ایک ہلکی داڑھی والا شخص حضرت عمر بن الخطابؓ اور حضرت علیؓ کے پاس بیٹھا تھا اس کی آنکھیں اندر کو دھنسی ہوئی تھیں اور زبان ذکر و تسبیح میں مشغول تھی ۔ حضرت عمرؓ نے اس سے پوچھا کہ آپ نے صبح کس حال میں کی؟ اس آدمی نے عجیب انداز سے جواب دیا کہ میں نے اس حال میں صبح کی کہ فتنہ کو پسند کرتا ہوں اور حق بات سے کراہت کرتا ہوں۔ اور بغیر وضو کے نماز پڑھتا ہوں اور میرے لیے زمین پر وہ چیز ہے جو آسمان پر اللہ کے لیے نہیں ہے! (یہ سن کر) حضرت عمرؓ طیش میں آ گئے اور اللہ کے دین کی خاطر انتقام لینے پر آمادہ ہو گئے اور اس آدمی کو پکڑ کر سخت سزا دینے لگے تو حضرت علیؓ نے ہنستے ہوئے کہا: اے امیر المومنین! یہ شخص جو یہ کہتاہے کہ وہ فتنہ کو پسند کرتاہے اس سے اس کی مراد مال و اولاد ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں مال و اولاد کو فتنہ کہا گیا ہے: ’’اِنَّمَا اَمْوَالُکُمْ وَ اَوْلَادُکُمْ فِتْنَۃ’‘‘‘ (الانفال:28) اور حق کو ناپسند کرتا ہے اس سے مراد موت کی ناپسندیدگی ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’وَجَآئتْ سَکْرَۃُ الْمَوْتِ بِالْحَقِّ ذٰلِکَ مَا کُنْتَ مِنْہُ تَحِیْدُ‘‘ (ق:19) اور بغیر وضو کے نماز پڑھتاہے اس سے مراد نبی کریمؐ پر صلوٰۃ (درود) بھیجنا ہے، ظاہر ہے کہ صلوٰۃ کے لیے وضو ضروری نہیں ہے۔ اور اس نے جو یہ کہا ہے کہ اس کے لیے زمین پر وہ چیز ہے جو آسمان پر اللہ کے لیے نہیں ہے اس سے اس کی مراد بیوی بچے ہیں، ظاہر ہے کہ اللہ کی نہ بیوی ہے اور نہ اولاد، وہ ذات تو یکتا بے نیاز ہے، نہ اس کی اولاد ہے اور نہ وہ کسی کی اولاد ہے اور اس کا کوئی ہمسر نہیں۔ حضرت عمر بن الخطابؓ کا چہرہ خوشی سے دمک اٹھا اورہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی اور خوشی سے جھومتے ہوئے فرمایا: وہ جگہ بری ہے جہاں ابوالحسنؓ نہ ہو یعنی علی بن ابی طالبؓ۔‘‘