تھی دونوں بیک وقت بچوں کو جنم دیا۔ ایک کو اللہ پاک نے بیٹی کی نعمت سے نوازہ اور دوسری کو بیٹا سے سرفراز کیا۔ دونوں کی ایک ہی وقت پیدائیش ہونے سے نومولد وں کی پہچان نہ رہی دونوں کا دعویٰ تھا کہ لڑکا اس کا ہے لڑکی کی کوئی ماں بننے کے لئے تیار نہ ہوئی ، معاملے میں شدت آئی تو انصاف کے لئے امیر المومنین حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے در انصاف پر التجا کی گئی ، آپنے دونوں کو الگ الگ کیا اور پوچھا مگر ہر ایک اپنے اپنے موقف پر ڈٹی ہوئی تھی۔ در حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ہو اور انصاف نہ ہو ایسا ممکن ہی نہیں ، آپ نے کہا ٹھیک ہے دو خالی ہم وزن شیشیاں لائی جائیں ، دونوں اپنا اپنا دودھ خالی بوتلوں میں بھر کر لیں آئیں ، جب دودھوالی بوتلوں کو پیش کیا گیا تو ان کا وزن کیا گیا ایک کا دودھ وزنی جبکہ دوسری کا دودھ وزن میں ہلکہ نکلا۔ آپ نے فیصلہ سنایا کہ جس کا دودھ وزن میں بھاری ہے لڑکا اس کو دے دیا جائے ، جب پوچھا گیا شیر خدا حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہ دودھ کے وزنی اور ہلکہ ہونے کی کیا حکمت ہے ؟ تو آپ نے ارشاد فرمایا ، خالق ، مالک رازقِ حقیقی اللہ پاک نے لڑکے کو دوحصے اور لڑکی کو ایک حصہ دینے کا حکم فرمایا ہے تو پھر دودھ کا وزن کیسے برابر ہو سکتا ہے۔ اللہ پاک ان عظیم ہستیوں کے صدقے اسلامی ممالک اور مظلوم مسلمانوں کی مدد فرمائے۔ آمین۔